امارات کی طرح دیگر مسلم ممالک سے بھی معاہدے ہوجائیں گے،اسرائیل

جاسم محمد

محفلین
امارات کی طرح دیگر مسلم ممالک سے بھی معاہدے ہوجائیں گے،اسرائیل
ویب ڈیسک ایک گھنٹہ پہلے
2070044-israeliinteligenceminister-1597586503-177-640x480.jpg

اسرائیلی وزیر انٹیلی جینس ایلی کوہن نے آرمی ریڈیو سے گفتگو میں دیگر ممالک سے ممکنہ معاہدوں کا انکشاف کیا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

یروشلم: اسرائیل کے انٹیلی جینس کے وزیر نے کہا ہے کہ خلیجی ممالک میں بحرین اور عمان بھی متحدہ عرب امارات کے نقش قدم پر چلیں گے اور دیگر مسلمان ممالک سے بھی آئندہ برس تک معاہدوں کا امکان ہے۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیل کے وزیر برائے انٹیلی جینس ایلی کوہن نے اتوار کو اسرائیل کے آرمی ریڈیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عمان اور بحرین سے بھی امارات جیسے معاہدے ہونے والے ہیں ، اس کے علاوہ مسلمان افریقی ممالک سے بھی سفارتی تعلقات کے قیام کے معاہدے ہوجائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں عمان اور بحرین لازمی طور پر ایجنڈا کا حصہ ہیں اور میرے تجزیے کے مطابق آئندہ برس میں مسلم افریقی ممالک سے بھی امن معاہدے ہوجائیں گے جن میں سوڈان سرِ فہرست ہے۔

واضح رہے کہ بحرین اور عمان دونوں ممالک نے اسرائیل کے ساتھ یو اے ای کے معاہدے کا خیر مقدم کیا تھا تاہم انہوں نے اس سلسلے میں اپنے آئندہ کے لائحۂ عمل کے بارے میں تاحال کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو عمان اور سوڈان کی قیادت سے ملاقاتیں بھی کرچکے ہیں۔

خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ دوسری جانب وائٹ ہاؤس کے حکام نے بھی تصدیق کی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ معمول کے سفارتی تعلقات کے قیام کے لیے امریکا ’’متعدد‘‘ ممالک سے رابطے میں ہے۔ تاہم امریکی ذرائع نے ممالک کے نام بتانے سے گریز کیا ہے۔

جمعرات کو عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے معاہدے کے بعد مسلم ممالک میں ترکی اور ایران کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا ہے اور فلسطینیوں نے بھی اس معاہدے کو بے وفائی سے تعبیر کیا ہے۔

عرب ممالک میں مصر نے 1979 اور اردن نے 1994 میں اسرائیل سے معاہدے کیے تھے تاہم زیادہ تر عرب ممالک کی طرح یواے ای کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی تعلقات نہیں تھے۔ گزشتہ ہفتے ہونے والے معاہدے کے بعد یواے ای تیسرا عرب ملک ہے جس نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کیے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
پاکستان فوری طور پر اسرائیل کو تسلیم کرے
17/08/2020 سید مجاہد علی



متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور سفارتی تعلقات بحال کرنے کے اقدام پر عرب ممالک میں تو کوئی خاص رد عمل نہیں آیا لیکن ترکی نے اسے منافقت اور ایران نے مسلمانوں سے غداری قرار دیا ہے۔ البتہ یہ بیانات اسلام یا مسلمان دوستی اور فلسطینیوں کی محبت سے زیادہ علاقائی سیاست میں بڑھتی ہوئی تقسیم کی علامت ہیں۔ بعینہ جیسے متحدہ عرب امارات کا فیصلہ عرب ممالک کی طرف سے فلسطین اور اسرائیل کے حوالے سے بڑی تبدیلی کا اہم اشارہ ہے۔

پاکستان نے عرب ملکوں سے دوستی اور وابستہ مفادات کی وجہ سے اسرائیل سے تعلقات استوار نہیں کیے حالانکہ پاکستان کا نہ اسرائیل کے ساتھ کوئی براہ راست تنازع ہے اور نہ ہی پاکستان کے اس فیصلہ سے فلسطین آزاد کرانے کی مہم کو کوئی قابل ذکر فائدہ ہو سکا ہے۔ اس معاملہ کو اس تناظر میں بھی دیکھنا چاہئے کہ پاکستان کے لئے سب سے اہم معاملہ کشمیر کی آزادی ہے۔ کشمیریوں سے کی گئی کمٹ منٹ کے علاوہ جغرافیائی ضرورت اور وہاں سے آنے والے دریاؤں کی اہمیت کے پیش نظر بھی کشمیر پاکستان کے لئے نہایت ضروری ہے۔ اسی لئے اسے پاکستان کی ’شہ رگ‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے باوجود پاکستان نے بھارت سے نہ صرف تعلقات قائم کئے ہوئے ہیں بلکہ اس کے ساتھ تجارتی تعلقات بھی استوار ہیں۔

پاکستان گزشتہ اگست میں مقبوضہ کشمیر میں شروع کئے گئے استبداد کے تازہ دور سے قبل مسلسل بھارت کے ساتھ مذاکرات کرنے کی بات کرتا رہا ہے۔ اسلام آباد نے ہمیشہ یہ مؤقف اختیار کیا کہ کشمیر کا تنازعہ بات چیت سے ہی حل ہو سکتا ہے۔ بھارت اس راہ میں روڑے اٹکاتا رہا ہے۔ لیکن پاکستان نے اس سے کبھی سفارتی تعلقات نہیں توڑے۔ اس کے برعکس عربوں نے فلسطینیوں کا حق حاصل کرنے کے لئے اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کی پالیسی اختیار کی تھی۔ وقت نے ثابت کیا کہ یہ حکمت عملی درست نہیں تھی۔ 1967 کی عرب اسرائیل جنگ سے قبل عرب ممالک اس غلط فہمی کا شکار تھے کہ وہ اسرائیل کو فوجی لحاظ سے شکست دے کر نیست و نابود کردیں گے۔

تاہم 67ء کی چھ روزہ جنگ میں عبرت ناک شکست کے بعد بات چیت کی ضرورت اور معاملہ کو مفاہمت سے حل کرنے کی ضرورت کو تسلیم کیا گیا۔ اب عرب ممالک دو ریاستی حل کی بات کرتے ہیں یعنی اسرائیل کو قبول کرلیا جائے لیکن اس کے ساتھ ہی مقبوضہ علاقوں میں ایک آزاد فلسطینی ریاست بھی قائم کی جائے۔ پاکستان کی سرکاری پوزیشن بھی یہی ہے۔ 67 کی جنگ میں مصر اور اردن نے اسرائیل کے ہاتھوں اپنے کھوئے ہوئے علاقے وا گزار کروانے کے لئے بالترتیب 1979 اور 1994 میں اسرائیل کو تسلیم کر لیا تھا۔ 1993 اور 1995 میں ہونے والے اوسلو معاہدے سے امید پیدا ہوئی تھی کہ اسرائیل فلسطینی ریاست کے قیام میں سہولت فراہم کرے گا۔ اس طرح یہ دیرینہ تنازعہ حل ہو جائے گا۔ البتہ اسرائیل میں نیتن یاہو جیسے انتہا پسند لیڈر کی وجہ سے اوسلو معاہدہ پر عمل درآمد ممکن نہیں ہوسکا بلکہ اسرائیل نے مقبوضہ علاقوں میں یہودی بستیاں بنانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اب اسرائیلی حکومت دریائے اردن کے مغربی کنارے پر ان علاقوں کو باقاعدہ اسرائیل کا حصہ بنانے کا ارادہ رکھتی ہے جہاں غیر قانونی طور سے یہودی بستیاں آباد کی گئی ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے معاہدہ میں انہی علاقوں کو اسرائیل میں شامل کرنے کا فیصلہ معطل رکھنے کی بات کی گئی ہے۔

عرب ممالک اور اسرائیل میں کئی سال سے سلسلہ جنبانی شروع ہوچکا تھا۔ متعدد عرب ممالک در پردہ اسرائیل کو حقیقت کے طور پر تسلیم کرنے کے اشارے دیتے رہے ہیں۔ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد سے سعودی عرب بھی اسرائیل کے بارے میں نرم گوشہ پیدا کرچکا ہے۔ گزشتہ برس جب سعودی ولی عہد نے 500 ارب ڈالر کی لاگت سے ایک نیا شہر آباد کرنے کا منصوبہ پیش کیا تھا تو اس وقت بھی اسرائیلی سرمایہ کاری اور تکنیکی تعاون کا آپشن کھلا رکھا گیا تھا۔ اس دوران اگر اسرائیل کی ہٹ دھرمی اور لیت و لعل کی وجہ سے خود مختار فلسطینی ریاست کا منصوبہ مکمل نہیں ہو سکا جس کی امید اوسلو معاہدہ کے تحت قائم ہوئی تھی۔ تو دوسری طرف غزہ میں حماس کے اقتدار اور دنیا میں عمومی طور سے اسلامی انتہا پسند گروہوں کی دہشت گردی نے بھی اس منصوبہ کے لئے مشکلات پیدا کیں۔ البتہ یہ بات طے ہے کہ پورے مشرق وسطیٰ میں ایران کے سوا کوئی بھی ملک اسرائیل کو نیست و نابود کرنے اور فلسطینیوں کو ان کا وطن واپس دلانے کی بات نہیں کرتا۔

اس دوران پاکستان کے وزیر خارجہ نے کشمیر کے مسئلہ پر اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کا اجلاس نہ بلانے اور کشمیر پر پاکستانی مؤقف کی تائید کے لئے سرگرم رویہ اختیار نہ کرنے پر سعودی حکومت پر نکتہ چینی کی تھی۔ اس تناظر میں یہ اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ سعودی عرب نے پاکستانی اسٹیٹ بنک میں رکھے گئے 3 ارب ڈالر میں سے ایک ارب ڈالر فوری طور سے واپس لے لئے ہیں جبکہ مزید ایک ارب ڈالر کا تقاضہ کیا جا رہا ہے۔ مؤخر ادائیگی پر تیل فراہم کرنے کا معاہدہ بھی شبہات کا شکار ہے۔ پاکستان کو سعودی مطالبہ پورا کرنے کے لئے چین سے مزید قرضہ لینا پڑا ہے۔ ایک ٹی وی ٹاک شو میں سعودی عرب کے بارے میں غیر سفارتی لب و لہجہ اختیار کرنے کے بعد سے شاہ محمود قریشی تو خاموش ہیں لیکن پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید سعودی عرب جا رہے ہیں تاکہ دوست ملک کے ساتھ پیدا ہونے والی دوری کو ختم کیا جا سکے۔ اس میں شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ اس دورہ کے دوران اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان ہونے والے تازہ ترین معاہدہ پر بھی بات ہوگی۔

پاکستان میں سوشل اور سرکار پرست الیکٹرانک میڈیا پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے معاملہ پر ضرور جذباتی اور انتہا پسندانہ جذبات کا اظہار سامنے آیا ہے لیکن اس دوران اس امکان پر بھی خیالات سامنے آئے ہیں کہ پاکستان کیوں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال نہیں کرتا۔ اسرائیل کے بارے میں پاکستان میں جو جذباتی کیفیت پیدا کی گئی ہے، اس میں اس قسم کا فیصلہ سیاسی طور سے مہلک بھی ہو سکتا ہے لیکن اگر ملک و قوم کے وسیع تر مفادات اور دنیا میں پاکستان کی سیاسی پوزیشن کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو پاکستان کے لئے اپنے کارڈز کو سرعت اور عقلمندی سے کھیلنے کا یہی موقع ہے۔ کچھ مدت بعد جب متعدد عرب ممالک یکے بعد دیگرے یو اے ای کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسرائیل کو تسلیم کرلیں گے تو پاکستان کی طرف سے ایسا ہی فیصلہ محض رسمی کارروائی سمجھا جائے گا۔ البتہ اگر دیگر اہم عرب ممالک اور سعودی عرب سے پہلے جوہری صلاحیت کا حامل پاکستان اسرائیل کے بارے میں اپنی پالیسی تبدیل کرتا ہے تو اس سے سیاسی و سفارتی فائدہ حاصل کیا جا سکے گا۔

بھارت نے عرب ملکوں کے علاوہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو فروغ دے کر ایک طرف معاشی فائدے حاصل کئے ہیں تو دوسری طرف اسرائیلی ٹیکنالوجی سے اپنی عسکری صلاحیتوں کو بہتر بنایا ہے۔ پاکستان میں اسرائیل بھارت گٹھ جوڑ کو ملکی سلامتی کے لئے اہم اندیشوں میں شامل کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل کو ہمیشہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا دشمن سمجھا جاتا رہا ہے۔ پاکستان کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اقدام ان اندیشوں کا خاتمہ کر سکتا ہے۔ اسرائیل، بھارت کی وجہ سے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا مخالف نہیں بلکہ اسے اندیشہ ہے کہ اسے اسلامی بم قرار دینے والے عناصر کہیں کسی بحران میں پاکستانی جوہری صلاحیت کو اسرائیل کے خلاف استعمال کرنے میں کامیاب نہ ہو جائیں۔ پاکستان اگر اسرائیل کا دوست ملک ہو گا تو ایسے اندیشوں کو آسانی سے ختم کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح بھارت کے معاملہ میں اسرائیل کو متوازن رویہ اختیار کرنے پر آمادہ بھی کیا جا سکتا ہے۔

پاکستانی قیادت اور عوام کو یہ سچائی تسلیم کرنا ہوگی کہ اسرائیل ایک حقیقت ہے۔ اسے ختم کرنے کا کوئی منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اسرائیل مخالف ملکوں میں نہ تو اتنی سفارتی صلاحیت ہے اور نہ ہی ایسی عسکری قوت کہ یہودیوں کے لئے قائم کی گئی اس ریاست کو ختم کرکے یہ سارا علاقہ فلسطینیوں کو واپس کروا دیں۔ اس کے برعکس اگر اسرائیل کو یہ یقین دہانی کروا دی جائے کہ اس کی سلامتی کو کوئی خطرہ نہیں اور کوئی ملک اس کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتا تو دو ریاستی فارمولے پر عمل درآمد آسان ہو گا اور فلسطینیوں کو علیحدہ وطن کے حصول میں سہولت ہوگی۔ پاکستان کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنا ایسی یقین دہانی میں اہم کردار ادا کرے گا۔ پاکستان اسرائیل کے ساتھ اجنبیت برتنے کی بجائے اس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر کے فلسطینی عوام کی زیادہ خدمت کر سکتا ہے۔

پاکستان کے لئے یہ ایک اہم موقع ہے۔ ایسا ہی ایک موقع 1993 میں اوسلو معاہدہ کے بعد پیدا ہوا تھا۔ اردن نے اس سے فائدہ اٹھایا لیکن پاکستانی حکومت اسرائیل کے بارے میں اپنی بے مقصد سفارتی پوزیشن تبدیل نہ کر سکی۔ یو اے ای کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد پیدا ہونے والے حالات میں یہی دکھائی دیتا ہے کہ بالآخر پاکستان کو بھی اسرائیل کو تسلیم کرنا پڑے گا لیکن اگر یہ فیصلہ آج سے کچھ برس بعد کیا گیا تو نہ اس کی کوئی اہمیت ہو گی اور نہ ہی اس فیصلہ کا کوئی سفارتی اثر ہوگا۔ پاکستان کو وسیع تر قومی مفاد کی بنیاد پر فوری طور سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کرنا چاہئے۔ اور اس مقصد کے لئے دلائل کی بنیاد پر عوام کو تیار کیا جائے۔

اسرائیل کے مخالفین کو یہ بھی دیکھ لینا چاہئے کہ پاکستان کے پاس دوسرا آپشن کیا ہے؟ کیا پاکستان، ترکی اور ایران کے ساتھ مل کر مسلم امہ کے اس تصور کو زندہ کرنا چاہتا ہے جسے عربوں کے علاوہ دنیا کے بیشتر مسلمان ممالک مسترد کرتے ہیں۔ یا بدستور تذبذب او ر بے یقینی سے کسی قومی مفاد کی حفاظت ممکن ہے؟
 
Top