اقبال ہم شرمندہ ہیں

یوسف سلطان

محفلین
اے اقبال، اے صاحبِ علم و ہنر
تو ہزاروں چاہنے والوں،
ہزاروں درد مندوں کے
دلوں کی دھڑکنوں میں اب بھی زندہ ہے
نمایاں تیرے شعروں میں
نصیحت عملِ پیہم کی
تری ہر نظم، ہر اک نغمہ
زمانے سے نرالا تھا
خدا نے اک عجب سوز و فکر سے بھی نوازا تھا
کہ تو اس بے حسی کے دور میں بھی
کیا احساس رکھتا تھا
مسلمانوں کے ہر دکھ کا
کیا ہی پاس رکھتا تھا
ٌایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے ٌ
کیا ہی مخلص سوچ تھی
مقصدیت اور بحرِ زندگانی کے لیے
اے اقبال، اے صاحبِ علم و ہنر
تو ہی تھا ٌ داعیِ اتحادِ امتِ خیرالبشر صلی علیہ وسلم
ٌ نیل کے ساحل سے لیکر تابخاکِ کاشغر ٌ
مگر اے صاحبِ علم و ہنر
اب فقط کتابوں میں تیرے افکار زندہ ہیں
اقبال ہم شرمندہ ہیں
نہ ہم شاہیں ہیں تیرے
نہ بسیرا ہے چٹانوں میں
ہمیں ہے قصرِ سلطانی کے گنبد سے شغف ایسا
کہ ہماری روح کی پرواز
ترے فکر و تخیل سے بہت نیچی سی رہتی ہے
ہماری پستیِ جستجو کا اب یہ عالم ہے
کہ اڑان اڑنے سے پہلے ہی
ہمارے رعشہ ذدہ پروں پہ
اک وحشت سی طاری ہے
یہ میرا وہم ہے شاید
کہ حقیقت میں تو پہلے ہی
ایک پَر سبب بیماریوں کے ہم کٹوا کے بیٹھے ہیں
مگر پھر بھی حقیقت کو
ہم جھٹلا کے بیٹھے ہیں
تو پھر یہ رعشہ کیسا ہے؟
ہمارے وحشت ذدہ اور ناتواں سے جسم کے اندر
ابھی باقی ہے بیماری ؟
یہ روح و دل کی بیماری
تعصب، فرقہ واریت، جہالت اور غداری
فریب، دغہ بازی و عیاری،
کرپشن، ظلم، -ناانصافی،
غربت و افلاس، بے کاری،
سفارش کی عمل داری
خوں ریزی، دہشت اور مکاری
کئ سالوں سے ہے جاری
مرے اقبال ،،،!
جو دھرتی تیرے خوابوں نے
بڑی اعلیٰ بنائی تھی
فقط اب بھی خیالی ہے
اقبال ہم شرمندہ ہیں
کہ اس دھرتی کے آنگن میں
ابھی تک ظلم باقی ہے
ابھی تک قوم بننے میں بہت اتمام باقی ہے
ابھی مظلوم گونگا ہے
ابھی تک ظلم و جبر کی صدائیں سنسناتی ہیں
ابھی تک عدلِ محکم کا کوئی نغمہ
سنائی دیتا نہیں ہے کانوں میں
کئی موسم گئے پھر بھی
لیٹرے اور وڈیرے ہی
قابض ہیں ایوانوں میں
اقبال ہم شرمندہ ہیں
نہ ہم شاہین ہیں تیرے
نہ بسیرا ہے چٹانوں میں
’’اقبال ہم شرمندہ ہیں‘‘
.................................
شاعر(تیمور ذوالفقار)
 
محفل فورم صرف مطالعے کے لیے دستیاب ہے۔
Top