افواہ باز و توہم پرست قوم

برصغیر پاک و ہند ایک ایسا خطہ ارض ہے جہاں توہمات پرستی پہ یقین (چاہے مذہبی ہو یا غیر مذہبی) یہاں کے باسیوں کا وطیرہ رہا ہے. اس خطہ میں بنیادی طور پر بدھ مت, ہندو مت اور اسی ٹائپ کے مختلف مذاہب کے افراد کی اکثریت تھی اور ان مذاہب میں توہمات پرستی ایک لازم جزو کے طور پہ تھا. محمد بن قاسم, سلطان محمود غزنوی اور کئی دوسرے مسلمان فاتحین نے جب برصغیر پر قبضہ کیا تو ان کے حسن سلوک اور مسلمانوں کے طور طریقے دیکھ کر برصغیر کے باسیوں کی اکثریت مسلمان تو ہو گئی لیکن بنیادی اسلامی تعلیمات کا فقدان شروع سے ہی ہمارے خطہ کے لوگوں کا بڑا مسئلہ رہا.
گو کہ مختلف علمائے کرام و اولیاء نے اسلامی تعلیمات کا پرچار کیا اور اسلامی بنیادی عقائد کی بہتری کے لیے کام کیا لیکن پھر بھی ہماری قوم میں افواہ بازی اور توہم پرستی کی جبلت و عادت ہمہ گیر رہی ہے. ہم لوگ کسی بھی مستند یا غیر مستند ذریعہ سے اڑائی گئی کوئی افواہ, کوئی خبر یا کوئی بھی مذہبی بات کو نہ صرف آنکھ بند کر کے بغیر تحقیق کے فالو کرتے ہیں بلکہ اس کو
پھیلانے میں بھی اپنا کلیدی کردار ادا کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں.
میرے ذاتی خیال میں پاکستانی قوم خطہ کی دوسری اقوام کی نسبت کچھ زیادہ ہی توہم پرست اور افواہ باز قوم ہے. ہمارے روزمرہ اطوار زندگی اور رویہ جات میں غیر سنجیدگی توہے ہی, اوپر سے سونے پہ سہاگہ یہ کہ ہمارے مذہبی طبقات کی اکثریت بھی انہی عادات و اطوار کا نہ صرف شکار ہے بلکہ عوام کو بھی اسی طرز عمل پہ اکساتی ہے. عوام کی اکثریت بھی ان کی تمام علمی اور غیر علمی باتوں کو پوجنے کی حد تک فالو کرتے ہیں. افواہ بازی کی یہ عادت ہمیں معاشرتی طور پر کمزور اور بزدل بنا رہی ہے. لوگ اس وجہ سے منفی سرگرمیوں میں پڑتے ہیں یا پھر ان افواہوں کی وجہ سے ان کی زندگی مثبت اور ترقی کی بجائے ڈر اور خوف کا شکار ہوتی ہے. اس کا نتیجہ ہمیں بطور معاشرہ اور قوم معاشی و معاشرتی نقصانات کی صورت بھگتنا پڑتا ہے.
ویسے افواہ بازی, توہم پرستی کی کئی مثالیں اور خوفناک تاریخ ہمارے ملک میں موجود ہیں لیکن اگر ان کا ذکر لے کر بیٹھیں تو شاید اخبار کے صفحات ختم ہو جائیں لیکن ہم ذکر کریں گے موجودہ کرونا وائرس بحران اور اس سلسلے میں پیدا ہونے والی مختلف افواہوں, فیک نیوز اور توہمات کے بارے میں. جب سے کرونا وائرس کا عفریت ہمارے پیارے ملک پر حملہ آور ہوا ہے اس وقت سے اس قسم کی چیزوں میں بہت ہی اضافہ ہو گیا ہے. جتنے بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ہیں اسپیشلی فیس بک, ٹویٹر اور واٹس ایپ ان پر نت نئی افواہوں اور غلط خبروں کی بھرمار ہے. مثال کے طور پر کسی بھی پرانی ایکسیڈنٹ یا پھر بیماری سے وفات پا جانے والے کی میت کی تصویر اٹھائیں گے اور سوشل میڈیا پہ پوسٹ کر دیں گے کہ کرونا وائرس سے ایک اور مریض جاں بحق. اسی طرح کئی فیک ویڈیوز اور سٹوریز بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں. یہ تمام ویڈیوز, تصویریں اور پوسٹیں پہلے سے ہی ڈرے ہوئے عوام الناس میں اور زیادہ خوف وہراس کی فضا پیدا کر رہی ہیں. اسی طرح کئی افراد ڈاکٹر بنے ہوئے ہیں اور کوئی حکیم اور مختلف الٹی سیدھی ادویات کا مشورہ دیکر عوام کو گمراہ کر رہے ہیں. ٹی وی چینلز بھی فیک نیوز پھیلانے اور افراتفری پیدا کرنے میں کسی سے کم نہیں ہیں اور رہی سہی کسر مختلف ڈھونگی بابوں نے پوری کر رکھی ہے جو اس توہم پرست قوم کو مختلف ٹوٹکے اور عملیات بتا کر گمراہ کر رہے ہیں.
نہ صرف پاکستان بلکہ دوسرے ممالک میں بھی یہ بیماری پھیلی ہوئی ہے. ابھی چند دن پہلے ہی ایک خبر آئی کہ کینیا میں ایک بابے نے اپنے تمام مریدوں کو ڈیٹول پینے کی تلقین کی جس سے اس کے خیال میں کرونا وائرس ان پہ اثر نہ کرتا. کرونا کا تو پتہ نہیں لیکن ڈیٹول پی کر 57 افراد اپنی جان کی بازی ضرور ہار گئے. اسی طرح چند دن پہلے کسی نے سوشل میڈیا پہ افواہ پھیلا دی کہ زلزلہ آنے والا ہو تو ہماری جاہل قوم نے اس افواہ کو فوراً پورے ملک میں پھیلا دیا نتیجتاً مساجد میں اعلانات شروع ہوگئے اور ملک میں پریشان حال عوام میں ہیجانی کیفیت پیدا ہو گئی.
خیر بات لمبی ہو جائیگی, اس موضوع پر یہ کالم لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ پڑھے لکھے طبقہ اور میڈیا کو اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرنا ہوگا اور اس فیک نیوز, توہم پرستی اور افواہ بازی کے خلاف مہم چلاتے ہوئے عوام کو آگاہی دینا ہوگی. تاکہ معاشرے میں اس مشکل وقت میں امن و سکون کی فضا قائم ہو اور عوام جو کہ پہلے ہی غربت, افلاس اور کرونا وائرس جیسی بیماریوں سے پریشان ہیں ان کی پریشانیوں میں بجائے اضافے کے کمی کی جاسکے
 
Top