اس کھیت میں کرسیاں اور میزیں ’’اُگائی‘‘ جاتی ہیں!

جاسم محمد

محفلین
اس کھیت میں کرسیاں اور میزیں ’’اُگائی‘‘ جاتی ہیں!
ویب ڈیسک بدھ 2 اکتوبر 2019
1826840-furniturefarmingx-1569912055-671-640x480.jpg

کھیت میں اگایا جانے والا یہ فرنیچر اگرچہ بہت مہنگا ہے لیکن ماحول دوست شائقین اسے بخوشی خرید رہے ہیں۔ (تصاویر بحوالہ: فُل گرون)

لندن: یہ ڈربی شائر، وسطی برطانیہ میں صرف دو ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا کھیت ہے جہاں اس وقت 250 کرسیاں، 100 لیمپ اور 50 میزیں ’’اُگائی‘‘ جارہی ہیں۔ جی ہاں! آپ نے صحیح پڑھا… اس کھیت میں کرسیاں، لیمپ اور میزیں اُگائی جارہی ہیں!

البتہ یہ ’’قدرتی فرنیچر‘‘ بہت مہنگا ہے جس میں صرف ایک کرسی کی قیمت 12 ہزار ڈالر (تقریباً 19 لاکھ پاکستانی روپے) جبکہ چھوٹے سے لیمپ کی قیمت بھی 1120 ڈالر (تقریباً 1 لاکھ 75 ہزار روپے) رکھی گئی ہے۔ اتنا مہنگا ہونے کے باوجود ماحول دوست صارفین اسے آن لائن خرید رہے ہیں۔

furniture-farming-01-1569912508.jpg


فرنیچر کا یہ کھیت 2012 میں ایک برطانوی جوڑے گیون منرو اور ایلس منرو نے شروع کیا تھا جس کا مقصد فرنیچر کی تیاری میں درخت کاٹنے کے عمل سے بچنا تھا۔

اس اچھوتے کھیت کا خیال گیون منرو کو برسوں پہلے آیا۔ ہوا یوں کہ بچپن میں ان کی ریڑھ کی ہڈی میں خم تھا جسے دور کرنے کےلیے انہیں مسلسل کئی سال تک دھاتی سہارے پہننے پڑے جو ان کی کمر کو سیدھا رکھتے۔

بڑے ہونے کے بعد انہیں خیال آیا کہ کیوں نہ اسی طرح پودوں کو اگاتے وقت ان کے ساتھ بھی کچھ سانچے لگا دیئے جائیں جو بڑھتے اور پھیلتے پودوں کو ایک خاص شکل میں لے آئیں۔ اگرچہ اس میں وقت تو لگے گا لیکن چند ماہ یا چند سال میں بڑے اور مضبوط ہو جانے پر وہ پودے بھی مطلوبہ ساخت اختیار کرچکے ہوں گے۔

furniture-farming-03-1569912513.jpg


جب انہوں نے چند سال تک اپنے اس خیال کو آزمایا تو کامیابی حاصل ہوئی۔ اس طرح کھیت میں اگائے جانے والے فرنیچر کو صرف آخری مرحلے میں تھوڑی بہت تراش خراش کی ضرورت پڑی اور وہ استعمال کےلیے تیار ہوگیا۔

شادی کے بعد ایلس بھی ان کے کام میں شریک ہوگئیں اور دونوں نے مل کر ’’فل گرون‘‘ (Full Grown) کے نام سے ایک کمپنی شروع کردی جو ہر گزرنے والے سال کے ساتھ مقبول ہوتی جارہی ہے۔

furniture-farming-02-1569912511.jpg


اپنی حالیہ کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے انہیں امید ہے کہ 2022 تک ان کے پاس فرنیچر کاشت کرنے کےلیے زیادہ بڑا کھیت ہوگا جہاں وہ سالانہ بنیادوں پر میزیں اور کرسیاں اُگایا کریں گے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ان مصنوعات کو بلکہ حقیقتا مزروعات (اگی ہوئی اشیاء) کو فرنیچر کہنا تو درست نہیں کیوں کہ یہ فرنیچر کے طور پر استعمال نہیں ہوں گی یہ محض دلچسپ شو پیس ہوں گے ۔
جو لوگ انہیں خرید رہے ہیں وہ بھی ان پر بیٹھیں گے نہیں شوقیہ رکھیں گے اور نہ ہی یہ مزروعات ان کے لیے یہ مہنگی ہوں گی ۔
یہ البتہ "ہمارے" لیے ہی مہنگی ہیں ۔
یہ میرا خیال ہے حقیقت نہیں لہذا اگر کوئی خرید کر ڈائننگ ٹیبل بنانا چاہے تو بنا لے ۔ اور ہاں ! کھانا کھاتے ہوئے اگر زمین پر آرہے ، تو خود ذمہ دار ہو گا۔
 
Top