اللہ میاں کا فون نمبر

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
دروازے کی گھنٹی کی آواز

ماں : (دور سے) ارے بیٹے احمد ، دیکھنا کون ہے دروازے پر ؟

احمد : (دُور سے) امی ! ہم ذرا ٹیلی فون کر رہے ہیں۔ منی بہن تم دیکھ لو ذرا ۔

حمیدہ : اچھا اچھا ، دیکھتی ہوں۔

دروازے کی گھنٹی کی آواز دوبارہ آتی ہے

ماں : منی !

حمیدہ : (دور سے) دیکھ رہی ہوں امی ۔

دروازہ کھولنے کی آواز

چچا جان : (گھر میں داخل ہوتے ہوئے) السلام علیکم !

تینوں : وعلیکم السلام !

ماں : ( آ کر بیٹھتے ہوئے) بھائی میں ذرا روٹی ڈال رہی ہوں۔ تم بھی کھانا کھا کر ہی جانا ۔ اب وقت تو ہو ہی رہا ہے کھانے کا ۔

چچا جان : آپ اطمینان سے روٹی پکائیں ، میں اتنے میں بچوں سے گپ شپ کرتا ہوں۔

ہاں جناب احمد صاحب کس کو فون ہو رہا ہے؟

حمیدہ : ایسے ہی اِدھر اُدھر کے دوستوں کو کرتے رہتے ہیں۔۔۔

احمد : اِدھر اُدھر کے دوستوں کو کیوں کرتا ۔ اسلم کو کر رہا تھا ۔ اٹھا ہی نہیں رہا کوئی۔

چچا جان : (ہنستے ہوئے) اسلم ادھر اُدھر کا نہیں ؟ نہ اِدھر کا نہ اُدھر کا؟

احمد : نہیں چچا جان ، ہمارا مطلب ہے وہ تو ہمارا پکا دوست ہے نا۔۔۔

حمیدہ : آپ کے تو سبھی پکے دوست ہیں ، سبھی کو فون کرتے ہیں آپ۔۔۔

احمد : جی نہیں سب پکے نہیں ہیں ۔ اسلم سب سے پکا ہے ۔

چچا جان : اچھا چلو یہ بتاؤ ، سب سے پکا دوست کون ہوتا ہے؟

احمد : کون ہوتا ہے یعنی کیا مطلب ؟

چچاجان : یعنی ، مطلب یہ کہ سب سے پکے دوست کی کیا کیا خوبیاں ہوتی ہیں؟

احمد : وہ جو ساتھ پڑھتا ہو ، ساتھ کھیلتا ہو۔۔۔

چچا جان : اور۔۔۔

احمد : اور۔۔۔اور آپ بتلائیے۔۔۔

حمیدہ : عید کارڈ بھیجتا ہو۔۔۔ہماری پکی دوست سمیعہ ہے۔ اس نے ہمیں اتنا خوبصورت عید کارڈ بھیجا ہے۔
 
Top