اصلاح مطلوب ہے۔ فعولن

زلفی شاہ

لائبریرین
محبت کو دل میں جواں چاہتا ہوں
نہیں ہے کراں پر کراں چاہتا ہوں
خرد سے ہوا بیگانہ اس قدر میں
کہ خاروں بھرا گلستاں چاہتا ہوں
کیوں بے خطر نارِ نمرود میں ہوں
کہ جل کر اسی میں جناں چاہتا ہوں
مقدر میرا بن جائے مثلِ سورج
ہو جنت میں اعلی مکاں چاہتا ہوں
جلایا خزاں نے سدا باغ میرا
بہاروں میں موسم خزاں چاہتا ہوں
مخالف ہیں مکارو عیار و چالاک
میں فکرِ مسلماں جواں چاہتا ہوں
مِرے ساتھ زلفی ٹہل تو ارم میں
رقیبوں کے دل میں دھواں چاہتا ہوں
 
Top