اقتباسات اشفاق احمد

ایک دفعہ ہم سے کوئی پوچھ رہاتھا کہ جو تحریر ہے اس کو آپ کس طرح سے دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ ایک تحریر صحافت کی ہوتی ہے اور ایک ادب کی ہوتی ہے اور ان میں کیا فرق ہے؟تو میں ان سے یہی عرض کر رہا تھا کہ صحافت کی تحریر ایک وقائع نگار کی تحریرہوتی ہے۔وہ جو جو واقعات دیکھتا ہے انہیں کے ساتھ کو دیکھ پرکھ کر ایک فریم ورک میں موجود کر کے لکھتا ہے،اور وہ سچ کے پیچھے،تحقیق کے پیچھے جانے کی پوریکوشش کرتا ہے،اور سعی کرتا ہے،ان واقعات کو جو گزرے اور وہ واقعات جو آنے والے ہیں،اور جس کے بارے میں وہ ان حال کے واقعات سے اندازہ لگاتا ہے،وہ صحافت کی تحریر ہوتی ہے۔
اور جو ادیب ہوتا ہے،وہ اس حقیقت سے ایک رمز تلاش کرتا ہے۔ایک مختلف حقیقت کی طرف جاتا ہے،وہ جسے آپ separate reality کہتے ہیں۔ایک reality تو وہ ہے جو آپ زندگی میں ہر روز ملاحظہ کرتے ہیں۔لیکن ایک حقیقت وہ ہے جس کو ایک صاحبِ نظر یا صاحبِ بصیرت آدمی اس کی تہہ تک پہنچ کر تلاش کرتا ہے۔ادیب بھی اس رمز کو تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے جو بیّن حقیقت میں موجود نہیں ہوتی۔
اشفاق احمد
 
کوئی محرم نہیں ملتا جہاں میں مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زبان میں لوگوں کو یہ شکایت عام ہے کہ میرے دل کو کوئی نہیں سمجھتا۔تو یہ فرمایئے کہ یہ بات کس حد تک درست ہے؟کیا واقعی آدمی دوسرے آدمی کو نہیں سمجھتا؟کیا واقعی ناسمجھے جانے والے انسان کے پاس اتنا کچھ ہوتا ہے کہ جس سے دوسرا آدمی فائدہ نہیں اٹھا رہا ہوتا؟کیا واقعی نا سمجھے جانے والے انسان کا وجو اتنا قیمتی ہوتا ہے کہ وہ ہر جگہ ،ہر مقام پر روتا پھرتا ہے۔؟​
میرے ایک استاد تھے جب میں روم میں تھا۔ان کا نام اونگا ریتی۔۔پروفیسر اونگاریتی تھا۔تو ہم نے ان سے پوچھا کہ یہ جو آدمی کہتا ہےکہ زندگی میں مجھے کوئی سمجھا نہیں،اس کی حقیقت کیا ہے تو وہ کہنے لگے کہ اس شخص کو خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرنا چاہیئے،کیونکہ اس کی کمینگیاں،اور حماقتیں،اور نالائقیاں لوگوں کے سامنے نہیں آئی ہیں۔اسے اللہ کا شکر ادا کر کے سونا چاہیئے،اور یہ شکوہ بھی نہیں کرنا چاہیئے کہ لوگ مجھے سمجھتے نہیں۔​
اشفاق احمد۔​
 

نایاب

لائبریرین
کوئی محرم نہیں ملتا جہاں میں مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زبان میں لوگوں کو یہ شکایت عام ہے کہ میرے دل کو کوئی نہیں سمجھتا۔تو یہ فرمایئے کہ یہ بات کس حد تک درست ہے؟کیا واقعی آدمی دوسرے آدمی کو نہیں سمجھتا؟کیا واقعی ناسمجھے جانے والے انسان کے پاس اتنا کچھ ہوتا ہے کہ جس سے دوسرا آدمی فائدہ نہیں اٹھا رہا ہوتا؟کیا واقعی نا سمجھے جانے والے انسان کا وجو اتنا قیمتی ہوتا ہے کہ وہ ہر جگہ ،ہر مقام پر روتا پھرتا ہے۔؟​
میرے ایک استاد تھے جب میں روم میں تھا۔ان کا نام اونگا ریتی۔۔پروفیسر اونگاریتی تھا۔تو ہم نے ان سے پوچھا کہ یہ جو آدمی کہتا ہےکہ زندگی میں مجھے کوئی سمجھا نہیں،اس کی حقیقت کیا ہے تو وہ کہنے لگے کہ اس شخص کو خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرنا چاہیئے،کیونکہ اس کی کمینگیاں،اور حماقتیں،اور نالائقیاں لوگوں کے سامنے نہیں آئی ہیں۔اسے اللہ کا شکر ادا کر کے سونا چاہیئے،اور یہ شکوہ بھی نہیں کرنا چاہیئے کہ لوگ مجھے سمجھتے نہیں۔
اشفاق احمد۔​
سولہ آنے سچی بات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت خوب شراکت محترم بہنا
سدا خوش و شادوآباد رہیں آمین
 
Top