قربان
محفلین
ڈائننگ ٹیبل پر سجے ہوئے ذائقے دار پھل اور لذیذ پکوان قدرت کی کرم فرمائی کا نمونہ لگ رہے تھے۔ اقبالؔ صاحب نے یہ بھی واضح کردیا تھا کہ صرف مٹن حلیم ڈائننگ ٹیبل کی سرکار کو باہر سے’’سمرتھن‘‘ دے رہی ہے۔ پپیتا اپنے بھگوارنگ کے لباس کے باوجود سیکولر ہونے کا اعلان کررہا تھا۔ انناس نے اپنی کھردری شخصیت پرسیاست دانوں کی طرح ہلکے پیلے رنگ کی چادر اوڑھ رکھی تھی۔ آلوہر ہندوستانی دسترخوان پر غربت اور امیری کے درمیان کھڑارہتا ہے سو یہاں بھی تھا۔ چنے اس احتیاط کے ساتھ ابالے گئے تھے کہ دندان سازوں کو ہرگز کوئی کاروباری فائدہ نہ پہنچنے پائے۔ تربوز کے قتلے خونِ کبوتر کی طرح سرخ، محبوب کے لبوں کی طرح شیریں اور عاشق کی آہوں کی طرح ٹھنڈے دکھائی دے رہے تھے۔ بیچارے سیب قاشوں میں تبدیل ہونے کے بعد بھی ہندوستانیوں کی طرح متحد دکھائی دے رہے تھے،بھُنی ہوئی مچھلیاں اپنی سوندھی خوشبو کے ذریعہ روزے داروں کو مخاطب کرنے کی کوشش کررہی تھیں،کیلے عاشق کے دل کی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہوکر بھی اپنے کو خوش نصیب سمجھ رہے تھے، پراٹھے باورچی خانے کی روایتی تہذیب کی رونمائی کررہے تھے،کباب عاشق کے دلِ سوختہ کی طرح جلے بھنے دکھائی دے رہے تھے، بیسن میں تلی مرچیں چٹخارے دار زبان سے چھیڑ چھاڑ پر آمادہ تھیں۔دہی بڑے قاب میں موجود، دہی کی چلمن سے کندن بدن والے بڑے جھانک رہے تھے اور بیچاری پھُلکیاں اپنے پستہ قد ہونے پر شرمندہ ہورہی تھیں، گلابی رنگت لئے امرتیاں کسی مصری خاتون کی کلائی میں پڑے جڑاؤ کنگن کی طرح لگ رہی تھیں۔ پلیٹ میں رکھی ہوئی میدے سے بنی سروقد شاخیں، شاخِ امید کی طرح کھِلی پڑرہی تھیں، نہاری غریب دونوں وقت ملنے کے سبب پلکیں نیچے کئے ہوئی تھی، قلچے غالبؔ کے طرفدار کی طرح نہاری کی طرف داری میں مصروف تھے، پاپڑ بزرگوں کے خطوط کی طرح خستہ حالت میں رکھے ہوئے تھے،میز پر سجی ہوئی کئی رنگ کی چٹنیوں کے بیچ سے خوشرنگ ٹماٹر ساس( Saus) اپنی خوش دامنی کی داد مانگ رہا تھا، اقبال ؔصاحب نے کئی بار بادام کے شربت کی طرف اشارہ کیا، لیکن ہم لوگ امرتیوں کی حسن کاری، سموسوں کی دست کاری اور دہی بڑوں کے ذائقے میں الجھے ہوئے تھے۔ باتوں باتوں میں انہیں میں نے یہ بھی بتادیا کہ ہم لوگ تو جب تک دسترخوان پر چھوٹے موٹے جھگڑوں کی ریہرسل نہ کر لیں، ایک آدھ کراکری کو نا قابل استعمال نہ بنالیں، اس وقت تک معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ہم لوگ روزہ دار بھی ہیں۔ ڈائننگ ٹیبل تو ہمارے گھروں میں نوکروں کے سونے یا طوطے کا پنجڑہ رکھنے کا کام آتی ہے۔
اقتباس از ’’ ڈھلان سے اترتے ہوئے۔۔۔‘‘
منور راناؔ
اقتباس از ’’ ڈھلان سے اترتے ہوئے۔۔۔‘‘
منور راناؔ