اضطراب اور عدم استحکام کا سال

اضطراب اور عدم استحکام کا سال
جان سمپسننامہ نگار عالمی امور

141123130031_maidan_19_february_624x351_epa.jpg

یوکرین میں تقریباً پورے سال عدم استحکام نظر آیا
سال کسی شہر کی بھیڑ کی طرح ہوتے ہیں اور وہ آپ کے سامنے سے بغیر کوئی تاثر چھوڑے گزرتے رہتے ہیں۔

ان میں البتہ کوئی کوئی آپ کے احساسات اور تاریخ پر اپنے گہرے اثرات چھوڑ جاتے ہیں۔

سنہ 2014 اسی قسم کا ایک سال تھا۔ اس میں رونما ہونے والے واقعات نے ہمیں اس تاثر سے جھنجھوڑ کر نکالا کہ چیزیں معمول کے مطابق ہوتی رہیں گی۔

ان میں سے بعض واقعات پیشِ خدمت ہیں:

21 فروری کی شب یوکرین میں روس نواز صدر یانکووچ کے حامیوں اور یوکرین کے ان مظاہرین کے درمیان پرتشدد واقعات رونما ہوئے جو یوکرین کی یورپی یونین میں شمولیت چاہتے تھے۔

کیئف کے مرکزی چوک میدان میں مظاہرین حکومت کے خلاف اسلحہ اٹھانے پر آمادہ نظر آئے۔ بلوہ پولیس پیچھے ہٹ گئی اور صدر یانکووچ روس فرار ہو گئے۔

یہ دائیں بازو کی تخت الٹنے کی کوشش تھی یا پھر مقبول عام انقلاب؟ روسیوں، یورپیوں اور امریکیوں کی آرا میں اختلاف تھا۔

141121213950_moscow_anniversary_of_maidan_624x351_afp.jpg

روس کے موقف میں سختی آئی ہے اور ایک نرم سرد جنگ کا دور لوٹ آیا ہے
اس کے فورا بعد کرائمیا کے خطے کو روسی فوجی وردی میں ملبوس جنگجوؤں نے تسلط جما لیا۔ یہ الگ بات کہ ان کا کہنا تھا کہ وہ مقامی رضاکار ہیں۔

کرائمیا جو ہمیشہ سے روس کا بچھڑا ہوا خطہ نظر آتا تھا، اس نے روسی وفاق میں شامل ہونے کے لیے ووٹنگ کی۔ روس خوشی سے پھولے نہ سمایا۔

مشرقی یوکرین میں واضح خانہ جنگی رہی اور روسی فوج کئی طرح کے بھیسوں میں اس میں شامل رہی۔

اور اسی درمیان ملائیشیا کا ایمسٹرڈم سے کوالالمپور جانے والا طیارہ جب مشرقی یوکرین سے گزر رہا تھا تو وہ ایک روسی ساخت کے میزائل کا نشانہ بن گیا۔ اس پر سوار 298 افراد مارے گئے۔

اس قسم کی چیزیں یورپ، امریکہ اور یورپی یونین اور بعض ديگر ممالک میں پہلے کبھی نہیں ہوئی تھیں اور ان ممالک اور بین الاقوامی برادریوں نے روس کی سرزنش کی خاطر اس پر پابندیاں لگانی شروع کر دیں۔

معاشی طور پر نقصان اٹھانے کے سبب روس نے مغرب کے خلاف مزید سخت رویہ اختیار کرلیا۔ یہ دوسرے مگر نرم اور کم خطرناک سرد جنگ کی ابتدا تھی۔

141222133059_isis_fighters_624x351_afparchive.jpg

اس سال ایک وقت ایسا آیا جب لگتا تھا کہ سیاہ پرچم عالم اسلام پر چھا جائے گا
تاہم ابھی سنہ 2014 کے بطن میں مزید صدمے چھپے تھے۔

نو اور دس جون کی رات معمولی تربیت یافتہ مذہبی انتہا پسندوں کی 1300 افراد پر مشتمل ایک ٹکڑی کاروں پر سوار عراق کے ایک بڑے شہر موصل میں داخل ہوئی اور اس پر قبضہ کر لیا۔

اچانک لوگ دولت اسلامیہ کے سیاہ پرچم سے روشناس ہوئے۔ ایک غیر معمولی قوت عراق اور شام میں کھلے عام گھومنے پھرنے لگی اور اس کے عالم اسلام میں پھیل جانے کا خطرہ بڑھنے لگا۔

عراقی فوج اور بطور خاص اس کے حکام اس کی زد میں تھے۔ دوسرے دن سیاہ پرچم تکریت پر بھی لہرا رہا تھا اور ایسا لگ رہا تھا کہ دارالحکومت بغداد دولت اسلامیہ کے قبضے میں جانے ہی والا ہے۔

لیکن بغداد ڈٹا رہا۔ دولت اسلامیہ شہروں کے بجائے بے یار و مددگار قیدیوں کے قتل عام کی وجہ سے خبروں کی شہ سرخیوں پر قبضہ کرتا رہا جسے اس نے ہنر مندی کے ساتھ فلم بند کیا اور اس میں موسیقی ڈالی۔

141203051108_isis_624x351_ap_nocredit.jpg

دنیا نے دولت اسلامیہ کے خلاف ایک ایسا محاذ دیکھا جس کا پہلے تصور نہیں کیا جا سکتا تھا
رفتہ رفتہ دولت اسلامیہ کے مخالفین یکجا ہونا شروع ہوئے۔ عراق میں انتہائی فرقہ وارانہ حکومت بدلی۔ بظاہر کبھی نہ ہونے والا اتحاد سامنے آیا اور مغربی ممالک، عراقی کردوں اور ایران نے متحدہ طور پر دولت اسلامیہ کے خلاف شام میں محاذ بنایا۔

اب کوئی بھی سنجیدگی کے ساتھ یہ نہیں کہتا کہ سیاہ پرچم پورے خطے میں لہرائے گا تاہم دولت اسلامیہ پاکستان سے لے کر لیبیا کے شدت پسندوں کو متوجہ کر رہی ہے اور نائجیریا میں بوکو حرام تحریک اپنی کریہہ صورت میں موجود ہے۔

سنہ 2014 میں ایسا وقت بھی آیا جب یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ دنیا ایبولا کے مہلک وائرس کی زد میں آ جائے گی۔

در حقیقت ایسا نہیں ہونے والا تھا کیونکہ دنیا کے طبی وسائل بہت مضبوط ہیں اور دوسرے اس لیے بھی کہ اس مرض میں بہت زیادہ وبائی صفت بھی نہیں ہے۔

141222170034_selfie_stick_moderno_624x351_afp.jpg

ٹائم ميگزین کا کہنا ہے کہ یہ سال سیلفی کا رہا
تاہم اس سے بہت سے لوگ خوفزدہ رہے اور ایسے حالات میں جیسا ہوتا رہا ہے، حکومتوں اور لوگوں نے کچھ زیادہ عقلمندی اور تمیز کا مظاہرہ نہیں کیا۔

یہ الٹ پھیر کا سال رہا ہے۔ برطانیہ اور امریکہ نے افغانستان اور عراق سے بظاہر واپسی کر لی ہے تاہم اس نے مقامی فورسز کو مستحکم کرنے کے لیے وہاں اپنی افواج واپس بھیجی ہے۔

یورپ میں علیحدگی پسندی کے احساس میں اضافہ ہوا ہے، خواہ وہ سکاٹ لینڈ ہو یا سپین یا پھر یورپی یونین کو ناپسند کرنے کا معاملہ ہی کیوں نہ ہو۔

ہانگ کانگ میں علیحدہ شناخت کی خواہشات نے چین کو نئی سختیوں کی طرف پہنچایا ہے جبکہ صدر شی جن پنگ کمیونسٹ پارٹی پر اپنے کنٹرول کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

141215045411_hong_kong_clearance_624x351_reuters.jpg

ہونگ کانگ میں منفرد شناخت کے مسئلے پر مظاہرے جاری رہے
جوں جوں سنہ 2014 اپنے اختتام کے قریب پہنچ رہا ہے، بڑے عالمی مسائل سڑکوں پر نظر آ رہے ہیں۔ سڈنی سے ڈی جان اور ٹورز تک بے راہ عناصر نے لوگوں پر اسلام کے نام پر حملہ کیا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نسلی حملے بڑھے ہیں۔

برطانیہ میں پولیس اور سیاست دان دونوں کو دہشت گردانہ حملے کے ناگزیر ہونے پر تشویش ہے۔ امریکہ میں پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام افراد کی کئی ہلاکتوں کے بعد پولیس پر اعتماد میں کمی آئی ہے۔

ٹائم میگزین نے لکھا ہے کہ سنہ 2014 سیلفی کا سال رہا۔ ہو سکتا ہے۔

لیکن میرے خیال میں یہ سال اضطراب اور عدم استحکام کا سال رہا۔ سنہ 2014 کی اصل سیلفی خود پر عدم اعتماد رہی۔
 
Top