افغانستان – طالبان کی پسپائی

ربیع م

محفلین
بغير محض کھلے کھيتوں پر بمباری کرنے سے اس مسلئے کو حل نہيں کيا جا سکتا ہے۔
امریکیوں کے دماغ میں ہر مسئلے کا حل بمباری کیوں بیٹھا ہوا ہے ایک عام سا بچہ بھی جانتا ہے کہ ایسے کھیتوں کو ہیلی کاپٹر سے مخصوص دوا چھڑک کر بھی تلف کیا جا سکتا ہے.
 

Fawad -

محفلین
امریکیوں کے دماغ میں ہر مسئلے کا حل بمباری کیوں بیٹھا ہوا ہے ایک عام سا بچہ بھی جانتا ہے کہ ایسے کھیتوں کو ہیلی کاپٹر سے مخصوص دوا چھڑک کر بھی تلف کیا جا سکتا ہے.


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

جيسا کہ ميں نے پہلے واضح کیا تھا کہ افغانستان ميں منشيات کے کاروبار کے خاتمے کے ضمن ميں رکاوٹ کبھی بھی يہ نہيں رہی کہ ان کھيتوں کو تلف کرنے کے ليے کون سے وسائل استعمال کيے جانے چاہيے۔

ماضی ميں اندس، تھائ لينڈ، برما اور بھارت ميں پوست کی کاشت کی حوالے سے چلائ جانے والی تحريکوں کے تجربے سے يہ بات واضع ہے کہ اس ضمن ميں کاميابی صرف اسی صورت ميں ممکن ہے جب اس ميں مقامی لوگوں کا اشتراک اور تعاون بھی شامل ہو۔

بدقسمتی سے افغانستان ميں يہ مسلۂ اس سے کہيں زيادہ پيچيدہ ہے جس کے مستقل حل کے ليے حکومت کی ہر سطح پر جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ آپ اس مسلئے کی پيچيدگی کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہيں کہ سال 2006 ميں ايک عالمی تھنک ٹينک سينلسز کونسل نے ايک تفصيلی رپورٹ ميں باقاعدہ يہ سفارش کی تھی کہ افغانستان ميں پوست کی کاشت اس سطح پر پہنچ چکی ہے کہ اس مسلئے کا واحد حل يہ ہے کہ افغانستان ميں پوست کی کاشت کو قانونی تحفظ دے ديا جائے۔ امريکی حکومت نے اس تجويز کی شديد مخالفت کی تھی۔ سينلسز کونسل کی رپورٹ اور اس پر امريکی ردعمل کی تفصيل آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں۔

U.S. Opposes Efforts to Legalize Opium in Afghanistan: The Rationale Against Legalization

افغانستان کی حکومت کی جانب سے منشيات کے بڑے مجرموں کو کيفر کردار تک پہنچانے کے ليے مزيد بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے جس ميں اہم کرداروں تک پہنچ، شواہد کی پڑتال اور پيچيدہ کيسوں کو حل کرنے کی صلاحيت ميں اضافہ اہم مراحل ہيں۔

امريکی حکومت پرعزم ہے کہ خطے ميں افغان حکومت سميت تمام فريقين کو ہر ممکن مدد فراہم کی جائے گی تا کہ اس غير قانونی کاروبار کو ختم کيا جا سکے جس کے ذريعے دہشت گرد گروہوں کو وہ وسائل حاصل ہو جاتے ہيں جن کے ذريعے وہ بے گناہ شہريوں پر حملے کرتے ہيں۔

حال ہی ميں امريکی قيادت ميں اتحادی افواج کی بمباری سے طالبان کے زير استعمال منشيات کی ايک فيکٹری کو تباہ کيا گيا جس کی ماليت کا تخمينہ 80 ملين ڈالرز لگايا گيا ہے۔ اس حملے کی ويڈيو اس لنک پر ديکھی جا سکتی ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ



منشيات کی بجائے گلاب کے پھولوں کی کاشت

طالبان کے ليے بڑا دھچکا – افغان کاشتکاروں نے منشيات کے اس گھناؤنے کاروبار کا حصہ بننے سے انکار کر ديا جس کی آمدنی ان دہشت گرد کاروائيوں کا سبب بنتی ہے جس کی زد ميں مقامی آبادی ہی آتی ہے۔

ننگرہار صوبے کے کسانوں نے منشيات کی کاشت کا بہتر اور زيادہ فائدہ مند متبادل دريافت کر ليا ہے۔ منشيات کی کاشت کا يہ مکروہ کاروبار طالبان اور ديگر جنگجو گروہوں کے ليے معاشی وسائل کا ذريعہ بنا ہوا تھا۔

فتح آباد گاؤں کے 15 کسان اپنی زمينوں پر گلاب کاشت کر رہے ہيں جس سے وہ نا صرف يہ کہ معقول آمدنی حاصل کر رہے ہيں بلکہ اپنے ساتھ مزيد افراد کو شامل کر کے کاروبار کو وسعت بھی دے رہے ہيں۔

باسٹھ سالہ موسی خان کا کہنا ہے کہ "ہم نے پانچ برس قبل گلاب کی کاشت کا کام شروع کيا تھا۔ اس سے قبل ہم منشيات کی کاشت کا کام کرتے تھے ليکن اب ہم جان چکے ہيں کہ منشيات کے مقابلے ميں گلاب کا کام زيادہ سودمند ہے"۔

ننگرہار صوبے کا انسداد دہشت گردی کا ادارہ منشيات کی کاشت کو روکنے اور کسانوں ميں متبادل فصلوں کی کاشت کی حوصلہ افزائ کے ليے کوششيں کر رہا ہے۔

ادارے کے ترجمان کا کہنا ہے کہ گلاب آمدنی کا ايک معقول ذريعہ ہے۔

"ہم ہر ممکن کوشش کر رہے ہيں کہ منشيات کی کاشت کی بجائے متبادل ذرا‏‏ئع آمدنی کے ليے مقامی کسانوں کو آمادہ کريں۔ گلاب کی کاشت ان کوششوں کا اہم حصہ ہے۔"

"ہم نا صرف يہ کہ کسانوں کے ليے مختلف منصوبوں متعارف کروائيں گے بلکہ اس ضمن ميں مواقع بھی فراہم کريں گے"۔

ترجمان کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کے انسداد منشيات کے ادارے کی جانب سے 22 ملين ڈالرز کے منصوبوں کا اجراء کيا گيا ہے جن سے کئ مقامی ضلعوں ميں کسانوں کو آمدنی کے متبادل ذرا‏ئع مليں گے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
 

فلک شیر

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ



منشيات کی بجائے گلاب کے پھولوں کی کاشت

طالبان کے ليے بڑا دھچکا – افغان کاشتکاروں نے منشيات کے اس گھناؤنے کاروبار کا حصہ بننے سے انکار کر ديا جس کی آمدنی ان دہشت گرد کاروائيوں کا سبب بنتی ہے جس کی زد ميں مقامی آبادی ہی آتی ہے۔

ننگرہار صوبے کے کسانوں نے منشيات کی کاشت کا بہتر اور زيادہ فائدہ مند متبادل دريافت کر ليا ہے۔ منشيات کی کاشت کا يہ مکروہ کاروبار طالبان اور ديگر جنگجو گروہوں کے ليے معاشی وسائل کا ذريعہ بنا ہوا تھا۔

فتح آباد گاؤں کے 15 کسان اپنی زمينوں پر گلاب کاشت کر رہے ہيں جس سے وہ نا صرف يہ کہ معقول آمدنی حاصل کر رہے ہيں بلکہ اپنے ساتھ مزيد افراد کو شامل کر کے کاروبار کو وسعت بھی دے رہے ہيں۔

باسٹھ سالہ موسی خان کا کہنا ہے کہ "ہم نے پانچ برس قبل گلاب کی کاشت کا کام شروع کيا تھا۔ اس سے قبل ہم منشيات کی کاشت کا کام کرتے تھے ليکن اب ہم جان چکے ہيں کہ منشيات کے مقابلے ميں گلاب کا کام زيادہ سودمند ہے"۔

ننگرہار صوبے کا انسداد دہشت گردی کا ادارہ منشيات کی کاشت کو روکنے اور کسانوں ميں متبادل فصلوں کی کاشت کی حوصلہ افزائ کے ليے کوششيں کر رہا ہے۔

ادارے کے ترجمان کا کہنا ہے کہ گلاب آمدنی کا ايک معقول ذريعہ ہے۔

"ہم ہر ممکن کوشش کر رہے ہيں کہ منشيات کی کاشت کی بجائے متبادل ذرا‏‏ئع آمدنی کے ليے مقامی کسانوں کو آمادہ کريں۔ گلاب کی کاشت ان کوششوں کا اہم حصہ ہے۔"

"ہم نا صرف يہ کہ کسانوں کے ليے مختلف منصوبوں متعارف کروائيں گے بلکہ اس ضمن ميں مواقع بھی فراہم کريں گے"۔

ترجمان کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کے انسداد منشيات کے ادارے کی جانب سے 22 ملين ڈالرز کے منصوبوں کا اجراء کيا گيا ہے جن سے کئ مقامی ضلعوں ميں کسانوں کو آمدنی کے متبادل ذرا‏ئع مليں گے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
منشیات کی کاشت تو طالبان نے بھی ختم کر دی تھی.
نہیں؟
 

الف نظامی

لائبریرین
دم ہمہ دم علی علی
حسینی طالبان آ رہے ہیں ، ہنڑ امریکہ دا رگڑا کڈسن۔ دھر رگڑے تے رگڑا
جیو حریت پسندو!
 

Fawad -

محفلین
منشیات کی کاشت تو طالبان نے بھی ختم کر دی تھی.
نہیں؟


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

طالبان کے دور ميں منشيات پر پابندی؟ - کچھ حقائق

اقوام متحدہ کی ايک رپورٹ کے مطابق 90 کی دہاہی ميں افغانستان اوپيم کی پيداوار میں دنيا ميں دوسرے نمبر پر تھا۔ صرف سال 1998 ميں 41،720 ايکٹر رقبے پر 1350 ميٹرک ٹن اوپيم گم کاشت کی گئ۔

سال 1988 میں افغانستان نے اقوام متحدہ کے ڈرگ کنونشن کے تحت منشيات کی روک تھام کے ايک معاہدے پر دستخط کيے تھے ليکن طالبان سميت کسی بھی سياسی دھڑے نے اس معاہدے پر عمل نہيں کيا۔ سال 1998 کے آخر تک طالبان کا کنٹرول افغانستان کے 80 فيصد علاقے پر تھا۔ جون 1998 ميں جلال آباد ميں 1 ٹن اوپيم کو نذر آتش کرنے کے علاوہ سرکاری سطح پر ايسا کوئ قدم نہيں اٹھايا گيا جس کے تحت مورفين يا ہيروئين بنانے والی کسی ليبارٹری، يا ہيروئين کی ترسيل کی کسی کھيپ يا منشيات کی سمگلنگ ميں ملوث کسی گروہ کو مستقل طور پر اس مذموم کاروبار سے روکا جاتا۔ اقوام متحدہ اور کئ نجی و سرکاری تنظيموں کی بے شمار رپورٹوں سے يہ واضح تھا کہ يورپ ميں سمگل کی جانے والی 80 فيصد منشيات افغانستان ميں تيار کی گئ تھی۔ سال 1998 کے آخر تک افغانستان ميں پيدا کی جانے والی 95 فيصد منشيات طالبان کے زير اثر 80 فيصد علاقوں ميں تيار کيا جاتی تھی۔

افغانستان کی مختلف ليبارٹريوں ميں تيار کی جانے والی ہيروئين اور مورفين کی تياری کے ليے ايسڈيک اينہائيڈرئيڈ نامی عنصر کی بڑی مقدار درکار ہوتی ہے جو کہ عام طور پر يورپ، چين اور بھارت سے حاصل کيا جاتا ہے۔ منشيات کی ترسيل کے ليے افغانستان سے ملحقہ پاکستان، ايران، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کی سرحديں استعمال کی جاتی تھيں۔افغانستان ميں منشيات کے اس کاروبار کے منفی اثرات براہراست ان علاقوں ميں منشيات کی آسان دستيابی اور کھلے عام استعمال کی صورت ميں نمودار ہوئے۔

منشيات کے حوالے سے طالبان کی پاليسی يہ تھی کہ اس کی روک تھام صرف اسی صورت ميں ممکن ہے جب اقوام متحدہ نہ صرف طالبان کی حکومت کو سياسی سطح پر تسليم کرے بلکہ جن علاقوں ميں پوست کی کاشت کی جاتی ہے وہاں کسانوں کو متبادل کاروبار کے ليے مناسب فنڈز مہيا کيے جائيں۔ حالانکہ اس سے قبل طالبان کی جانب سے يہ اعلان کيا جا چکا تھا کہ منشيات کا استعمال اور اس کی پيداوار سے منسلک تمام کاروبار اسلام اور شريعت کے قوانين کے خلاف ہيں۔

سال 1997 ميں يو – اين – ڈی – سی – پی کے ڈائريکٹر آرلاچی نے طالبان کے ليڈر ملا عمر کے نام ايک خط لکھا تھا جس ميں ان سے يہ مطالبہ کيا گيا تھا کہ جن علاقوں ميں کسانوں کو متبادل کاروبار کی سہوليات فراہم کی گئ ہيں وہاں منشيات کی پيداوار کی روک تھام کو يقينی بنايا جائے۔ اس کے علاوہ ان سے يہ اجازت بھی مانگی گئ کہ يو – اين – ڈی – سی – پی کو ان علاقوں تک رسائ دی جائے جہاں طالبان کے بقول منشيات کے کاروبار پر بين لگا ديا گيا ہے۔ طالبان سے يہ مطالبہ بھی کيا گيا کہ منشيات کے کاروبار کو جڑ سے ختم کرنے کے ليے ضروری ہے نہ صرف ہيروئين کی تياری کی ليبارٹريوں کو ختم کيا جائے بلکہ ان گروہوں کا بھی خاتمہ کيا جائے جو منشيات کی تقسيم کے کاروبار ميں ملوث ہيں۔ طالبان کی جانب سے ان مطالبات کو اسی شرط پر تسليم کيا گيا کہ کسانوں کو متبادل کاروبار کے ليے فنڈز کی فراہمی کو يقينی بنايا جائے۔

U.N. Says It Is Getting Farmers To Replace Their Drug Crops

http://www.un.org/ga/20special/featur/crop.htm

ليکن تمام تر يقين دہانيوں کے باوجود سال 2000 تک منشيات کی کاشت نہ صرف جاری رہی بلکہ کچھ نئے علاقے بھی اس کاروبار ميں شامل ہوگئے۔ 1998 ميں مئ کے مہينے ميں پوست کی کاشت کے موقع پر يو – اين – ڈی – سی – پی کی جانب سے طالبان کو مطلع کيا گيا کہ لغمان، لوگار اور ننگرہار کے صوبوں کے کچھ نئےعلاقوں ميں پوست کی کاشت کا کام شروع ہو گيا ہے۔ يہی وہ موقع تھا جب 1 جون 1998 کو جلال آباد کے شہر ميں طالبان نے سرعام ايک ٹن منشيات کو سرعام آگ لگا کر يہ دعوی کيا تھا اس سال منشيات کی تمام پيداوار کو تلف کر ديا گيا ہے۔ ليکن اعداد وشمار کچھ اور حقيققت بيان کر رہے تھے۔ سال 2000 کے آخر تک منشيات کو کنٹرول کرنے کے کسی ايک بھی پروگرام پر عمل درآمد نہيں کيا گيا۔

U.N. Forsakes Effort to Curb Poppy Growth By Afghans

منشيات کی روک تھام کی کئ نجی تنظيموں کی رپورٹوں سے يہ واضح تھا کہ طالبان اور شمالی اتحاد کے بہت سے سينير اہلکار براہراست منشيات کی ترسيل سے مالی فوائد حاصل کر رہے تھے۔ سال 1997 میں طالبان کے ايک اعلی افسر نے يہ تسليم کيا تھا کہ پوست کی کاشت ميں ملوث کسانوں سے طالبان حکومت 10 فيصد "مذہبی ٹيکس" وصول کرتی تھی۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


افغانستان ميں پائيدار امن کے حصول کے ليے عوام کا پيدل مارچ – عام شہريوں کی جانب سے تشدد کے خاتمے کی اپيل

امن کے ليے افغان شہری سڑکوں پر نکل آئے۔ اس تحريک کا آغاز اس وقت ہوا جب نو افغان شہريوں نے ہلمند سے کابل تک سفرکا پيدل آغاز کيا اور ان کا مطالبہ صرف يہ تھا کہ "ہميں جنگ اور تشدد سے نجات چاہيے"۔ اس کے بعد درجنوں مزيد شہری اس قافلے ميں شامل ہوگئے اور 700 کلوميٹر کا سفر طے کيا گيا تا کہ عوامی سطح پر تشدد اور جنگ کے خاتمے کے حوالے سے شعور اور مطالبات کو تمام فريقین تک پہنچايا جائے۔

جو رائے دہندگان اب بھی يہ سوچ رکھتے ہيں کہ وہ پرتشدد گروہ جو اپنی سوچ عوام پر مسلط کرنے کے ليے دہشت گردی کا سہارا لے رہے ہيں، وہ مستقبل ميں افغانستان پر کاميابی سے قبضہ کر ليں گے انھيں اپنی سوچ پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔ علاوہ ازيں جو کوئ بھی يہ دعوی کرتا ہے کہ افغانستان پر پرتشدد قبضے کے بعد خطے کے عام لوگوں کے ليے فلاح وبہبود کے ايک ايسے دور کا آغاز ہو گا جس کی واپسی کے ليے عوام ايسے لوگوں کو خوش آمديد کہيں گے جو روزانہ انھيں اپنی دہشت گردی سے خوف وہراس کا شکار کر رہے ہيں تو ايسے رائے دہندہ کے بارے ميں تو صرف يہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ تخليات کی دنيا ميں رہتا ہے جس کا حقيقت سے کوئ تعلق نہيں ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
 
Top