اقتصادی خوشحالی کووسعت دینے میں شراکت داری – صدر اوبامہ

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department​

کاروبار کی تنظیم کاری کے موضوع پر صدارتی سربراہ کانفرنس میں صدر کا خطاب

صدر مملکت:

کاروبارکو منظم کرنے کے موضوع پر ہونے والی اس صدارتی سربراہ کانفرنس میں آپ کاخیر مقدم میرے لیے انتہائی غیر معمولی اعزاز ہے۔ یہ کانفرنس میری پوری انتظامیہ کی ایک مربوط کوشش ہے اور میں ان تمام محکموں اور اداروں کے تمام محنتی کارکنوں اور لیڈروں کا شکریہ اداکرنا چاہتا ہوں جنہوں نےاس کا انعقاد ممکن بنایا اور جو آج رات یہاں موجود ہیں۔

اور سب سے اہم یہ کہ میں اس تاریخی کانفرنس کا حصہ بننے پر آپ سب کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ آپ امریکہ بھر سے اور دنیا کے تقریباً 60 ملکوں سے ، لاطینی امریکہ سے افریقہ تک ، یورپ سے وسطی ایشیا تک اورمشرق وسطی سے جنوب مشرقی ایشیا تک سے سفر کرکے یہاں آئے ہیں۔اور آپ یہاں اپنے ساتھ دنیا کی عظیم روایات اور رنگ رنگ عظیم ثقافتوں کا امتزاج لائے ہیں۔ مختلف رنگوں اور عقائد، نسل اور مذاہب کا حسن آپ کے ہمراہ ہے۔ آپ نئی صنعتوں کی بنیاد رکھنے والے تخلیق کار ہیں اور آپ وہ نوجوان کاروباری منتظم ہیں جو ایک کاروبار یا ایک کمیونٹی قائم کرنا چاہتے ہیں۔

لیکن آج ہمیں یہاں ایک سانجھی چیز نے اکٹھا کیا ہے ۔۔اور وہ ہے یہ یقین کہ ہم سب ایک مشترکہ امنگ سے باہم جڑے ہوئے ہیں ۔۔ یعنی ۔۔ وقار کے ساتھ جینا، تعلیم حاصل کرنا، صحت مند زندگی گذارنا، اور امکانی طور پر کسی کو رشوت دیے بغیر کاروبار شروع کرنا، آزادی سے اظہارِ خیال کرنا ،امن اور سلامتی کے ساتھ رہنا اور اپنے بچوں کو بہتر مستقبل فراہم کرنا۔
لیکن ہم یہاں اس لیے بھی اکٹھے ہوئے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اس کے باوجود کہ ہم میں بہت سی چیزیں مشترک ہیں ، برسوں سے امریکہ اور دنیا بھر کی مسلمان آبادیاں اکثر اوقات باہمی عدم اعتماد کا شکار ہوئی ہیں ۔

اور یہی وجہ ہے کہ میں تقریباً ایک سال پہلے قاہرہ گیا تھا اور امریکہ اور مسلمان آبادیوں کے درمیان ایک نئے آغاز کی اپیل کی تھی۔۔ ایک نیا آغاز جس کی بنیاد باہمی مفاد اور باہمی احترام پر ہو۔ میں جانتاتھا کہ یہ تصورصرف ایک سال میں پایہ ٔتکمیل کو نہیں پہنچ سکے گا ، یاشاید کئی برسوں تک بھی۔ لیکن میں جانتا تھا کہ ہمیں اسے شروع کرنا ہے اور یہ کہ اس تصور کو عملی شکل دینا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

صدر کی حیثیت سے میں نے یہ بات یقینی بنانے کے لیے کام کیا ہے کہ امریکہ ایک بار پھر اپنی ذمہ داریوں پر پورا اترے، خاص طورپر جب معاملہ سلامتی اور سیاسی مسائل کا ہو جو اکثر اوقات کشیدگی کا سبب رہے ہیں ۔امریکہ عراق میں ذمہ داری سے جنگ ختم کررہا ہے اور ہم عراقی عوام کی دیر پا خوش حالی اور سلامتی میں ان کے شراکت دار ہوں گے۔ افغانستان میں، پاکستان میں اور اس سے باہر ہم متشدد انتہاپسندوں کو الگ تھلگ کرنے کے لیے نئی شراکت داریاں قائم کررہے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ شراکت داریاں بدعنوانی کے خلاف لڑنے اور اس ترقی کو فروغ دینے کے لیے بھی قائم کر رہے ہیں جو زندگیوں اور آبادیوں کی حالت بہتر بناتی ہے۔

میں آج رات ایک بار پھر یہ کہہ رہا ہوں : کہ ناگزیر مشکلات کے باوجود، جب تک کہ میں صدر ہوں، امریکہ دوریاستی حل پر زور دینے میں کبھی پیچھے نہیں ہٹے گا جو اسرائیلیوں اور فلسطینیوں ،دونوں کے حقوق اور سلامتی کو یقینی بناتا ہو۔ (تالیاں) اور دنیا بھر میں ، امریکہ ان کے ساتھ کھڑا ہوگا جو انصاف اور ترقی چاہتے ہیں اور جو سب لوگوں کے لیے انسانی حقوق اور وقار کے خواہاں ہیں۔

اگرچہ میں نےوعدہ کیا تھا کہ امریکہ ان سیاسی اور سلامتی کے مسائل کا حل ڈھونڈے گا، تاہم میں نے قاہرہ میں یہ بھی واضح کیاتھا کہ ہمیں کچھ اور بھی چاہیے۔ وہ ہے ایک دوسرے کی بات سننے اورایک دوسرے سے سیکھنے اور ایک دوسرے کے احترام کی مستقل کوشش۔ اور میں نے ایک نئی شراکت داری کو فروغ دینے کا وعدہ کیا ، صرف حکومتوں کے درمیان نہیں ، بلکہ لوگوں کے ان مسائل پر بھی جو ان کی روز مرہ زندگیوں میں ۔۔ اور آپ کی زندگی میں بہت اہم ہیں۔
اب بہت سے لوگوں کاسوال تھا کہ کیا یہ ممکن ہے؟ پچھلے سال بھر کے دوران، امریکہ دوسروں تک پہنچنے اور ان کی بات سننے کی کوشش کرتا رہاہے۔ ہم بین المذاہب مذاکرات ، ٹاؤن ہال میٹنگوں ، گول میز کانفرنسوں میں شریک ہو چکے ہیں اور دنیا بھر میں ہزاروں لوگوں کے ساتھ سننے کے اجلاسوں میں شرکت کرچکے ہیں، جن میں آپ میں سے بہت سے لوگ شامل تھے۔ اور بہت سے لوگوں کی طرح، آپ میں سے ہر ایک نے اپنے انداز میں، جواب میں اپنے ہاتھ بڑھائے ہیں ، کاروباری منتظم کے طورپر ، تعلیم اور مذہب اور سائنس کے ماہرین کے طور پربھی۔

مجھے یہ کہنا چاہیئے کہ شاید سب سے زیادہ دلچسپ جواب کویت کے ڈاکٹر نایف المطوع کی جانب سے ملا، جو آج شب یہاں موجود ہیں۔ ڈاکٹر المطوع کہاں ہیں؟ (تالیاں)۔ ان کی کامک بکس نے بچوں کے تخیل کو مہمیز دی ہے اور ان کتابوں کے ما فوق الفطرت ہیروز اسلامی تعلیمات اور رواداری کا مجسمہ ہیں۔ قاہرہ میں میری تقریر کے بعد، ان کے ذہن میں ایسا ہی خیال آیا۔ چنانچہ ان کی کارٹونوں کے کردار والی کامک بکس کے ذریعے، سپر مین اور بیٹ مین کے کرداروں نے ایسے ہی مسلمان کرداروں سے رابطہ کیا۔ (ہنسی)۔ اور میں نے سنا ہے کہ ان کے درمیان تعلقات پھل پھول رہے ہیں۔ (ہنسی)۔ جی ہاں بالکل ایسا ہی ہو رہا ہے۔ (تالیاں)۔

ایک دوسرے کی بات سن کر ہم ایک دوسرے کے ساتھ شراکت قائم کر سکے ہیں۔ ہم نے تعلیمی تبادلوں کے پروگرام کو وسعت دی ہے کیوں کہ اکیسویں صدی میں علم و دانش کا سکہ چلتا ہے ۔ ہمارے سائنس کے نامور مندوبین آپ کے بہت سے ملکوں کے دورے کرتے رہےہیں، اور وہ سائنس اور ٹکنالوجی میں تعاون میں اضافہ کرنے کے طریقے دریافت کر رہے ہیں۔

ہم عالمی صحت کو فروغ دے رہے ہیں۔ اس میں پولیو کے خاتمے کے لیئے اسلامی کانفرنس کی تنظیم (او آئی سی) کے ساتھ ہماری شراکت داری بھی شامل ہے ۔ او آئی سی کے ساتھ ہمارے وسیع تر تعاون کا صرف ایک جزو ہے، جس کی قیادت میرے خصوصی مندوب، رشد حسین کر رہے ہیں ، جو یہاں اس شب ہمارے درمیان موجود ہیں۔ رشد آپ کہاں ہیں؟ (تالیاں)۔

اور ہم اقتصادی خوشحالی کووسعت دینے میں شراکت داری کر رہے ہیں۔ سرکاری سطح پر، میں یہ کہوں گا کہ عالمی سطح پر اقتصادی فیصلے کرنے کے عمل میں، G-20 کے ملکوں کو قائدانہ رول دینے کی وجہ سے، گفتگو میں اور بہت سے ملک شامل ہو گئے ہیں۔ ان میں ترکی، سعودی عرب، بھارت اور انڈونیشیا شامل ہیں۔ اور آج یہاں ہم اپنے اس عہد کی تکمیل کر رہے ہیں جو میں نے قاہرہ میں کیا تھا کہ ہم امریکہ کے کاروباری لیڈروں، فاؤنڈیشنوں اور کاروباری تنظیم کاروں اور دنیا بھر کی مسلمان آبادیوں کے درمیان تعلقات کو اور زیادہ گہرا اور مضبوط بنائیں گے۔

ہاں، ٹھیک ہے کہ کچھ لوگوں نے سوال کیا ہے کہ ہمیں سیکورٹی سے متعلق ، اور سیاسی اور سماجی شعبوں میں جو چیلنج درپیش ہیں، ان کی موجودگی میں کاروباری تنظیم کاری کے بارے میں سربراہ کانفرنس کی کیا ضرورت ہے؟ اس کا جواب آسان ہے۔

کاروباری تنظیم کاری ۔۔ کیوں کہ آپ نے ہم سے کہا تھا کہ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جس میں ہم ایک دوسرے سے کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ جس میں امریکہ ایک معاشرے کی حیثیت سے اپنے تجربات ہمیں بتا سکتا ہے۔ ایسا معاشرہ جس میں ایجا د و اختراع کرنے والوں کو با اختیار بنایا جاتا ہے، جس میں مرد اور عورتیں خواب دیکھنے کا خطرہ مول لے سکتے ہیں۔ جس میں وہ ایک ایسے تصور کو لے کر جو کھانے کی میز پر، یا کسی گیراج میں جنم لیتا ہے، اسے ایک نئے کاروبار، بلکہ ایک نئی صنعت کی شکل دے سکتے ہیں جس سے دنیا بدل سکتی ہے ۔

کاروباری تنظیم کاری ۔۔ کیوں کہ تاریخ گوا ہ ہے کہ اقتصادی ترقی کے مواقع پیدا کرنے اور لوگوں کو غربت سے نکالنے کا سب سے طاقتور ذریعہ منڈی کی معیشت ہے۔

کاروباری تنظیم کاری ۔۔کیوں کہ یہ ہمارے مشترکہ اقتصادی مفاد میں ہے ۔ امریکہ اور مسلمان اکثریتی ملکوں کے درمیان تجارت میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن اس تمام تجارت کی کُل مقدار، پھر بھی صرف اتنی ہے جتنی ہماری تجارت صرف ایک ملک ، میکسیکو کے ساتھ ہے ۔ پس ابھی بہت کچھ ہے جو ہم مِل جُل کر، شراکت داری کے ذریعے، اپنے تمام ممالک میں ، ترقی کے مواقع اور ٖٖخوشحالی کے فروغ کے لیئے کر سکتے ہیں۔

اور سماجی شعبے میں کاروباری تنظیم کاری ۔۔کیوں کہ ، جیسا کہ میں نے شکاگو میں کمیونٹی آرگنائزر کے طور پر کام کرتے ہوئے سیکھا، صحیح معنوں میں تبدیلی کا عمل بالکل نیچے سے، چھوٹی چھوٹی کمیونٹیوں سے ، شروع ہوتا ہے ۔ اس کی ابتدا ایسے افراد کے خوابوں اور جذبوں سے ہوتی ہے جو تن تنہا اپنی کمیونٹیوں کی خدمت کا بیڑا اٹھاتے ہیں۔

اور یہی وجہ ہے کہ ہم آج یہاں موجود ہیں۔ یہاں Jerry Yang موجود ہیں جنھوں نے Yahoo کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطہ قائم کرنے کے طریقے کو یکسر تبدیل کر دیا۔ کیا Jerry یہاں ہیں؟ وہ کہاں ہیں؟ وہ کل آئیں گے ۔ ایسے تنظیم کار جنھوں نے سائبر کیفے اور انٹرنیٹ پر تبادلۂ خیال اور ترقی کے نئے فورم شروع کیئے ہیں۔ آپ سب مِل جُل کر ایسی ٹکنالوجیاں دے سکتے ہیں جن سے اکیسویں صدی کے خدو خال متعین کرنے میں مدد ملے گی۔

ہم میں ڈاکٹر محمد ابراہیم جیسے کامیاب لوگ موجود ہیں، جن سے میں پہلے مِل چکا ہوں، جنھوں نے ٹیلی کمیونیکیشن کا ایک عظیم ادارہ قائم کیا جس سے افریقہ بھر کے لوگوں کو توانائی ملی۔ اور یہاں ابھرتے ہوئے پُر عزم تنظیم کار موجود ہیں جو اپنے کاروباری اداروں کو ترقی دینے اور نئے کارکن بھرتی کرنے کے منتظر ہیں۔ آپ مِل جُل کر سرمایے تک رسائی حاصل کرنے کے چیلنجوں سے نمٹ سکتے ہیں۔ہم میں قطر کی الشیخہ ہنادی موجود ہیں جنھوں نے کاروباری دنیا میں نئی راہیں نکالی ہیں ، اور ان کے ساتھ واعید الطویل ہیں جن سے میں پہلے ملا ہوں۔ مغربی کنارے کی یہ 20 سالہ طالبہ فلسطینی نوجوانوں کے لیئے تفریحی مراکز تعمیر کرنا چاہتی ہیں۔ اس طرح، مِل جُل کر یہ خواتین تنظیم کاروں کی بے پناہ صلاحیتوں کی نمائندگی کرتی ہیں اور ہمیں یہ احساس دلاتی ہیں کہ جو ملک عورتوں کو تعلیم دیتے ہیں اور انہیں با اختیار بناتے ہیں، ان کے خوشحال ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ میں اس پر یقین رکھتا ہوں ۔( تالیاں )

ہمارے پاسFacebook کے خالق Chris Hughes جیسے تخلیقی صلاحیتوں والے لوگ موجود ہیں ، اور ایک آن لائن کمیونٹی موجود ہے جو اتنے سارے لوگوں کو میری صدارتی انتخابی مہم MyBarackObama.com میں لائی ۔ (ہنسی) ۔ ہمارے پاس اردن کی ثریا سلطی جیسے لوگ موجود ہیں جو نوجوان مردوں اور عورتوں کو با اختیار بنا رہے ہیں جو کل کے لیڈر ہوں گے (تالیاں)۔ یہ سب مِل کر دنیا بھر کے نوجوانوں کی عظیم صلاحیتوں اور توقعات کی نمائندگی کرتے ہیں۔

اور ہمارے پاس تری ممپنی جیسے سماجی تنظیم کار موجود ہیں، جنھوں نے انڈونیشیا میں ۔ (تالیاں) ۔ پانی کی طاقت سے بجلی بنانے اور اس سے آمدنی حاصل کرنے میں انڈونیشیا کی دیہی بستیوں کی مدد کی ہے ۔ اور افغانستان کی ایک غیر معمولی خاتون، اندیشا فرید ہیں جنھوں نے اگلی نسل کو تعلیم دینے کی خاطر، ایک وقت میں ایک لڑکی کی تعلیم کے لیئے، شدید خطرات مول لیئے ہیں۔ (تالیاں) ۔ یہ سب مِل کر، ایسے مستقبل کی طرف راہنمائی کرتی ہیں جہاں ترقی میں ہر ایک کو حصہ ملتا ہے اور خوشحالی کو قائم رکھا جا سکتا ہے ۔

اور مجھے ڈاکٹر یونس بھی نظر آئے ۔ آپ سے ایک بار پھرمِل کر مجھے بڑی خوشی ہوئی ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ بہت سے لوگ Grameen Bank کی تاریخ اور اس کے شاندار کام سے واقف ہیں جو غریبوں میں بھی غریب ترین لوگوں میں کاروبار شروع کرنے کے لیئے مالی وسائل کی فراہمی کے ذریعے کیا گیا ہے ۔ یہ کام پہلے جنوبی ایشیا میں کیا گیا تھا اور اب دنیا بھر میں کیا جا رہا ہے ۔

پس یہ وہ شاندار امکانات ہیں جن کی نمائندگی آپ کر رہے ہیں، یہ وہ مستقبل ہے جو ہم مِل جُل کر حاصل کر سکتے ہیں۔ پس آج رات میں بڑے فخر سے نئی شراکت داریوں اور اقدامات کے سلسلے کا اعلان کر رہا ہوں جس کے ذریعے اس مستقبل کا حصول ممکن ہو جائے گا۔

امریکہ تبادلے کے کئی نئے پروگرام شروع کر رہا ہے ۔ ہم مسلمان اکثریتی ملکوں سے کاروباری اور سماجی تنظیم کار امریکہ لائیں گے اور ان کے امریکی ہم منصبوں کو آپ کے ملکوں سے کچھ سیکھنے کے لیئے بھیجیں گے۔ (تالیاں) ۔ ٹکنالوجی کے شعبے کی عورتوں کو انٹرن شپ اور پیشہ ورانہ ترقی کے لیئے امریکہ آنے کا موقع ملے گا۔ اور چونکہ کاروباری تنظیم کاری میں ایجاد و اختراع کو مرکزی اہمیت حاصل ہے، اس لیئے ہم سائنس کے ٹیچرز کے لیئے تبادلوں کے نئے پروگرام قائم کر رہے ہیں۔

ہم نئی شراکت داریاں قائم کر رہے ہیں جن میں سلیکون ویلی کے ہائی ٹیک لیڈرز ، اپنی مہارتوں میں مشرقِ وسطیٰ اور ترکی، اور جنوب مشرقی ایشیا کے شراکت داروں کو شامل کریں گے۔ یہ مہارتیں کاروبار شروع کرنے کے سرمایے، صلاح کاری، اور ٹکنالوجی کی سہولتوں میں فراہم کی جائیں گی۔

اور آج رات میں یہ اطلاع دے سکتا ہوں کہ Global Technology and Innovative Fund جس کا اعلان میں نے قاہرہ میں کیا تھا، امکانی طور پر سرمایہ کاری کے شکل میں 2 ارب ڈالر سے زیادہ رقم کے مواقع پیدا کرے گا۔ یہ نجی سرمایہ ہے اور اس سے ہمارے ملکوں میں ٹیلی کمیونیکشنز ، صحت کی دیکھ بھال، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے کے شعبوں میں نئے مواقع پیدا ہوں گے۔

اور آخری بات یہ کہ مجھے فخر ہے کہ ہم یہاں اس سربراہ کانفرنس میں نہ صرف یہ پروگرام قائم کر رہے ہیں جن کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے، لیکن بات یہاں ختم نہیں ہو گی۔ ہم نے مِل جُل کر کاروباری انتظام کاری کے ایک نئے عہد کا آغاز کیا ہے۔ اس ہفتے واشنگٹن بھر میں اس سلسلے کے پروگرام ہو ں گے، اور پوری دنیا میں علاقائی کانفرنسیں ہوں گی۔
آج شب میں بڑی مسرت سے یہ اعلان کر رہا ہوں کہ وزیرِ اعظم اردگان ترکی میں اگلے سال تنظیم کاری کی دوسری سربراہ کانفرنس کا انعقاد کرنے پر رضا مند ہیں۔ (تالیاں)۔ میں وزیرِ اعظم اور ترکی کے عوام اور نجی شعبے کے لیڈروں کا شکر گذار ہوں کہ ہم اس ہفتے جس جوش و جذبے سے اس تحریک کا آغاز کریں گے ، انھوں نے اسے قائم رکھنے میں مدد دی ہے۔
جیسا کہ میں نے کہا، ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں شبہ تھا کہ ہم اس نئے آغاز کو عملی شکل دے سکیں گے ۔ اور دنیا میں آج کل ہمیں جتنے سنگین مسائل کا سامنا ہے ۔۔ اور سچی بات یہ ہے کہ ہر روز ٹیلیویژن پر جتنی ببُری خبریں آتی ہیں ۔۔ ان کی روشنی میں بعض اوقات یہ یقین کرنے کو جی چاہنے لگتا ہے کہ ہمارے سامنے جو مشکل کام ہے اس کے لیئے عام لوگوں کا جذبۂ خیر سگالی اور ان کے نیک کام کافی نہیں ہیں۔ لیکن اگر کچھ لوگوں کو اس بارے میں شبہ ہے کہ لوگوں کے درمیان شراکت داریوں سے ہم اپنی دنیا کی تشکیلِ نو کر سکتے ہیں، تو میں ان سے کہوں گا کہ ذرا ان مردوں اور عورتوں کی طرف دیکھیئے جو آج یہاں موجود ہیں۔
ذرا ان پروفیسر کی طرف دیکھیئے جنھوں نے چھوٹے چھوٹے قرضوں کا تصور پیش کیا، جن سے ان کے ملک کے دیہاتوں میں رہنے والے غریبوں کو، خاص طور سے عورتوں اور بچوں کو، با اختیار بنایا۔ یہ ڈاکٹر یونس کی ولولہ انگیزمثال ہے۔

ذرا دیکھیئے کہ جب محمدیونس نے اپنے اس تصور میں ایک پاکستانی خاتون کو شریک کیا، جنھوں نے لاکھوں خاندانوں اور بچوں کو ایک فاؤنڈیشن کے ذریعے جس کے نام کا مطلب ہی "معجزہ " ہے، غریبی کے چنگل سے نکال لیا۔ یہ مثال ہے روشانے ظفر کی۔ (تالیاں)
ذرا سوچیئے کہ جب یہ تصور ساری دنیا کے لوگوں میں پھیل گیا ۔۔ اور میری اپنی والدہ جیسے لوگ بھی ،جنھوں نے پاکستان سے انڈونیشیا تک کے دیہات میں بسنے والے غریب لوگوں کے ساتھ کام کیا، اس میں شامل ہو گئے ۔ یہ معمولی سا تصور، ایک فردِ واحد کے ذہن کی تخلیق تھی اور اس کی بدولت کروڑوں لوگوں کی زندگیاں بدل گئی ہیں۔ کاروباری مہم جوئی اسی جذبے سے عبارت ہے۔

تو ہاں، ہم جس نئے آغاز کے متلاشی ہیں ، وہ نہ صرف یہ کہ ممکن ہے بلکہ اس کی ابتدا پہلے ہی ہو چکی ہے ۔ یہ آغاز آپ میں سے ہر ایک کے دِل میں موجود ہے۔ دنیا بھر کے کروڑوں افراد جو ہماری طرح اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مستقبل ان لوگوں کے ہاتھوں میں نہیں ہے جو ہم میں پھوٹ ڈالتے ہیں، بلکہ مستقبل ان کا ہے جو سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں، مستقبل ان کا نہیں ہے جو تباہی پھیلانا چاہتے ہیں، بلکہ ان کا ہے جو دنیا کو بنانا چاہتے ہیں۔ مستقبل ان کا نہیں جو جو ماضی کے اسیر ہیں، بلکہ ان کا ہے جو ہماری طرح، اعتماد اور یقین محکم کے ساتھ اس مستقبل پر ایمان رکھتے ہیں جو تمام انسانوں کے لیئے، چاہے ان کی نسل ، اور ان کا مذہب کچھ ہی کیوں نہ ہو، انصاف اور ترقی اور عزتِ نفس پر مبنی ہو۔

یہ وہ بے پناہ مواقع اور عظیم صلاحیتیں ہیں جو ہم اس کانفرنس کے دوران آ شکار کریں گے اور یہ امید کریں گے کہ یہ کام نہ صرف اس ہفتے کے دوران، بلکہ آ نے والے مہینوں اور برسوں میں بھی جاری رہے گا۔ میں آپ سب کا ممنون ہوں کہ آپ سب نے شرکت کی ہے۔ اللہ آپ سب پر اپنی برکتیں نازل کرے اور آپ سب پر اللہ کی سلامتی ہو۔ آپ سب کا بہت بہت شکریہ ۔ شکریہ ۔ (تالیاں)

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
 
Top