افغانستان میں زمانہ قدیم سے اباد عرب

Dilkash

محفلین
http://www.tolafghan.com/laar/index.php?action=detail&b_id=59&post_id=5837
افغانستان کے مختلف صوبوں( بلخ او جوزجان ) میں زمانہ قدیم سے اباد عرب اب بھی اپس میں عربی زبان میں بات کرتے ہیں۔
صوبہ بلخ کے دولت اباد ضلع میں زمانہ قدیم سےاباد عربوں نے گو اپنے رسم و رواج ترک کئے ہیں مگر اپس میب اب بھی عربی میں گفتگو کرتے ہیں۔
تقریبا سات 700سو سے اوپر خاندان خوشحال اباد اور یخدان نام کے دو گاوں میں اباد عرب حضرت عثمان رضی اللہ تعالی کے زمانے سے افغانستان کے فتح کے بعد بغرض تبلیغ اپنے خاندانوں سمیت ائے ہوئے ہیں ۔


خوشحال اباد گاوں کے ایک بزرگ نے اپنی تعارف عربی زبان میں اس طرح کی:
: (اسمي ضياد الله بن عبدالروف من قرية خوشحال اباد و هكذا قريه دار خوشحال اباد.)، ((میرا نام ضياد الله بن عبدالروف ہے. خوشحال اباد گاوں سے تعلق ہے .))

انہوں نے کہا کہ ہمارا بچہ پہلے عربی سیکھتا ہے او بعد میں دوسرے رائج زبانیں سیکھتا ہے۔

ضیاد کہتا ہے کہ اب بہی گاں میں ایسی عورتیں ہیں جو عربی زبان میں بات کرنے کے علاوہ کسی دوسری زبان میں بات نہیں کرسکتی۔انہوں نے کہا کہ انکی 92 سالہ بزرگ دادی عربی کے علاوہ کسی اور زبان کو نہیں جانتی۔

ضیاد کو اندیشہ ہے کہ انکی زبان یہاں کے اباد عربوں میں مٹنے والی ہے کیونکہ عربی کو ترقی اور ترویج کے لئے کوئی سہولت نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ انکے بچے سکولوں میں دری، فارسی میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اس لئے فارسی اور دوسرں زبانوں کی اثر سے اپنی زبان بھول رہے ہیں۔

خوشحال اباد کے بزرگ نے بتایا کہ اگر حکومت نے انکی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے سہولت فراہم کی تو شائید انکی زبان مٹنے سے بچ جائے۔


بلخ کے محکمہ تعلیم کے رئیس محمد ظاہر پنھان کہتاہے کہ ہماری وزارت کی توجہ اس بات پر ہے کہ دری اور پشتو کے علاوہ دوسری مادری زبانوں میں بھی کتابیں چھاپیں اور سکولوں اور دوسرٰے تعلیمی اداروں میں پہنچائیں۔مگر انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ان زبانوں میں عربی شامل نہیں ہے۔


ان عربوں نے اپنے طور پر اپنی زبان کو قائم ضرور رکہا ھوا ھے مگر انکی رواجیں تقریبا ختم جبکہ افغانی رواج اپنایا ہوا ہے۔

یخدان گاوں کے 63 سالہ محمد صدیق نے کہا کہ اب ہم افغان ہیں اور افغانستان میں عربوں کانہیں بلکہ افغانی رواج کو پنایا ہے

. اہوں نے کہا کہ مجہے یاد ہے کہ کس طرح ہم شادی بیاہ میں اپنی رواج کے مطابق دلہن کو جب میکے سے روانہ کرتے تہے تو سسرال کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے گھوڑے پر بیھٹا دیتے تھے۔ پہر دولہا گھوڑا پکڑ کر اگ کے ارد گرد سات پھیرے لگا دیتا تھا۔اخیر میں دلہن کو گھوڑے سے اترواکر گود میں اٹھا کر اپنے عروسی کمرے تک لے جایا جاتا تھا؛


حاجی صدیق نے بتایا کہ مجہے یاد ہے کہ بیمار بچوں کی صحتیابی کے لئے ٹوٹکے استعمال کرتے تھے۔
گاوں میں ایک درخت کی شاخ کے ساتھ جھولا لٹکھاتے تھے پھر اس جھولے میں بیمار بچے کو ڈال کر روشن کی ہوئ شمع جھولے کے ارد گرد گھماتے پھرتے تھے۔۔لوگوں کا عقیدہ ہوتا تھا کہ اس طرح سے بیمار بچے صحت یاب ہوجائے گے۔
يخدان گاوں کے بزرگ 62 سالہ محمد نادر نے کہا کہ ہمارے اقتصادی مشکلات بھی ہیں۔ انہوں نے کھا کہ ہماری گزر بسر زمینی محصلات پر ہیں۔
مگر اب زمینوں او پانی کی کمی سے یہ مشکلات کچھ زیادہ ہوگی ہیں۔



خوشحال اباد گاوں کے جامع مسجد کے خطیب ۳۸ سالہ محمد مختار اپنے خاندان کے اباد ہونے کا تذکرہ کرتے ہوے کہتے ہیں کہ ہمیں مصدقہ طور پر معلوم نہیں مگر سینہ بہ سینہ چلی ائی ہوئی روایات سے پتہ چلتا ہے کہ ہم اہل القریش ہیں


بلخ کے وزارت اطلاعات اورثقافت کے رييس صالح محمد خليق نے ان عربوں کے بارے میں کہا کہ تاریخی شواہد سے اشارے ملتے ہیں کہ یہ لوگ افغانستان کے فتح کے لئے ائے ہوئے لشکر کے ساتھ ائے ہوئے مبلغین کے نسلوں میں سے ہیں۔


انہون نے مزید کہا کہ ان عربوں کی زبان اب خالص نہیں ہے بلکہ یہ بگڑی ہوئ ٹھوٹی پھوٹی عربی میں بات کرتے ہیں۔


بلخ کے علاوہ جوزجان میں اباد عرب بھی عربی میں بات کرتے ہیں۔ .
خوشحال اباد گاوں کے بزرگ ضياد نے کہا کہ شبرغان کے حسن اباد اور داقچې اور سلطان اريغ گاوں کے باسی سب عرب ہیں.

انہوں نے کہا کہ ان چاروں گاوں میں انکا اپس میں رابطہ ہے او ایک دوسرے کے غمی اور خوشی میں برابر کے شریک ہوتے رہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم انہی چاروں گاوں کے لوگ اپس میں رشتے اور شادی بیاہ کرتے ہیں۔

مترجم فیروز افریدی
قطر:13 اگست 2008
 
Top