اقتباس از "دنیا، آفاق، کائنات" ۔۔۔ اسلم انصاری

ش

شہزاد احمد

مہمان
میر عام طور پر عالم انفس کی وسعتوں کے قائل ہیں یعنی دل کی سیر کو آفاق کی سیر کے مترادف قرار دیتے ہیں۔ لیکن خارجی دنیا کو اکثر چھوٹے اسکیل پر تصور کرتے ہیں۔ مثلاََ عناصر اربعہ سے تعمیر کی گئی اس دنیا کو ایک چار دیواری سے تعبیر کرتے ہیں۔

چار دیواریء عناصر میر
خوب جاگہ ہے پر ہے بے بنیاد

یا مثلاََ وہ زمین کو تصویر کا ایک صفحہ قرار دیتے ہیں

زمیں ایک صفحہِ تصویرِ بے ہوشاں سے مانا ہے
یہ محفل جب سے ہے اچھا نہیں کچھ رنگ صحبت کا

لیکن وہ بعض عظیم اور جلیل مظاہر فطرت کے ذریعے کائنات کی وسعت کا ادراک بھی رکھتے ہیں تاہم وہ مظاہر کائنات میں بھی معنویت کا سراغ لگانے کی کوشش کرتے ہیں اور ان میں عشق کی ایک حزنیہ رو بھی دوڑی ہوئی دیکھتے ہیں۔ مثلاََ وہ کائنات کو ذی روح تصور کرتے ہوئے اسے بھی کسی ہستیء برتر کے عشق میں مبتلائے غم دیکھتے ہیں۔ دیوانِ دوم کی غزل سرِ دیوان کے چند شعر اس مفہوم کو واضح کرتے ہیں۔

ہر ذی حیات کا ہے سبب جو حیات کا
نکلے ہے جی ہی اس کے لیے کائنات کا

درپردہ دو ہی معنی مقوم نہ ہو اگر
ورنہ بناؤ ہووے نہ دن اور رات کا

اس کے فروغِ حسن سے جھمکے ہے سب میں نور
شمعِ حرم ہو یا کہ دیا سومنات کا

بالذات ہے جہاں میں وہ موجود ہر جگہ
ہے دید چشم دل کے کھلے عین ذات کا

ایک اور غزل میں جو بہت حد تک غزل مسلسل ہے، میر مظاہر فطرت میں حسن اور عشق دونوں قوتوں کا ظہور دیکھتے ہیں اور ان کی آویزش و آمیزش اور طلب و رسیدگی میں ایک حزنیہ احساس پاتے ہیں۔ دو شعر باہم مربوط ہیں:

ہر جزر و مد سے دست و بغل اٹھتے ہیں خروش
کس کا ہے راز بحر میں یارب کہ یہ ہیں جوش

ابروئے کج ہے موج کوئی، چشم ہے حباب
موتی کسی کی بات ہے، سیپی کسی کا گوش

چشم ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر
منہ نظر آتے ہیں دیواروں کے بیچ

گلِ یادگار چہرہِ خوباں ہے بے خبر
مرغِ چمن نشاں ہے کسی بے زبان کا

گل و سنبل ہیں نیرنگِ قضا، مت سرسری گزرے
کہ بگڑے زلف و رخ کیا کیا بناتے اس گلستاں کو!

میر کے ہاں ہمیں لذت و انبساط اور مسرت کی آرزو اور خواہش بھی بھرپور انداز میں ملتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ میر زندگی کی خوشیوں سے یکسر منکر نہیں۔ لیکن ان کا اصرار اس بات پر ہے کہ زمانے نے ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا اور ان کی زندگی کو مرقع رنج و غم بنا دیا۔ میر کے غم کا اثباتی پہلو یہ ہے کہ انہوں نے اسے ایک ناگزیر حقیقت پا کر نہ صرف اس کو قبول کیا بلکہ ایک ایسی وضع زیست میں تبدیل کر دیا جو جگر داری، بلند نظری، عالی حوصلگی، صبر و رضا، بے نیازی، عظمتِ انسان کے ادراک، قناعت پسندی اور بخود گزیدگی مگر انسان دوستی جیسی بلند اور برتر اخلاقی اور روحانی اقدار کا مظہر بن گئی۔ اپنی نامرادانہ طرز زیست کو انہوں نے بھرپور تخلیقی عمل کے ذریعے ایک خوب صورت گو حزن انگیز دنیائے معانی بنا دیا۔ ان کی طویل تخلیقی زندگی بذات خود اس بات کا پیغام دیتی ہے کہ زندگی کے دکھوں کو شعوری سطح پر قبول کر کے ایک نئی معنویت اور ثمرداری میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
ان کے غم میں خلوص اور سچائی ہے۔ غم نے انہیں زندگی کی تہہ داری کا احساس دلایا یعنی مظاہر حیات کی سطح کے نیچے معنی اور مطالب کی کچھ تہیں بھی ہیں جن تک غم اٹھائے بغیر نہیں پہنچا جا سکتا۔

یاں بلبل اور گل پہ تو عبرت سے آنکھ کھول
گلگشت سرسری نہیں اس گلستان کا

حقیقت یہ ہے کہ آخر کار میر اپنے سارے رنج و الم اور شدید المیہ جذبے کو ایک مابعدالطبیعیاتی جذبے یا بے قراری میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اور ان کا نغمہ اس لے پر ختم ہوتا ہے کہ:

آگے عالم عین تھا اس کا اب عینِ عالم ہے وہ
اس وحدت سے یہ کثرت ہے، یاں میرا سب گیان گیا

آنکھیں جو ہوں تو عین ہے مقصود ہر جگہ
بالذات ہے جہاں میں وہ موجود ہر جگہ

عالم آئینہ ہے جس کا وہ مصور بے مثل
ہائے کیا صورتیں پردے میں بناتا ہے میاں

یہ دو ہی صورتیں ہیں، یا منعکس ہے عالم
یا عالم آئینہ ہے، اس یارِ خود نما کا!
 
Top