اعلیٰ تعلیم کا مستقبل۔پاکستان، بھارت

بھارتیHRD وزیر کپل سبال نے حال ہی میں لوک سبھا کو بتایا ہے کہ اگلے پانچ سالوں میں ملک بھر میں 200نئی یونیورسٹیاں اور40نئے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے قیام کے ساتھ ساتھ 9/اضافیIITS بھی قائم کئے جائیں گے۔ اس طرح بھارت میں IITS کی تعداد16ہو جائے گی۔ بھارت کے بارہویں پانچ سالہ (1212-1217) منصوبے میں تعلیم کے شعبے کے لئے 80کروڑ روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے تاکہ ملک کو علم پر مبنی مضبوط معیشت کی طرف لے جایا جا سکے۔ اب تک تعلیمی شعبے کے اخراجات کے لئے مختص کی جانیوالی یہ سب سے کثیر رقم ہے۔ بھارت میں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے والے 17-23 سال کی عمر کے افراد اس ملک کے نوجوان طبقے کا 17فیصد ہیں۔ (اسکے مقابلے میں پاکستان میں یونیورسٹیوں میں زیرتعلیم افراد اسکے نوجوان طبقے کا صرف 7.6فیصد ہیں )۔2030ء تک بھارت اعلیٰ تعلیم سے وابستہ نوجوان طبقے کی اس تعداد کو بڑھا کر 30فیصد تک لے جانا چاہتا ہے۔ (چتین چوہان، ہندوستان ٹائمز، نیو دہلی، اپریل 25، 2010ء)۔ بھارتی کابینہ نے دسمبر2011ء میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی جگہ ایچ ای سی کی طرز پرخطیر وفاقی فنڈ کی مدد سے اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کیلئے کمیشن (National Commission of Higher Education and Research) کے قیام کی منظوری دی ہے۔2010ء کی دہائی میں پاکستان میں تیزی سے رونما ہونیوالی ان تبدیلیوں نے بھارت میں ایک کھلبلی سی مچا دی تھی۔پروفیسر سی این آر راؤ کی طرف سے جولائی 2006ء میں بھارت کے وزیرِ اعظم کو اعلیٰ تعلیمی اعتبار سے پاکستان میں ہونے والی تبدیلیوں کے پیش نظر ممکنہ خطرات سے آگاہ کرنے کیلئے ایک تفصیلی رپورٹ پیش کی گئی،جو ہندوستان ٹائمز میں 3جولائی2006ء کے اخبار میں نیہا مہتا نے اپنے مقالہ بعنوان۔ "Pak.threat to Indian Science" یعنی بھارتی سائنس کیلئے پاکستان کی طرف سے خطرہ میں شائع کی گئی اور مضمون کا آغاز ہی اس جملے سے کیا گیا تھا کہ سائنسی میدان میں بھارت کو سنجیدہ چیلنج دینے کے معاملے میں پاکستان جلد ہی چین کا ہم پلہ ہو جائیگا۔ بھارتی وزیراعظم کو پیش کردہ اس رپورٹ میں بھارت کے اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں نئے سرے سے اصلاحات متعارف کرائی گئیں۔ بھارت شروع سے ہی اعلیٰ تعلیم اور سائنس و ٹیکنالوجی کو اولین ترجیح دیتا چلا آیا ہے اور یہی خصوصی ترجیح آج کے دور کے جدید ہندوستان کی بنیاد بنی۔ بھارت کے پہلے وزیرِاعظم جواہر لال نہرو ان کلیدی شعبوں کی ترقی میں ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے ان کی خود نگرانی کیا کرتے تھے۔ بھارت نے مغرب کے ترقی یافتہ ملکوں کے تعاون سے ملک میں انجینئرنگ کے سات بہترین انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (IIT)کے نام سے قائم کئے ہیں۔
گزشتہ دہائی میں پاکستان نے اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں تیزی کیساتھ پیشرفت کی تھی، اس کا اندازہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم طالب علموں کی بڑھتی ہوئی تعداد، یونیورسٹیوں اور دیگر ڈگری دینے والے اداروں میں اضافہ اور بین الاقوامی جرائد میں شائع شدہ تحقیقی مضامین میں برق رفتار اضافے سے لگایا جا سکتا ہے۔2003ء میں ملکی یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم طالب علموں کی تعداد 276,000 تھی جو2011 ء میں بڑھ کر 803,000 ہو گئی۔ یونیورسٹیوں اور ڈگری دینے والے اداروں کی تعداد 2000ء میں صرف 59تھی جو2011 ء میں خاطر خواہ اضافے کے ساتھ 137 ہو گئی۔ بین الاقوامی جرائد میں اعلیٰ تحقیقی مضامین کی اشاعت 2000ء میں636 تھی جو2011ء میں بڑھ کر 6200 تک جا پہنچی۔ Ph.D میں فارغ التحصیل ہونیوالے طلبہ کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ بھی اس بات کی روشن دلیل ہے۔1947ء سے 2002ء کے درمیانی پچپن سالوں میں ملک کی تمام یونیورسٹیوں کی مجموعیPh.Dکی تعداد281تھی (یعنی فی یونیورسٹی 3-4 Ph.Ds کا مایوس کن اوسط) اس کی نسبت اگلے 8 سالوں میں Ph.Dsکی تعداد پچھلے ریکارڈ سے کہیں تجاوز کر کے 3,658ہو گئی۔ ان 8 سالوں میں تمام تر زور معیاری Ph.D افرادی قوت تیار کرنے پر دیا گیا۔ اس کیلئے Ph.Ds مقالے منظوری سے پہلے جانچ کیلئے کم از کم دو بین الاقوامی ماہرین کو بھجوائے جاتے ہیں، جو ٹیکنالوجی میں ترقی یافتہ ممالک سے تعلق رکھتے ہوں۔
اعلیٰ تعلیم کے سیکٹر میں جو یہ خاموش انقلاب برپا ہوا اسے غیر جانبدار بین الاقومی ماہرین اور ایجنسیوں نے بے حد سراہا اور اس بارے میں مختلف رپورٹس بھی شائع کیں۔ رائل سوسائٹی لندن کی شائع کردہ کتاب "A New Golden Age" میں پاکستان کو ترقی پذیر ممالک کیلئے ایک بہترین ماڈل کے طور پر پیش کیا گیا۔دنیا کے بہترین سائنسی جریدے Nature نے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے کی ترقی و تبدیلی پر چار ادارئیے اور متعدد مضامین شائع کئے۔ 2008ء میں نئی حکومت کو دوبارہ سائنس کے اُسی پتھر کے دور میں جانے سے بچنے کا مشورہ بھی دیا جو 2002ء کے بعد متعارف کرائی جانیوالی اصلاحات سے پہلے کا دور تھا۔
28 2008اگست 2008 1030- (Nature 454 (7208)
doi:10.1038/4541030a)
مجلسِ قائمہ سینٹ کمیٹی برائے تعلیم کی چیئرپرسن نے اس دور کو ”پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کا سنہری دور“ قرار دیا اور میری دوبارہ تقرری کی حمایت بھی کی جبکہ میں نے اپنے عہدے سے اس وقت احتجاجاً استعفیٰ دے دیا تھا کیونکہ ایچ ای سی کی طرف سے اسکالر شب پر بیرونِ ملک بھیجے جانے والے طلبہ کے وظیفوں کو روک دیا گیا تھا۔ (جاری ہے)
از:ڈاکٹر عطاالرحمٰن۔
بشکریہ: جنگ
 
اعلیٰ تعلیم کا مستقبل۔ بھارت ،پاکستان . . . ڈاکٹر عطاء الرحمن (گزشتہ سے پیوستہ)
مجلسِ قائمہ سینٹ کمیٹی برائے تعلیم کی چیئرپرسن نے اس دور کو ”پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کا سنہری دور“ قرار دیا اور میری دوبارہ تقرری کی حمایت بھی کی جبکہ میں نے اپنے عہدے سے اس وقت احتجاجاً استعفیٰ دے دیا تھا کیونکہ ایچ ای سی کی طرف سے اسکالر شپ پر بیرونِ ملک بھیجے جانے والے طلبہ کے وظیفوں کو روک دیا گیا تھا۔
(heep://epaperdawn.com/artMailDisp.aspex?
article=23-11-2008-123-003styp=0
تعلیمی اداروں کی تعمیر اور اس شعبے میں موثر تبدیلیوں کے نتیجے میں حاصل ہونے والی کامیابیوں پر مجھے آسٹریا کی حکومت نے اعلیٰ ترین سول اعزاز اور پھر بین الاقوامی ادارے TWASنے TWAS PRIZE(اٹلی)سے نوازا ۔
اعلیٰ تعلیم کے میدان میں 2003-2008ء کے دوران ہونے والی کامیابی کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے، پاکستان میں ہم اپنے واحد کامیاب ادارے کو خود اپنے ہی ہاتھوں مکمل طور پر تباہ و برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ جو عوام کے لئے امید کی ایک کرن کی حیثیت رکھتا ہے۔ اول تو 2009ء میں تعلیمی بجٹ کو 50فیصدکٹوتی کر کے آدھا کر دیا گیا۔ پھر بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے والے ہزاروں طلباء و طالبات کے وظائف رو ک دیئے گئے، وہ طالب علم جو اپنا مستقبل روشن بنانے کے لئے اپنے گھروں سے نکلے تھے وہ پردیس میں سڑکوں پر بھیک مانگنے پر مجبور ہوگئے۔ یہی نہیں ایچ ای سی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے مرتبے کو وفاقی سیکریٹری کی حیثیت سے بھی کم کردیا گیا تاکہ ایچ ای سی ڈیپارٹمنٹل ڈیولپمنٹ ورکنگ پارٹی (DDWP) کے اجلاس بلانے اور یونیورسٹیوں کے لئے پروجیکٹ منظور کرنے سے قاصر رہے۔ پاکستان کے بڑے شہروں میں ملکی اشتراک سے انجینئرنگ یونیورسٹیوں کے قیام کے منصوبے بھی روک دیئے گئے۔ ان یونیورسٹیوں کے قیام سے ملک کو سالانہ پچاس بلین روپے کا فائدہ حاصل ہوتا اور مقامی طلبہ کو ملک ہی میں بیرونی ڈگری کے ساتھ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے مواقع سے محروم کر دیا گیا۔ ایچ ای سی کا جرم یہ تھا کہ اس نے ملک کے قابلِ احترم ارکانِ پارلیمنٹ سے 51 کی ڈگریاں جعلی اور250 کی مشتبہ قرار دی تھیں۔ کسی اور ملک میں اس عمل کا نتیجہ ان افراد کی معزولی کی صورت میں ہوتا اور دھوکہ دہی اور جعل سازی کے جرم کی سزا بھی ملتی۔ لیکن ہمارے الیکشن کمیشن نے ان مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے افراد کے انتخاب کو کالعدم قرار دینے کے بجائے انہی کے فراڈ میں شریک ہو کر سپریم کورٹ کے فیصلے کو نظر انداز کر دیا۔خود سپریم کورٹ کا اس انتہائی اہم قومی معاملے پر چشم پوشی کرنا ہر کسی کی بھی سمجھ سے بالا تر ہے۔ جعلی ڈگریوں پر منتخب ہونے والے انہی ارکانِ پارلیمنٹ کا ایک ٹولہ آج ایچ ای سی کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے درپے ہے۔ اس ٹولے کے دباؤ پر 30نومبر 2010ء کو اس سے متعلق ایک حکومتی نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا۔ اس کے خلاف میں نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جس پر فیصلہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے حکومتی اقدام کو غیر آئینی قرار دیا۔ اب ایک اور بل پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا ہے جس میں ایچ ای سی کو اس کے 44بلین روپے کے بجٹ سے محروم کر کے یہ رقم ایک وفاقی سیکریٹر ی کے حوالے کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ یہ قدم کرپشن اور بدعنوانی کے دروازے کھولنے کے مصداق ہو گا۔ ابھی تک اس فنڈ کی تقسیم کا اختیار ایچ ای سی کے سترہ رکنی کمیشن کے پاس ہے جس میں چار صوبائی سیکریٹری، دو وفاقی سیکریٹری ، وائس چانسلرز اور چند ممتاز شہری شامل ہیں۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ بھارت اپنے اعلیٰ تعلیم کے شعبے کو مضبوط کرنے کے لئے سر دھڑ سے کوشاں ہے اور اس راستے پر قلانچیں بھرتے ہوئے نہایت تیزی سے رواں دواں ہے۔ اس کے برعکس پاکستان اپنے نااہل اراکینِ پارلیمنٹ کے ہاتھوں یرغمال بن کر تنزلی کی دلدل میں ڈوبتا ہی جا رہا ہے۔ پاکستان میں ایچ ای سی کی شاندار کامیابیوں سے متاثر بھارت نے تو ایچ ای سی کو ماڈل بنا لیا لیکن ہم خود انجام سے بے پروا ہو کر اس ادارے کو مکمل طور پر تباہ کرنے پر کمر بستہ ہیں۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتی جا رہی ہے کہ ہمارا دشمن بھارت نہیں بلکہ ہم خود ہیں۔ آج ہم اپنے ہی ہاتھوں اپنے ذہین بچوں کا مستقبل تاریک کر رہے ہیں۔
بشکریہ:جنگ
 

سید زبیر

محفلین
اعلیٰ تعلیم کا مستقبل۔ بھارت ،پاکستان . . . ڈاکٹر عطاء الرحمن (گزشتہ سے پیوستہ)
مجلسِ قائمہ سینٹ کمیٹی برائے تعلیم کی چیئرپرسن نے اس دور کو ”پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کا سنہری دور“ قرار دیا اور میری دوبارہ تقرری کی حمایت بھی کی جبکہ میں نے اپنے عہدے سے اس وقت احتجاجاً استعفیٰ دے دیا تھا کیونکہ ایچ ای سی کی طرف سے اسکالر شپ پر بیرونِ ملک بھیجے جانے والے طلبہ کے وظیفوں کو روک دیا گیا تھا۔
(heep://epaperdawn.com/artMailDisp.aspex?
article=23-11-2008-123-003styp=0
تعلیمی اداروں کی تعمیر اور اس شعبے میں موثر تبدیلیوں کے نتیجے میں حاصل ہونے والی کامیابیوں پر مجھے آسٹریا کی حکومت نے اعلیٰ ترین سول اعزاز اور پھر بین الاقوامی ادارے TWASنے TWAS PRIZE(اٹلی)سے نوازا ۔
اعلیٰ تعلیم کے میدان میں 2003-2008ء کے دوران ہونے والی کامیابی کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے، پاکستان میں ہم اپنے واحد کامیاب ادارے کو خود اپنے ہی ہاتھوں مکمل طور پر تباہ و برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ جو عوام کے لئے امید کی ایک کرن کی حیثیت رکھتا ہے۔ اول تو 2009ء میں تعلیمی بجٹ کو 50فیصدکٹوتی کر کے آدھا کر دیا گیا۔ پھر بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے والے ہزاروں طلباء و طالبات کے وظائف رو ک دیئے گئے، وہ طالب علم جو اپنا مستقبل روشن بنانے کے لئے اپنے گھروں سے نکلے تھے وہ پردیس میں سڑکوں پر بھیک مانگنے پر مجبور ہوگئے۔ یہی نہیں ایچ ای سی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے مرتبے کو وفاقی سیکریٹری کی حیثیت سے بھی کم کردیا گیا تاکہ ایچ ای سی ڈیپارٹمنٹل ڈیولپمنٹ ورکنگ پارٹی (DDWP) کے اجلاس بلانے اور یونیورسٹیوں کے لئے پروجیکٹ منظور کرنے سے قاصر رہے۔ پاکستان کے بڑے شہروں میں ملکی اشتراک سے انجینئرنگ یونیورسٹیوں کے قیام کے منصوبے بھی روک دیئے گئے۔ ان یونیورسٹیوں کے قیام سے ملک کو سالانہ پچاس بلین روپے کا فائدہ حاصل ہوتا اور مقامی طلبہ کو ملک ہی میں بیرونی ڈگری کے ساتھ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے مواقع سے محروم کر دیا گیا۔ ایچ ای سی کا جرم یہ تھا کہ اس نے ملک کے قابلِ احترم ارکانِ پارلیمنٹ سے 51 کی ڈگریاں جعلی اور250 کی مشتبہ قرار دی تھیں۔ کسی اور ملک میں اس عمل کا نتیجہ ان افراد کی معزولی کی صورت میں ہوتا اور دھوکہ دہی اور جعل سازی کے جرم کی سزا بھی ملتی۔ لیکن ہمارے الیکشن کمیشن نے ان مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے افراد کے انتخاب کو کالعدم قرار دینے کے بجائے انہی کے فراڈ میں شریک ہو کر سپریم کورٹ کے فیصلے کو نظر انداز کر دیا۔خود سپریم کورٹ کا اس انتہائی اہم قومی معاملے پر چشم پوشی کرنا ہر کسی کی بھی سمجھ سے بالا تر ہے۔ جعلی ڈگریوں پر منتخب ہونے والے انہی ارکانِ پارلیمنٹ کا ایک ٹولہ آج ایچ ای سی کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے درپے ہے۔ اس ٹولے کے دباؤ پر 30نومبر 2010ء کو اس سے متعلق ایک حکومتی نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا۔ اس کے خلاف میں نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جس پر فیصلہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے حکومتی اقدام کو غیر آئینی قرار دیا۔ اب ایک اور بل پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا ہے جس میں ایچ ای سی کو اس کے 44بلین روپے کے بجٹ سے محروم کر کے یہ رقم ایک وفاقی سیکریٹر ی کے حوالے کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ یہ قدم کرپشن اور بدعنوانی کے دروازے کھولنے کے مصداق ہو گا۔ ابھی تک اس فنڈ کی تقسیم کا اختیار ایچ ای سی کے سترہ رکنی کمیشن کے پاس ہے جس میں چار صوبائی سیکریٹری، دو وفاقی سیکریٹری ، وائس چانسلرز اور چند ممتاز شہری شامل ہیں۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ بھارت اپنے اعلیٰ تعلیم کے شعبے کو مضبوط کرنے کے لئے سر دھڑ سے کوشاں ہے اور اس راستے پر قلانچیں بھرتے ہوئے نہایت تیزی سے رواں دواں ہے۔ اس کے برعکس پاکستان اپنے نااہل اراکینِ پارلیمنٹ کے ہاتھوں یرغمال بن کر تنزلی کی دلدل میں ڈوبتا ہی جا رہا ہے۔ پاکستان میں ایچ ای سی کی شاندار کامیابیوں سے متاثر بھارت نے تو ایچ ای سی کو ماڈل بنا لیا لیکن ہم خود انجام سے بے پروا ہو کر اس ادارے کو مکمل طور پر تباہ کرنے پر کمر بستہ ہیں۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتی جا رہی ہے کہ ہمارا دشمن بھارت نہیں بلکہ ہم خود ہیں۔ آج ہم اپنے ہی ہاتھوں اپنے ذہین بچوں کا مستقبل تاریک کر رہے ہیں۔
بشکریہ:جنگ


ذہین بچوں کا مستقبل روزگار کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے تاریک ہوتا ہے ۔تعلیم یافتہ بچہ جب روز واپس اّ کر اپنی بے روزگاری کا بتاتا ہے تو یہ باپ بیٹے ہی کو پتہ ہوتا ہے کہ ان کے دل پر کیا گزرتی ہے۔ ابتدإی تعلیم ہی غریب کی استطاعت سے باھر ہوتی ہے اگر روزگارکے مواقع ہوں تو ہمارے ٹیکنیشنز بہی نئی جہتیں تلاش کریں گے
 

دوست

محفلین
پی ایچ ڈی کا حال کیا کہوں۔ اتنا کہتا ہوں کہ عمرانیات، سماجی سائنسز میں پی ایچ ڈی اور ایم فِل دھڑا دھڑ ہو رہے ہیں۔ اور ان کا فائدہ اتنا ہی ہے کہ بندہ کسی یونیورسٹی میں لیکچرار لگ جاتا ہے، یا اچھی تدریسی جاب ملنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ نیچرل سائنسز میں بھی پی ایچ ڈی زیادہ ہونی چاہیئے۔ مزید یہ کہ پی ایچ ڈی میں ہی تحقیق نہیں ہوتی۔ مقصود یہ ہونا چاہیئے کہ تحقیق کا کلچر پروان چڑھے، اور اس کے لیے معیاری لیبارٹریاں، عالمی معیار کے ریسرچ جرنلز وغیرہ قائم کرنے ضروری ہیں۔
چلتے چلتے ایک سادہ سی مثال اقبال پر پی ایچ ڈی، اردو افسانے پر ایم فِل، اسلامی فقہ پر ایک عدد تھیسز وغیرہ کا ملکی ترقی کے ساتھ اتنا براہ راست تعلق نہیں جتنا شمسی سیل بنانے پر تحقیقی پراجیکٹ، سستی پون چکی بنانے پر پی ایچ ڈی، الیکٹرونک سرکٹ سے زیادہ سے زیادہ آؤٹ پٹ کا حصول (فرضی موضوعات مقصد صرف سمجھانا ہے) کا ملکی ترقی پر اثر ہو سکتا ہے۔ عمرانیات اور سماجی سائنسز کی اہمیت اپنی جگہ لیکن نیچرل سائنسز اور تکنیکی تعلیم بہت ضروری ہے۔ پی ایچ ڈی کے ڈھیر لگا دینے سے کیا ہو گا؟ پڑے سڑا کریں گے پھر۔
 
Top