اقتباسات اشفاق احمد کی کتاب " زاویہ ۲ " سے اقتباس

قیصرانی

لائبریرین
سر !یہ فقرہ آخر سے دوسری سطر میں موجود ہے ۔

جی وہ سوال ہی موجود نہیں ہے۔ میرا مقصد یہ تھا کہ اشفاق احمد نے مسلمانوں کی موجودہ تعداد کے بارے بات کی تھی جب اتنے لوگوں سے فرق نہیں پڑ رہا تو چند سو گورے مسلمان ہوئے تو کیا فرق پڑ جائے گا
 
جی وہ سوال ہی موجود نہیں ہے۔ میرا مقصد یہ تھا کہ اشفاق احمد نے مسلمانوں کی موجودہ تعداد کے بارے بات کی تھی جب اتنے لوگوں سے فرق نہیں پڑ رہا تو چند سو گورے مسلمان ہوئے تو کیا فرق پڑ جائے گا

معاملہ نہ تعداد کا ہے نہ فرق پڑنے کا ہے
نہ ہی یہ مطلوب ہے کہ مسلمان پوری دنیا میں حکمران ہوں
یہاں تو کھیل ہی کچھ اور ہورہا ہے
 

سید زبیر

محفلین
جی وہ سوال ہی موجود نہیں ہے۔ میرا مقصد یہ تھا کہ اشفاق احمد نے مسلمانوں کی موجودہ تعداد کے بارے بات کی تھی جب اتنے لوگوں سے فرق نہیں پڑ رہا تو چند سو گورے مسلمان ہوئے تو کیا فرق پڑ جائے گا

کاش غزوہ بدر جیسی صفات کے حامل اگر تین سو تیرہ بھی اس وقت ہوتے تو شاید حالات کفی مختلف ہوتے۔ بہر حال اپنی اپنی رائے ہے ۔
 

عمراعظم

محفلین
خوبصورت تحریروں سے خوبصورت اقتسابات ۔ پڑھ کر بہت اچھا لگا محترم سید زبیر بھائی۔
میری ناقص رائے میں ڈیپریشن کوئی بیماری نہیں ہے بلکہ خود ہماری یا ہمارے معا شرے کی کج روی کا شاخسانہ ہے۔حکیم الاُمت علامہ اقبال جیسی شخصیات اب ہم میں نہ رہیں جو ہماری نبض پر دسترس رکھتی تھیں اور ہمارے امراض کا شافی علاج تشخیص کیا کرتی تھیں۔ میرے خیال سے ڈیپریشن کی جڑیں ہمارے عمومی روّیوں سے پھوٹ رہی ہیں۔ جن میں خود غرضی، جھوٹ ،فریب،دھوکہ دہی ، غربت وافلاس، متشددانہ رویے، جہالت،نفرت و تفریق اور تحقیق و اصلاح سے بے رخی جیسے عوامل اپنا مجرمانہ کردار ادا کر رہے ہیں۔ اللہ ہم پر اپنا فضل فرمائے۔آمین
 

سیما علی

لائبریرین
ہم نے کئی بیماریوں پر قابو پا لیا ہے ۔ یا کم ازکم انہیں محدود کر کے مقید کردیا ہے ۔ لیکن اس صدی کی سب سے خطرناک بیماری وہ ہے کہ جب انسان اس میں مبتلا ہو جاتا ہے تو خود کشی پر مائل ہو جاتا ہے ۔ اپنے آپ کو تباہ کرنے کی تدبیریں کرنے لگتا ہے ۔ اس بیماری کو کیا نام دوں ۔ کہ اس کو کوئی نام دیا جانا بہت ہی مشکل ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب انسان کے دل کے اندر محبت کی باؤلی سوکھنے لگتی ہے تو یہ بیماری پیدا ہوتی ہے۔
اس دنیا میں سب سے بڑا افلاس محبت کی کمی ہے ۔ جس شخص میں محبت کرنے کی صلاحیت ہی پیدا نہیں ہوئی وہ اپنے پرائیویٹ دوزخ میں ہر وقت جلتا رہتا ہے ۔ جو محبت کر سکتا ہے وہ جنت کے مزے لوٹتا ہے ۔ لیکن محبت کا دروازہ ان لوگوں پر کھلتا ہے جو اپنی انا اور اپنے نفس سے منہ موڑ لیتے ہیں ۔ اپنی انا کو کسی کے سامنے پامال کر دینا مجازی عشق ہے ۔ اپنی انا کو بہت سوں کے آگے پامال کر دینا عشقِ حقیقی ہے
(زاویہ 3 سے اقتباس)
 

سیما علی

لائبریرین
مجھے وہ بات یاد آرہی ہے جو شاید میں نے ٹی وی پر ہی سنی ہے کہ ایک اخبار کے مالک نے اپنے اخبار کی اس کاپی کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے جس میں دنیا کا نقشہ تھا اور اس نقشے کو 32 ٹکڑوں میں تقسیم کردیا اور اپنے پانچ سال کے کمسن بیٹے کو آواز دے کر بلایا اور اس سے کہا کہ لو بھئی یہ دنیا کا نقشہ ہے جو ٹکڑوں میں ہے، اس کو جوڑ کر دکھاؤ۔



اب وہ بیچارہ تمام ٹکڑے لے کر پریشان ہوکے بیٹھ گیا کیونکہ اب سارے ملکوں کے بارے میں کہ کون کہاں پر ہے، میرے جیسا بڑی عمر کا آدمی بھی نہیں جانتا ہے۔
وہ کافی دیر تک پریشان بیٹھا رہا لیکن کچھ دیر بعد اس نے تمام کا تمام نقشہ درست انداز میں جوڑ کر اپنے باپ کو دے دیا۔ اس کا باپ بڑ ا حیران ہوا اور کہا کہ بیٹا مجھے اس کا راز بتا کیونکہ اگر مجھے اس نقشے کو جوڑنا پڑتا تو میں نہیں جوڑ سکتا تھا۔

اس پر اس لڑکے نے کہا کہ بابا جان میں نے دنیا کا نقشہ نہیں جوڑا بلکہ نقشے کے دوسری طرف سیفٹی بلیڈ کا ایک اشتہار تھا اور اس میں ایک شخص کا بڑا سا چہرہ تھا جو شیو کرتا دکھایا گیا تھا۔

میں نے سارے ٹکڑوں کو الٹا کیا اور اس آدمی کو جوڑنا شروع کیا اور چار منٹ کی مدت میں میں نے پورا آدمی جوڑ دیا۔ اس لڑکے نے کہا کہ بابا اگر آدمی جڑ جائے تو ساری دنیا جڑ جائے گی۔

(’’زاویہ 2‘‘ از اشفاق احمد سے اقتباس)
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
محبت دوڑ نہیں ہوتی، طوفان نہیں ہوتی، سکون ہوتی ہے۔ دریا نہیں ہوتی، جھیل ہوتی ہے۔ دوپہر نہیں ہوتی، بھور سمے ہوتی ہے۔ آگ نہیں ہوتی، اجلا ہوتی ہے۔ اب میں تجھے کیا بتاؤں کہ کیا ہوتی ہے۔ وہ بتانے کی چیز نہیں، بیتنے کی چیز ہے۔ سمجھنے کی چیز نہیں، جاننے کی چیز ہے۔
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
جشن کا سماں نہیں ہوگا، جیسے وہ بابا کہتا ہے "تیرے عشق نچایا کر کے تھیا تھیا" چاہے سچ مچ نہ ناچیں لیکن اندر سے اس کا وجود اور روح "تھیا تھیا" کر رہی ہے، لیکن جب تک Celebration نہیں کرے گا، بات نہیں بنے گی۔ اس طرح سے نہیں کہ نماز کو لپیٹ کر "چار سنتاں، فیر چار فرض فیر دو سنتاں فیر دو نفل،تِن وِتر" سلام پھیرا، چلو جی رات گزری فکر اُترا۔ نہیں جی! یہ تو عبادت نہیں۔ ہم تو ایسی ہی عبادت کرتے رہے ہیں، اس لیے تال میل نہیں ہوتا۔ جشن ضرور منانا چاہئے عبادت کا، دل لگی، محبّت اور عقیدت کے ساتھ عبادت۔ ہمارے یہاں جہاں میں رہتا ہوں، وہاں دو بڑی ہاکی اور کرکٹ گراونڈز ہیں، وہاں سنڈے کے سنڈے بہت سویرے، جب ہم سیر سے لوٹ رہے ہوتے ہیں، منہ اندھیرے گڈی اُڑانے والے آتے ہیں۔ وہ اس کا بڑا اہتمام کئے ہوئے ہوتے ہیں، ان کے بڑے بڑے تھیلے ہوتے ہیں اور بہت کاریں ہوتی ہیں، جن میں وہ اپنے بڑے تھیلے رکھ کر پتنگ اُڑانے کے لئے کھلے میدان میں آتے ہیں۔ اب وہ خالی پتنگ نہیں اُڑاتے، بلکہ اہتمام کے ساتھ اس کا جشن بھی مناتے ہیں۔ جب تک اس کے ساتھ جشن نہ ہو، وہ پتنگ نہیں اڑتی اور نہ ہی پتنگ اُڑانے والا سماں بندھتا ہے، کھانے پینے کی بے شمار چیزیں باجا بجانے کے "بھومپو" اور بہت کچھ لے کر آتے ہیں، وہاں جشن زیادہ ہوتا ہے، کائٹ فلائنگ کم ہوتا ہے۔ جس طرح ہمارے ہاں عبادت زیادہ ہوتی ہے، Celebration، اللہ کو ماننا کم ہوتا ہے۔

اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ اللہ حافظ!!
بابا اشفاق احمد
 
Top