افسانہ: اچانک (مہدی نقوی حجاز)

سکون آیا ہی تھا کہ روحانی اذیت میں مبتلا ہو گیا۔ وہ مشکوک و مرموز شخص، پہلے کئی دنوں تک سانس کی تکلیف میں مبتلا رہا تھا، اب اس کی یہ حالت دیکھی نہیں جاتی تھی۔ پہلے وہ حالت نہیں دیکھی جاتی۔ آنکھیں جیسے دھنسی جاتی ہوں۔ پہلے بھی ماند تھیں، لیکن زیادہ کھانسنے کے سبب اشک انہیں تازہ رکھتے تھے۔ اچھا تھا کہ بال ترشوا لیے تھے، ورنہ وہ حیران بال، اس کے بھیس کو اور وحشتناک بنا دیتے۔ ہونٹ پہلے بھی مجموعاً ایسے ہی تھے، بس اب بار بار پپڑی اڈھیڑے جانے کی وجہ سے مختلف مقامات پر کھرنڈ سے پیدا ہو گئے تھے۔ ایک نا ہمواری تھی۔ وہ کسی پنج ستارہ رستوران میں نہیں ٹھہرا تھا، خیرپور سے لوٹ کر میرے گھر ٹھہرا ہوا تھا۔ ہاں، اسے لوٹنا ہی کہیں گے، کہ ایک مدت بعد اب اس بات کی تفہیم دشوار تھی کہ وہ خیرپور گیا تھا، یا خیرپور سے آیا ہے۔ کون تھا، بتاتا ہرگز نہیں تھا۔ لیکن میرا مہمان تھا۔ اسٹیشن پر کھانس کھانس کر جب منقلب ہوا تھا تو میں اسے اپنے ساتھ لے آیا تھا۔ میں بھی خیرپور سے ہی آ رہا تھا، یعنی لوٹ رہا تھا۔ کچھ کہتا نہیں تھا شروع سے ہی۔ بس کمرے میں پڑا کھانستا رہتا اور گانے سنتا رہتا۔ اکثر اس پر دیوانہ ہونے کا گماں گزرتا۔ لیکن وہ دیوانہ نہیں تھا۔ یعنی ایسا محسوس بالکل نہیں ہوتا تھا۔ صرف اس کی حرکات، صرف کچھ حرکات اس کے دیوانے پن کی گواہی دیتی تھیں، لیکن دل کسی طور تسلیم نہیں کرتا تھا۔ پھر اچانک یقین آگیا۔ جیسے ہی اس کی طبیعت بہتری کی طرف مائل ہوئی، گھنٹوں چوکھٹ پر کھڑا رہنے لگا تھا۔ اکثر اہلِ محلہ سے شرمندہ ہونا پڑ جاتا، لیکن میں اس سے کچھ کہتا نہیں۔ گانے بھی نہیں سنتا اور کچھ کہتا بھی نہیں۔ یہاں تک کہ کچھ دنوں میں کھانسنا بھی چھوڑ دیا۔ اب مکمل خاموشی سے صرف کھڑا رہتا۔ کئی بار اسے کھانا کھلانے کے بہانے اندر بلایا تو کہہ دیتا یہیں رکھ دو۔ مڑ کر دیکھتا بھی نہیں۔ رات ہوتی تو ایک آہ بہ آوازِ بلند بھرتا، اور آ کر کمرے میں دراز ہو جاتا۔ یہ معمول تھا۔ صبح جلدی اٹھتے اسے دیکھا نہیں تھا۔ کم از کم بارہ گھنٹے سویا کرتا۔ کھڑی دوپہر میں اٹھ کر، چوکھٹ کو نکل پڑتا۔ وہاں سے کسی بچے کو بھیج کر اپنا ناشتہ منگواتا، اور پھر دن ڈھلنے تک وہیں کھڑا رہتا۔
ایک شام اسے لیٹا دیکھا۔ کمرے میں۔ ایک تفہیمی صورت بنائے اس کے پاس پہنچا تو خود اچانک کہہ اٹھا، "آج وہی دن ہے"۔ یہ کہہ کر اٹھ کھڑا ہوا۔ پھر بیٹھ گیا، اور پھر کچھ لمحے ٹھہر کر اپنا بستہ اٹھا کر کھڑا ہو گیا۔ دروازے کی طرف گیا اور چلانے لگا، "آج وہی دن ہے۔" میں نے سوال کیا "آج کیا ہے؟"، اس نے کوئی اعتنا نہیں کی۔ پھر دوڑتا ہوا سڑک پر نکل گیا۔ اسے میں نے آخری بار سڑک کے اِس پار زندہ دیکھا تھا!
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
"آج وہی دن ہے"
یہ دن ہی تو ہیں جن کے انتظار میں آنکھیں لگائے ہیں سب۔۔۔۔ کسی ایک دن کا انتظار۔۔۔ مقصد مکمل ہوجانے کا۔۔۔ منزل ختم ہونے کا۔۔۔۔

اعلیٰ۔۔۔ شاد رہیں مہدی بھائی۔۔
 
"آج وہی دن ہے"
یہ دن ہی تو ہیں جن کے انتظار میں آنکھیں لگائے ہیں سب۔۔۔ ۔ کسی ایک دن کا انتظار۔۔۔ مقصد مکمل ہوجانے کا۔۔۔ منزل ختم ہونے کا۔۔۔ ۔

اعلیٰ۔۔۔ شاد رہیں مہدی بھائی۔۔
جی جناب۔ لیکن منزل ختم نہیں ہوتی۔ راستے وہیں رہ جاتے ہیں!
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
آپ کی تحریر نے ایسے ہی ایک حقیقی کردارکی یاد دلا دی۔ کئی سال پہلے بھیا شام کو گھر پہنچے تو ان کے ساتھ ایک اجنبی شخص بھی تھا، بھیا کو وہ شخص کہیں رستے میں ملا تھا اس کے پاؤں میں جوتی نہیں تھی، لباس بھی بہت میلا تھا جیسے کئی دن سے پہنا ہوا ہو، بال کھچڑی اور ہاتھ پاؤں اور چہرے پر مٹی کافی، رات کو وہ گھر میں ہی رہا اور اگلے دن کہیں چلا گیا، نہیں معلوم کہاں۔
 
آپ کی تحریر نے ایسے ہی ایک حقیقی کردارکی یاد دلا دی۔ کئی سال پہلے بھیا شام کو گھر پہنچے تو ان کے ساتھ ایک اجنبی شخص بھی تھا، بھیا کو وہ شخص کہیں رستے میں ملا تھا اس کے پاؤں میں جوتی نہیں تھی، لباس بھی بہت میلا تھا جیسے کئی دن سے پہنا ہوا ہو، بال کھچڑی اور ہاتھ پاؤں اور چہرے پر مٹی کافی، رات کو وہ گھر میں ہی رہا اور اگلے دن کہیں چلا گیا، نہیں معلوم کہاں۔
یہ خدا کے آزاد بندے ہیں!
 
Top