اس کے لہجے سے ہی ظاہر تھی عداوت اس کی

سر الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:
محمد خلیل الرحمٰن اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے
میں یونہی دل میں بنا بیٹھا تھا مورت اس کی
اس کا محبوب نہ تھا میں تھاضرورت اس کی

نام اس کا میں زباں پر نہیں لاؤں گا کبھی
ہاں ملے یا نہ ملے مجھ کو محبت اس کی

کرچیاں مجھ سے مرے دل کی سمیٹی نہ گئیں
اس نے جو ضرب لگائی وہ عنایت اس کی

سونپنے اس کو محبت میں گیا تھا لیکن
اس کے لہجے سے ہی ظاہر تھی عداوت اس کی

کیوں ستاروں کی تمنا میں گنوا یا خود کو
میں زمیں تک ہی رہوں جب تھی نصیحت اس کی


جو مجھے چھوڑ کے رخصت ہوا برسوں پہلے
ہے تخیل پہ مرے اب بھی حکومت اس کی

عشق میں جس کے ہے سجاد مٹایا خود کو
مجھ کو پل بھر نہ ملی پھر بھی رفاقت اس کی
 
نام اس کا میں زباں پر نہیں لاؤں گا کبھی
ہاں ملے یا نہ ملے مجھ کو محبت اس کی
سجاد بھائی، ایک لطیف نکتہ جو مجھے ظہیر بھائی کے طفیل معلوم ہوا، یاد رکھیے گا۔ شعر میں اگر کلمہ نفی کے لیے ’’نہ‘‘ درست وزن پر آ سکتا ہو، تو نہیں کے بجائے نہ ہی باندھنا چاہیے، یہ محاسنِ کے زیادہ قرین ہے۔
مثلاً
نام اس کا نہ زباں پر میں کبھی لاؤں گا ۔۔۔ یا کچھ اور
دوسرے مصرعے میں ’’ہاں‘‘ بھرتی کا لفظ ہے، ایسے حشو و زوائد سے شعر کا حسن جاتا رہتا ہے۔ میرے خیال میں ہاں کے بجائے اب کہیں تو کچھ معنویت بڑھ جاتی ہے۔

کرچیاں مجھ سے مرے دل کی سمیٹی نہ گئیں
اس نے جو ضرب لگائی وہ عنایت اس کی
گنجلک سا بیان ہے ۔۔۔ ایسا لگتا ہے دونوں مصرعوں کے درمیان کچھ الفاظ چھوٹ گئے ہوں جس سے ربط کی کمی پیدا ہوگئی ہے۔ کچھ اس طرح کا بیان ہو کہ اس کی ضرب سے دل ایسا ٹوٹا کہ آج بھی کرچیاں سمیٹ رہا ہوں، گویا اس کی عنایت کا فیض آج بھی جاری ہے۔ لمبا مضمون ہے، کوشش کرکے دیکھیے، شاید دو مصرعوں میں عجز بیان کے بغیر سما جائے۔

عشق میں جس کے ہے سجاد مٹایا خود کو
مجھ کو پل بھر نہ ملی پھر بھی رفاقت اس کی
ایک تو یہ کہ میرے خیال میں پہلے مصرعے میں بھی ماضی کا صیغہ ہونا چاہیے۔ دوسرے یہ کہ دونوں مصرعوں کی بنت مزید چست ہو سکتی ہے۔ مثلاً
عشق میں جس کے فنا خود کو کیا تھا سجادؔ
لمحہ بھر مل نہ سکی ہم کو رفاقت اس کی
 
سجاد بھائی، ایک لطیف نکتہ جو مجھے ظہیر بھائی کے طفیل معلوم ہوا، یاد رکھیے گا۔ شعر میں اگر کلمہ نفی کے لیے ’’نہ‘‘ درست وزن پر آ سکتا ہو، تو نہیں کے بجائے نہ ہی باندھنا چاہیے، یہ محاسنِ کے زیادہ قرین ہے۔
مثلاً
نام اس کا نہ زباں پر میں کبھی لاؤں گا ۔۔۔ یا کچھ اور
دوسرے مصرعے میں ’’ہاں‘‘ بھرتی کا لفظ ہے، ایسے حشو و زوائد سے شعر کا حسن جاتا رہتا ہے۔ میرے خیال میں ہاں کے بجائے اب کہیں تو کچھ معنویت بڑھ جاتی ہے۔


گنجلک سا بیان ہے ۔۔۔ ایسا لگتا ہے دونوں مصرعوں کے درمیان کچھ الفاظ چھوٹ گئے ہوں جس سے ربط کی کمی پیدا ہوگئی ہے۔ کچھ اس طرح کا بیان ہو کہ اس کی ضرب سے دل ایسا ٹوٹا کہ آج بھی کرچیاں سمیٹ رہا ہوں، گویا اس کی عنایت کا فیض آج بھی جاری ہے۔ لمبا مضمون ہے، کوشش کرکے دیکھیے، شاید دو مصرعوں میں عجز بیان کے بغیر سما جائے۔


ایک تو یہ کہ میرے خیال میں پہلے مصرعے میں بھی ماضی کا صیغہ ہونا چاہیے۔ دوسرے یہ کہ دونوں مصرعوں کی بنت مزید چست ہو سکتی ہے۔ مثلاً
عشق میں جس کے فنا خود کو کیا تھا سجادؔ
لمحہ بھر مل نہ سکی ہم کو رفاقت اس کی
شکریہ راحل بھائی کوشش کرتا ہوں
 
سجاد بھائی، ایک لطیف نکتہ جو مجھے ظہیر بھائی کے طفیل معلوم ہوا، یاد رکھیے گا۔ شعر میں اگر کلمہ نفی کے لیے ’’نہ‘‘ درست وزن پر آ سکتا ہو، تو نہیں کے بجائے نہ ہی باندھنا چاہیے، یہ محاسنِ کے زیادہ قرین ہے۔
مثلاً
نام اس کا نہ زباں پر میں کبھی لاؤں گا ۔۔۔ یا کچھ اور
دوسرے مصرعے میں ’’ہاں‘‘ بھرتی کا لفظ ہے، ایسے حشو و زوائد سے شعر کا حسن جاتا رہتا ہے۔ میرے خیال میں ہاں کے بجائے اب کہیں تو کچھ معنویت بڑھ جاتی ہے۔


گنجلک سا بیان ہے ۔۔۔ ایسا لگتا ہے دونوں مصرعوں کے درمیان کچھ الفاظ چھوٹ گئے ہوں جس سے ربط کی کمی پیدا ہوگئی ہے۔ کچھ اس طرح کا بیان ہو کہ اس کی ضرب سے دل ایسا ٹوٹا کہ آج بھی کرچیاں سمیٹ رہا ہوں، گویا اس کی عنایت کا فیض آج بھی جاری ہے۔ لمبا مضمون ہے، کوشش کرکے دیکھیے، شاید دو مصرعوں میں عجز بیان کے بغیر سما جائے۔


ایک تو یہ کہ میرے خیال میں پہلے مصرعے میں بھی ماضی کا صیغہ ہونا چاہیے۔ دوسرے یہ کہ دونوں مصرعوں کی بنت مزید چست ہو سکتی ہے۔ مثلاً
عشق میں جس کے فنا خود کو کیا تھا سجادؔ
لمحہ بھر مل نہ سکی ہم کو رفاقت اس کی

کرچیاں جس کی ابھی تک میں چنے جاتا ہوں
ضرب آئی تھی اسی دل پہ بدولت اس کی

میں نے سجاد کِیا خود کو فنا جس کے لئے
ایک پل بھی نہ ملی مجھ کو رفاقت اس کی

سر نظر ثانی فرما دیجئے
 
Top