الارم از عرش تیموری

اٹھ کہ اپنے عزم سے دنیا تہ و بالا کریں
محشر فردا سے پہلے حشر اک برپا کریں

اٹھ کہ اپنے خون سے چشمے بہا دیں زیست کے
کوہ حائل ہوں تو ان کو پیس کر سرما کریں

اٹھ کہ خس خانوں کو بھڑکائیں گرا کر بجلیاں
ایک اک تنکے کو ہم رنگِ یدِ بیضا کریں

دیں سنان و تیغ کا پانی لب اغیار کو
ہند میں پھر بابر و تیمور کو پیدا کریں

نرگس شہلا سہی آنکھیں غلام ہند کی
اٹھ کہ ہم ان نرگسوں کو دیدۂ بینا کریں

اٹھ کہ اس دیر کہن کے رسم و آئیں توڑ کر
ماہ کو ساغر بنائیں، مہر کو مینا کریں

اٹھ کہ قوت کو بہا لے جائیں روحِ عرش تک
قطرہاے ثابت و سیار سے دریا کریں

ناخن ہمت سے سلجھائیں ہر اک ابرو کے بل
اٹھ کہ اب رازِ جنوں اغیار پر افشا کریں

اس غلامی کو کریں ہم ٹھوکروں میں پاش پاش
اپنی آزادی کریں تخلیق اور سجدہ کریں

وقف سجدہ آستانوں پر ہیں جو پیشانیاں
اٹھ کہ ان پیشانیوں کو آسماں سیما کریں

اٹھ کہ پھونکیں روح اپنے تاب و تب کی خاک میں
ہند میں بھی اک صلاح الدین کو زندا کریں

اٹھ کہ توڑیں یہ تعطل اور جمود و بے حسی
ہند کے ان سنگریزوں کو ابھی گویا کریں

کرنے ہیں ایجاد آئین شہنشاہی ہمیں
اٹھ کہ اہل ہند کو پھر آسماں پیما کریں

ابر کی مانند چھا جاتے ہیں ہمت کے دَھنی
عرشؔ اٹھ پھر زندہ ہندوستان اک پیدا کریں

عرشؔ تیموری
 
Top