العزیزیہ ریفرنس: نوازشریف نے قومی اسمبلی میں خطاب پر استثنیٰ مانگ لیا

جاسم محمد

محفلین
العزیزیہ ریفرنس: نوازشریف نے قومی اسمبلی میں خطاب پر استثنیٰ مانگ لیا
192971_68207_updates.jpg

احتساب عدالت کی جانب سے ٹرائل کی مدت میں ساتویں بار توسیع کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا بھی امکان۔ فوٹو: فائل
اسلام آباد: احتساب عدالت میں العزیزیہ ریفرنس کی سماعت کے دوران سابق وزیراعظم نواز شریف نے قومی اسمبلی میں کیے گئے خطاب پر ایک مرتبہ پھر استثنیٰ مانگ لیا جب کہ انہوں نے عدالت کی جانب سے پوچھے گئے 50 میں سے 44 سوالات کے جواب دے دیے۔

اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے العزیزیہ ریفرنس کی سماعت کی تو اس موقع پر نواز شریف نے احتساب عدالت کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے تحریری جواب عدالت میں جمع کرائے۔

نواز شریف کے تحریری جوابات فاضل جج نے خود پڑھے اور نواز شریف نے 44 سوالات کے جواب دیے اور عدالت سے استدعا کی کہ دیگر سوالات کے جوابات خواجہ حارث سے مشاورت کے بعد دوں گا، اس کے لیے وقت دیا جائے۔

نواز شریف نے کہا کہ کچھ سوالات پیچیدہ ہیں جن کا ریکارڈ دیکھنا پڑے گا، سابق وزیراعظم کے وکیل زبیر خالد نے عدالت سے استدعا کی کہ کیا ان کے موکل کو جانے کی اجازت ہے۔

جج ارشد ملک نے کہا کہ ابھی نواز شریف کے دستخط باقی ہیں، سوالوں کے جواب ٹائپ ہونے پر دستخط کرنے تین بجے تک آجائیں، اب سپریم کورٹ کو نواز شریف کا بیان بھجوائیں گے کہ یہاں تک ریکارڈ کرلیا۔

وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو سابق وزیراعظم کو بقیہ سوالات بھی دے دیے گئے، سابق وزیراعظم سے مجموعی طور پر 151 سوالات پوچھے گئے ہیں جن میں سے نواز شریف 44 کے جوابات ریکارڈ کرا چکے ہیں۔

قومی اسمبلی میں تقریر کچھ دستاویزات کی بنیاد پر کی، یہ کبھی نہیں کہا کہ گلف اسٹیل مل، العزیزیہ یا دبئی فیکٹری کا مالک ہوں: نواز شریف

نواز شریف نے قومی اسمبلی میں کیے گئے خطاب پر ایک مرتبہ پھر استثنی مانگتے ہوئے جواب دیا کہ قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر کسی عدالت کے سامنے نہیں پیش کی جاسکتی، آئین کے آرٹیکل 66کے تحت قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر کو استثنیٰ حاصل ہے۔

نواز شریف نے کہا کہ میں نے جو قومی اسمبلی میں تقریر کی وہ کچھ دستاویزات کی بنیاد پر کی، یہ کبھی نہیں کہا کہ گلف اسٹیل مل، العزیزیہ یا دبئی فیکٹری کا مالک ہوں، میرا گلف اسٹیل ملز کے کیے گئے معاہدوں سے کوئی تعلق نہیں رہا۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ العزیزیہ اسٹیل مل میرے والد مرحوم نے قائم کی تھی اور میرا کسی حیثیت میں بھی خاندانی کاروبار سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

یاد رہے کہ سابق وزیراعظم کے خلاف ٹرائل مکمل کرنے کے لیے فاضل جج ارشد ملک کو سپریم کورٹ کی جانب سے دی گئی ڈیڈ لائن 17 نومبر کو ختم ہورہی ہے۔

احتساب عدالت کی جانب سے ٹرائل کی مدت میں ساتویں بار توسیع کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کا بھی امکان ہے۔

یہ بات درست ہے کہ تین بار ملک کا وزیراعظم رہا، وزیراعلیٰ، وزیر خزانہ اور اپوزیشن لیڈر بھی رہ چکا ہوں: نواز شریف
اس سے قبل سماعت کے آغاز پر سابق وزیراعظم نواز شریف کو روسٹرم پر بلایا گیا جہاں آنے کے بعد انہوں نے 342 کا بیان قلم بند کرایا، طویل سوالات کے باعث سابق وزیراعظم کے وکلا کی درخواست پر نواز شریف کے تحریری جواب جمع کرلیے گئے۔

فاضل جج ارشد ملک نے پہلا سوال کیا ' کیا یہ درست ہے کہ آپ عوامی عہدیدار رہے ہیں جس کا جواب دیتے ہوئے نواز شریف نے کہا یہ بات درست ہے کہ وزیراعظم، وزیراعلیٰ، وزیر خزانہ اور اپوزیشن لیڈر رہ چکا ہوں اور تین بار ملک کا وزیراعظم رہا ہوں۔

نواز شریف نے کہا کہ 1999 سے 2013 تک عوامی عہدیدار نہیں رہا اور 2000 سے 2007 تک جلا وطن رہا اور یہ درست ہے کہ ویلتھ ٹیکس گوشوارے میں نے ہی جمع کرائے۔

اس موقع پر نواز شریف کے وکلاء نے سوالنامے میں شامل کچھ سوالات پر اعتراض اٹھائے جب کہ سابق وزیراعظم نے کہا کہ کچھ سوالات گنجلگ اور افواہوں پر مبنی ہیں اور کچھ سوالات میں ابہام بھی پایا جاتا ہے۔

نواز شریف کے معاون وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ میاں صاحب نشست پر بیٹھ جائیں ہم جواب تحریر کرا دیتے ہیں جس پر جج ارشد ملک نے کہا کہ اگر جواب یو ایس بی میں ہیں تو جمع کرادیں۔

معاون وکیل نے کہا یو ایس بی میں عدالتی سوالات کے جواب نہیں ہیں، ہارڈ کاپی ہے جس پر جج نے کہا کہ اپنے جواب کی کاپی مجھے دیں میں پڑھ لیتا ہوں جس کے بعد انہوں نے سابق وزیراعظم سے جواب کی کاپی لے لی۔
 

جاسم محمد

محفلین
نواز شریف نے کہا کہ میں نے جو قومی اسمبلی میں تقریر کی وہ کچھ دستاویزات کی بنیاد پر کی، یہ کبھی نہیں کہا کہ گلف اسٹیل مل، العزیزیہ یا دبئی فیکٹری کا مالک ہوں، میرا گلف اسٹیل ملز کے کیے گئے معاہدوں سے کوئی تعلق نہیں رہا۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ العزیزیہ اسٹیل مل میرے والد مرحوم نے قائم کی تھی اور میرا کسی حیثیت میں بھی خاندانی کاروبار سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
اور یوں شریف خاندان دنیا کی تاریخ کا پہلا خاندان بننے میں کامیاب ہو گیا جہاں وراثت دادا سے باپ کی بجائے سیدھا پوتوں میں منتقل ہوتی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
العزیزیہ ریفرنس: نوازشریف کا قطری شہزادے کے خطوط سے لاتعلقی کا اظہار

اسلام آباد: سابق وزیراعظم نواز شریف نے العزیزیہ ریفرنس میں احتساب عدالت کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے جواب دیتے ہوئے قطری شہزادے کے خطوط سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔

احتساب عدالت کے جج ارشد ملک العزیزیہ ریفرنس کی سماعت کر رہے ہیں اور نواز شریف آج مسلسل دوسرے روز عدالت کی جانب سے پوچھے گئے 151 سوالات کے جواب دے رہے ہیں۔

گزشتہ روز نواز شریف نے قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر پر استثنیٰ مانگا اور آج انہوں نے قطری شہزادے شیخ حمد بن جاسم آل ثانی کے خطوط کے حوالے سے کہا کہ ان سے میرا کوئی تعلق نہیں، کسی حیثیت میں کسی بھی ٹرانزیکشن کا حصہ نہیں رہا۔

نواز شریف نے کہا کہ میرا نام کہیں کسی بھی دستاویز میں نہیں، انہوں نے واجد ضیاء کے بیانات پر بھی اعتراضات اٹھائے اور کمرہ عدالت میں اپنے وکیل خواجہ حارث سے مشورہ کرتے رہے۔

یاد رہے کہ پاناما کیس کی سماعت کے دوران شریف خاندان کی قطری شہزادے کے خطوط بطور ثبوت سپریم کورٹ میں پیش کیے گئے جس میں قطری شہزادے نے لندن فلیٹس کے لیے شریف خاندان کے پاس آنے والے سرمایہ سے متعلق بیان دیا۔

سابق وزیراعظم نے سوالات کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ 1999 میں مارشل لاء کے نفاذ کے بعد شریف خاندان کے کاروبار کا ریکارڈ قبضے میں لیا گیا اور ریکارڈ آج تک ایجنسیوں نے واپس نہیں کیا، لوکل پولیس اسٹیشن میں اس حوالے سے شکایت بھی درج کرائی لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔

نواز شریف نے کہا 'جج صاحب ہمارے ساتھ یہ صرف 1999 میں نہیں ہوا، یہ ہمیشہ ہوتا آیا ہے، ہمارے خاندان کی درد بھری کہانی ہے۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ 1972 میں پاکستان کی سب سے بڑی اسٹیل مل اتفاق فاؤنڈری کو قومیا لیا گیا، کسی نے نہیں پوچھا کہ کھانے کے پیسے بھی آپ کے پاس ہیں یا نہیں۔

جے آئی ٹی کے 10 والیم محض ایک تفتیشی رپورٹ ہے، کوئی قابل قبول شہادت نہیں: نواز شریف

نواز شریف نے کہا 'میں تو 1972 میں سیاست میں بھی نہیں تھا، میں نے 80کی دہائی میں سیاست شروع کی۔

نواز شریف کے تحریری بیان کو ریکارڈ کا حصہ بنادیا گیا ہے، سابق وزیراعظم نے اپنے جواب میں کہا کہ جے آئی ٹی کے دس والیم محض ایک تفتیشی رپورٹ ہے، کوئی قابل قبول شہادت نہیں، میرے ٹیکس رکارڈ کے علاوہ جے آئی ٹی کی طرف سے پیش کی گئی کسی دستاویز کا میں گواہ نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ٹیکس ریکارڈ میں نے خود جے آئی ٹی کو فراہم کیا تھا اور میرے خلاف شواہد میں ایم ایل ایز پیش کئے گئے، سعودی عرب سے ایم ایل اے کا کوئی جواب ہی نہیں آیا جب کہ متحدہ عرب امارات سے آنے والا ایم ایل اے کا جواب درست مواد پر مبنی نہیں۔

نواز شریف اب تک مجموعی 151 سوالات میں سے 89 کے جواب دے چکے ہیں، گزشتہ روز انہوں نے 44 سوالات کے جواب دیے تھے، عدالت نے انہیں جانے کی اجازت دیتے ہوئے دوپہر 2 بجے دوبارہ طلب کرلیا۔

یاد رہے کہ احتساب عدالت نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس کی سماعت کر رہی ہے، اس سے قبل احتساب عدالت نے انہیں ایون فیلڈ ریفرنس میں 11 سال قید کی سزا سنائی تھی۔

سابق وزیراعظم کے خلاف ٹرائل مکمل کرنے کے لیے فاضل جج ارشد ملک کو سپریم کورٹ کی جانب سے دی گئی ڈیڈ لائن 17 نومبر کو ختم ہورہی ہے۔

احتساب عدالت کی جانب سے ٹرائل کی مدت میں ساتویں بار توسیع کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کا بھی امکان ہے۔

نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کا پس منظر

سپریم کورٹ نے 28 جولائی 2017 کو پاناما کیس کا فیصلہ سنایا جس کے بعد اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو اقتدار سے الگ ہونا پڑا، عدالت نے اپنے فیصلے میں شریف خاندان کے خلاف نیب کو تحقیقات کا حکم دیا۔

عدالت نے احتساب عدالت کو حکم دیا کہ نیب ریفرنسز کو 6 ماہ میں نمٹایا جائے۔

نیب نے سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ انویسمنٹ ریفرنس بنایا جب کہ نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف ایون فیلڈ (لندن فلیٹس) ریفرنس بنایا۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے تینوں ریفرنسز کی سماعت کی، حسین اور حسین نواز کی مسلسل غیر حاضری پر ان کا کیس الگ کیا گیا اور 6 جولائی 2018 کو ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو 11، مریم نواز کو 7 اور کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال قید و جرمانے کی سزا سنائی۔

شریف خاندان نے جج محمد بشیر پر اعتراض کیا جس کے بعد دیگر دو ریفرنسز العزیریہ اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس کی سماعت جج ارشد ملک کو سونپی گئی جو اس وقت ریفرنسز پر سماعت کر رہے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
اسلام آباد: سابق وزیراعظم نواز شریف نے العزیزیہ ریفرنس میں احتساب عدالت کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے جواب دیتے ہوئے قطری شہزادے کے خطوط سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔
جناب والا۔ یہ ہیں وہ ذرائع جن سے آج میں لاتعلقی کا اعلان کرتا ہوں۔
 

جاسم محمد

محفلین
العزیزیہ ریفرنس: نوازشریف نے بیرون ملک سے بھجوائی گئی رقوم تسلیم کرلیں

اسلام آباد: سابق وزیراعظم نواز شریف نے العزیزیہ ریفرنس کی سماعت کے دوران بیرون ملک سے بھجوائی گئی رقوم تسلیم کرلیں اور اعتراف کیا کہ بیرون ملک سے بھجوائی گئی رقم کا 77 فیصد اپنی صاحبزادی کو گفٹ کیا۔

احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے العزیزیہ ریفرنس کی سماعت کی جس کے دوران نواز شریف نے آج مسلسل تیسرے روز عدالت کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے جواب دیے۔

سابق وزیراعظم نے آج مزید 30 سوالات کے جواب دیے اور وہ عدالت کی جانب سے پوچھے گئے 151 سوالات میں سے 120 کے جواب دے چکے ہیں۔

آج سماعت شروع ہوئی تو نواز شریف نے بطور ملزم عدالتی سوالات کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ العزیزیہ اسٹیل ملز کی ملکیت کا دعویٰ کبھی نہیں کیا، ہمیشہ کہا ہے کہ العزیزیہ کی ملکیت سے کچھ لینا دینا نہیں۔

سابق وزیراعظم نے اپنے جواب میں کہا کہ قطری شہزادے کے خطوط کبھی بھی کسی فورم پر اپنے دفاع کے لیے پیش نہیں کیے اور ذاتی طور پر کبھی قطری خطوط پر انحصار نہیں کیا۔

سابق وزیراعظم سے سوال کیا گیا 'جے آئی ٹی نے کہا قطری نے کوششوں کے باوجود بیان ریکارڈ نہیں کرایا، آپ کیا کہیں گے' جس پر نواز شریف نے کہا حمد بن جاسم نے جے آئی ٹی کو سوالنامہ فراہم کرنے کا کہا تھا، ان کی جانب سے یہ ایک معقول درخواست تھی تاہم جے آئی ٹی نے غیر ضروری طور پر بیان ریکارڈ کرنے کے لئے سخت شرائط رکھیں۔

نواز شریف نے کہا کہ جے آئی ٹی کے طریقہ کار سے لگا کہ وہ قطری شہزادے کا بیان ریکارڈ کرنا نہیں چاہتی، قطری کے خطوط سے کہیں نہیں لگتا وہ جے آئی ٹی سے تعاون کے لیے تیار نہیں تھے۔

العزیزیہ اسٹیل ملز کی فروخت یا اس سے متعلق کسی ٹرانزیکشن کا کبھی حصہ نہیں رہا: نواز شریف
سابق وزیراعظم نے کہا کہ 'قطری نے جے آئی ٹی کو لکھا تھا کہ وہ سپریم کورٹ میں پیش دونوں خطوط کی تصدیق کرتے ہیں اور جے آئی ٹی دوحا آکر ان خطوط کی تصدیق کرسکتی ہے، جے آئی ٹی کے پاس کوئی وجہ نہیں تھی کہ وہ قطری خطوط کو محض افسانہ قرار دے۔

سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ العزیزیہ اسٹیل ملز کی فروخت یا اس سے متعلق کسی ٹرانزیکشن کا کبھی حصہ نہیں رہا، شریک ملزم حسین نواز نے 6 ملین ڈالر میں العزیزیہ کے قیام کا بیان میری موجودگی میں نہیں دیا اور اس کا بیان قابل قبول شہادت نہیں۔

حسن اور حسین نواز سے منسوب کوئی بیان میرے خلاف بطور شواہد پیش نہیں کیا جاسکتا: نواز شریف
نواز شریف نے اپنے بیان میں کہا 'حسن اور حسین نواز کا بیان جے آئی ٹی میں میری موجودگی میں ریکارڈ نہیں ہوا، شریک دونوں ملزم اس عدالت میں پیش ہوئے نا ہی ان کا ٹرائل میرے ساتھ ہو رہا ہے'۔

نواز شریف نے کہا کہ 'حسن اور حسین نواز سے منسوب کوئی بیان میرے خلاف بطور شواہد پیش نہیں کیا جاسکتا اور دونوں کے انٹرویوز بطور شواہد پیش نہیں کیے جا سکتے'۔

سابق وزیراعظم نے کہا 'تفتیش کے دوران کسی بھی شخص کا دیا گیا بیان قابل قبول شہادت نہیں، یہ درست نہیں کہ العزیزیہ اسٹیل ملز حسین نواز نے قائم کی بلکہ یہ میرے والد نے قائم کی تاہم اسٹیل ملز کا کاروبار حسین نواز چلاتے تھے'۔

العزیزیہ ریفرنس کی سماعت پیر تک ملتوی
نواز شریف نے کہا کہ بیرون ملک سے مجھے موصول ہونے والی تمام رقم میرے گوشواروں میں درج ہے اور اس رقم کو میں اپنی مرضی سے خرچ کرنے کا مجاز تھا، سپریم کورٹ کے سامنے کبھی قطری خط پر انحصار نہیں کیا اور جے آئی ٹی کی رپورٹ میں مجھے جعلسازی کا شائبہ ہے۔

احتساب عدالت کی جانب سے پوچھے گئے 151 میں سے 120 سوالات کے جواب ریکارڈ کرادیے جس کے بعد عدالت نے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی۔

یاد رہے کہ احتساب عدالت نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس کی سماعت کر رہی ہے، اس سے قبل احتساب عدالت نے انہیں ایون فیلڈ ریفرنس میں 11 سال قید کی سزا سنائی تھی۔

سابق وزیراعظم کے خلاف ٹرائل مکمل کرنے کے لیے فاضل جج ارشد ملک کو سپریم کورٹ کی جانب سے دی گئی ڈیڈ لائن 17 نومبر کو ختم ہورہی ہے۔

احتساب عدالت کی جانب سے ٹرائل کی مدت میں ساتویں بار توسیع کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کا بھی امکان ہے۔

نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کا پس منظر

سپریم کورٹ نے 28 جولائی 2017 کو پاناما کیس کا فیصلہ سنایا جس کے بعد اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو اقتدار سے الگ ہونا پڑا، عدالت نے اپنے فیصلے میں شریف خاندان کے خلاف نیب کو تحقیقات کا حکم دیا۔

عدالت نے احتساب عدالت کو حکم دیا کہ نیب ریفرنسز کو 6 ماہ میں نمٹایا جائے۔

نیب نے سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ انویسمنٹ ریفرنس بنایا جب کہ نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف ایون فیلڈ (لندن فلیٹس) ریفرنس بنایا۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے تینوں ریفرنسز کی سماعت کی، حسین اور حسین نواز کی مسلسل غیر حاضری پر ان کا کیس الگ کیا گیا اور 6 جولائی 2018 کو ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو 11، مریم نواز کو 7 اور کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال قید و جرمانے کی سزا سنائی۔

شریف خاندان نے جج محمد بشیر پر اعتراض کیا جس کے بعد دیگر دو ریفرنسز العزیریہ اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس کی سماعت جج ارشد ملک کو سونپی گئی جو اس وقت ریفرنسز پر سماعت کر رہے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
اسلام آباد: سابق وزیراعظم نواز شریف نے العزیزیہ ریفرنس کی سماعت کے دوران بیرون ملک سے بھجوائی گئی رقوم تسلیم کرلیں اور اعتراف کیا کہ بیرون ملک سے بھجوائی گئی رقم کا 77 فیصد اپنی صاحبزادی کو گفٹ کیا۔
باقی 23 فیصد پر ہی سزا سُنا دیں۔
نواز شریف نے اپنے بیان میں کہا 'حسن اور حسین نواز کا بیان جے آئی ٹی میں میری موجودگی میں ریکارڈ نہیں ہوا، شریک دونوں ملزم اس عدالت میں پیش ہوئے نا ہی ان کا ٹرائل میرے ساتھ ہو رہا ہے'۔
تو بچوں کی موجودگی میں نواز شریف ان محلات میں قیام کیوں فرماتے ہیں؟ جب اپنے بچوں کے کاروبار، اثاثوں سے نواز شریف کا کوئی تعلق ہی نہیں تو ان سے کروڑوں کے تحائف کس حیثیت سے قبول کر تے ہیں؟ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ ایک جھوٹ کو چھپانے کیلئے لاتعداد جھوٹ بولنے پڑتے ہیں
 

جاسم محمد

محفلین
نواز شریف کیخلاف العزیزیہ ریفرنس میں نیب پراسیکیوٹر کے حتمی دلائل مکمل
193808_8826163_updates.jpg

العزیزیہ کی کسی بھی دستاویز میں میاں محمد شریف کا نام نہیں البتہ ملز کی فروخت کے معاہدے میں حسین نواز کا نام ہے، نیب پراسیکیوٹر۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس میں نیب پراسیکیوٹر نے حتمی دلائل مکمل کرلیے جب کہ فاضل جج نے سوال کیا کہ ملزمان نے العزیزیہ اسٹیل ملز کی دستاویزات کیوں پیش نہیں کیں، اس سوال کا جواب دینا ہوگا، وکلا صفائی نوٹ کرلیں۔

احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے ریفرنس کی سماعت کی جس کے دوران نیب پراسیکیوٹر واثق ملک نے اپنے حتمی دلائل آج مکمل کیے۔

کیس کی مزید سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی گئی اور کل نواز شریف کے وکیل حتمی دلائل کا آغاز کریں گے۔

آج سماعت کے دوران جج ارشد ملک نے نواز شریف کے وکلا کو ہدایت کی کہ ملزمان نے العزیزیہ کی دستاویزات کیوں پیش نہیں کیں، سپریم کورٹ نے طلب کی تھیں تو وہاں دستاویزات پیش کردیتے، اس سوال کا جواب دینا ہوگا نوٹ کرلیں۔

فاضل جج نے ریمارکس دیے 'العزیزیہ کے قیام کی وضاحت آگئی تو ہل میٹل کا معاملہ خود حل ہوجائے گا'۔

نیب پراسیکیوٹر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملزمان نے العزیزیہ کو چلانے سے متعلق کوئی دستاویز نہیں دی اور یہ ناقابل یقین ہے کہ 3 دفعہ وزیراعظم رہنے والا شخص کہے کہ اُسے کچھ پتہ نہیں۔

سیاست میں آنے کے بعد نواز شریف نے اپنے شیئرز بچوں کے نام پر منتقل کرنا شروع کیے، نیب پراسیکیوٹر
نیب پراسیکیوٹر نے کہا سیاست میں آنے کے بعد نواز شریف نے اپنے شیئرز بچوں کے نام پر منتقل کرنا شروع کیے، ان کا روز مرہ خرچ ان کی آمدن سے کہیں زیادہ ہے، العزیزیہ اسٹیل مل کے اصل مالک کو چھپانے کیلئے سازش کی گئی، بے نامی دار خود کو اصل مالک کہہ رہے ہیں اور اپنے اصل مالک ہونے کا ثبوت نہیں دے رہے۔

نیب پراسیکیوٹر واثق ملک کا کہنا تھا کہ کیس کے تمام ملزم اپنا اپنا کردار نبھا رہے ہیں، جلا وطنی میں سعودی عرب میں نواز شریف کو شاہی مہمان کہا گیا نہ کہ میاں شریف کو اور سعودیہ پہنچتے ہی 4 ماہ میں العزیزیہ نے آپریشن شروع کردیا۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا 'العزیزیہ کا اتنا بڑا سیٹ اپ تھا ،دکان تو نہیں تھی جو اتنا جلدی کام شروع کردے، یہ سارے عناصر ہیں جو وائٹ کالر کرائم میں آتے ہیں'۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ سپریم کورٹ میں قطری کے پہلے اور دوسرے خط میں تضاد ہے، پہلے خط میں قطری نے صرف اتنا کہا 12 ملین درہم کے بدلے ایون فیلڈ فلیٹس دیے جب کہ دوسرے خط میں ورک شیٹ لگائی اور کہا گیا اپروول کے بعد فلیٹس دیے گئے اور اس پر قطری شہزادے کے دستخط بھی نہیں تھے۔

فاضل جج نے استفسار کیا 'آپ کیوں کہتے ہیں کہ قطری خطوط میں بیان کی گئی بات غلط ہے، قطری کا رولا چلا کہاں سے اور پہلی بار قطری خط کب پیش کیا گیا؟۔

یو اے ای کے جواب سے بھی پتہ چلتا ہے 12 ملین درہم قطر گئے ہی نہیں، نیب پراسیکیوٹر
نیب پراسیکیوٹر نے کہا 'قطری ملزمان کا گواہ ہے لیکن انہوں نے اسے پیش ہی نہیں کیا، ہم نے قطری کا بیان قلمبند کرنے کی کوشش کی لیکن وہ پاکستان نہیں آیا'۔

نیب پراسیکیوٹر نے دلائل دیتے ہوئے کہا متحدہ عرب امارات کے جواب سے بھی پتہ چلتا ہے 12 ملین درہم قطر گئے ہی نہیں اور یو اے ای کے جواب کے بعد قطری خطوط کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔

جج ارشد ملک نے سوال کیا خط میں پہلے فلیٹس کا کہا، پھر ملز سامنے آئیں تو ورک شیٹ میں یہ بھی شامل کرلیا اور جب قطری آیا ہی نہیں تو اس کے خطوط کی کیا حیثیت ہے؟۔

العزیزیہ کی کسی بھی دستاویز میں میاں محمد شریف کا نام نہیں، نیب پراسیکیوٹر
نیب پراسیکیوٹر نے کہا ملزمان کا موقف ہے کہ العزیزیہ اسٹیل مل کے تین شراکت دار تھے، جج نے سوال کیا العزیزیہ اسٹیل مل کے کسی ریکارڈ میں میاں محمد شریف کا نام ہے جس پر پراسیکیوٹر نے کہا العزیزیہ کی کسی بھی دستاویز میں میاں محمد شریف کا نام نہیں ہے۔

نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا العزیزیہ اسٹیل کی فروخت کے معاہدے میں حسین نواز کا نام ہے۔

جج ارشد ملک نے استفسار کیا پاناما کیس میں پہلے دن سے نواز شریف کا ایک ہی وکیل ہے یا تبدیل ہوئے؟، بعض دفعہ وکیل بدلنے سے مؤقف میں بھی تبدیلی آجاتی ہے، عدلیہ کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عدالت میں جھوٹ بولنا کلچر بن گیا ہے۔

فاضل جج نے کہا کہ مدعی، وکیل اور ملزم سب جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں اور پھر جج سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ انصاف پر مبنی سچا فیصلہ دے، یہ تو ایسے ہے کسی کو دال چنےکا سالن دے کر کہا جائے اس میں سے بوٹیاں نکالو۔

جج ارشد ملک نے کہا 'العزیزیہ کی وضاحت آجاتی ہے کہ وہ کیسے لگی تو اگلے کاروبار کا تو آپ کو مسئلہ نہیں ہونا چاہیے'۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا ' العزیزیہ کے قیام کی تو وضاحت نہیں کی گئی، ظلم تو ملزمان نے ریاست کے ساتھ کیا، بغل میں ریکارڈ رکھ کر بیٹھے رہے اور کہتے رہے کہ یہ ڈھونڈیں۔

نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کا پس منظر

سپریم کورٹ نے 28 جولائی 2017 کو پاناما کیس کا فیصلہ سنایا جس کے بعد اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو اقتدار سے الگ ہونا پڑا، عدالت نے اپنے فیصلے میں شریف خاندان کے خلاف نیب کو تحقیقات کا حکم دیا۔

عدالت نے احتساب عدالت کو حکم دیا کہ نیب ریفرنسز کو 6 ماہ میں نمٹایا جائے۔

نیب نے سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ انویسمنٹ ریفرنس بنایا جب کہ نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف ایون فیلڈ (لندن فلیٹس) ریفرنس بنایا۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے تینوں ریفرنسز کی سماعت کی، حسین اور حسین نواز کی مسلسل غیر حاضری پر ان کا کیس الگ کیا گیا اور 6 جولائی 2018 کو ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو 11، مریم نواز کو 7 اور کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال قید و جرمانے کی سزا سنائی۔

شریف خاندان نے جج محمد بشیر پر اعتراض کیا جس کے بعد دیگر دو ریفرنسز العزیریہ اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس کی سماعت جج ارشد ملک کو سونپی گئی جو اس وقت ریفرنسز پر سماعت کر رہے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
جج ارشد ملک نے استفسار کیا پاناما کیس میں پہلے دن سے نواز شریف کا ایک ہی وکیل ہے یا تبدیل ہوئے؟، بعض دفعہ وکیل بدلنے سے مؤقف میں بھی تبدیلی آجاتی ہے، عدلیہ کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عدالت میں جھوٹ بولنا کلچر بن گیا ہے۔
فاضل جج نے کہا کہ مدعی، وکیل اور ملزم سب جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں اور پھر جج سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ انصاف پر مبنی سچا فیصلہ دے، یہ تو ایسے ہے کسی کو دال چنےکا سالن دے کر کہا جائے اس میں سے بوٹیاں نکالو۔
عدلیہ نے تو کمال کر دیا۔
 
Top