سید زبیر
محفلین
شاعر ڈاکٹر
جان ِمن مرے گلے میں تری باہیں وا ہ وا
جس طرح کوئی سٹیتھسکوپ ہو لٹکا ہوا
نرگسی آنکھوں میں تیری جھومتی ہیں مستیاں
جیسے تم نے کھائی ہوں کچھ خواب آور گولیاں
کھنکھناتی ہیں تمہارے پیار کی یوں چوڑیاں
جیسے ٹکراتی ہیں انجکشن کی خالی شیشیاں
یوں حیا و شرم سے گل رنگ ہے چہرہ ترا
بڑہ گیا ہو جیسے ایک دم دباوٍ خون کا
تیری خاطر میں جلوں 'یہ دل جلے 'سینہ جلے
تھرمامیٹر سے تپش'گرمی 'جلن ماپ لے
یہ تری زلف پریشان کی کوئی تصویر ہے
یا کہ نسخے میں مری لکھی ہوئی تحریر ہے
جھلملاتے ہیں مرے ینے میں جلوے آپ کے
گر یقیں نہ ہو تو ' لو دل کا مرے ایکسرے
بڑھتا جاتا ہے نہ جانے کیوں ترا حسن و جمال
عین ممکن ہے سکن کی سرجری کا ہو کمال
بات اور بے بات تم کھِلتی ہو سرسوں کی طرح
مہرباں ہونے لگی ہو مجھ پہ نرسوں کی طرح
میں ہوں عاشق اور شاعر ، عاشقی سے کام ہے
"ڈاکٹر" کا لفظ تو بس ایک جنرک نام ہے
اقبال احمدبخت