اصلاح کے لیے

یہ غزل ویسے میری دوسری کہی ہوئی ہے مگر پہلی دکھانے لائق کہی جا سکتی ہے۔

کیا روشن جہاں ہونے لگا ہے
نیا سورج عیاں ہونے لگا ہے

جمالِ یار ہر سو جلوہ گر ہے
خدا اب مہرباں ہونے لگا ہے

تخیل پر مجھے اپنے تو پھر اب
حقیقت کا گماں ہونے لگا ہے

یقیں مجھ پر اسے اب بھی نہیں ہے
زمانہ ہم زباں ہونے لگا ہے

کسی نے کان اس کے بھر دیے ہیں
وہ ہم سے بدگماں ہونے لگا ہے

جو تھا موجود دل میں کب سے میرے
زباں سے اب بیاں ہونے لگا ہے

دل اتنا ہو رہا بے تاب کیوں ہے
محبت کا گماں ہونے لگا ہے
 
آخری تدوین:

ابن رضا

لائبریرین
بہت خوب

کیا روشن جہاں ہونے لگا ہے
نیا سورج عیاں ہونے لگا ہے

کیا اگر استفہامیہ ہے تو بروزن کا شمار کیا جائے گا۔ کیا اگر کرنے کا ماضی ہے تو یہاں بے محل ہے۔

جمالِ یار ہر سو جلوہ گر ہے
خدا اب مہرباں ہونے لگا ہے

اب یہاں بھرتی کا ہے اس سے لگتا ہے کہ پہلے خدا نعوذ باللہ ظالم تھا کیا؟
 

الف عین

لائبریرین
ابن رضا کے نکات درست ہیں۔ مزید یہ دو مصرعے بھی دیکھ لیں، رواں اور چست بن سکتے ہیں آسانی سے۔

تخیل پر مجھے اپنے تو پھر اب

دل اتنا ہو رہا بے تاب کیوں ہے
 
Top