اس کا وزن بتا دیں پلیز مہربانی ہوگی اور تقطیع بھی

زویا شیخ

محفلین
سائٹ پر املا درست ڈالیں تب ہی درست جواب آئے گا:

رب کے سوا کوئی بھی معبود حق نہیں
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن سائٹ سے یہی دیرہا . . جبکہ اقربا کا کہنا ہے کہ یہ رونگ ہے . رب کے سواےء کوئ بھی معبود حق نہیں یہ صحیح بتا رہے ہیں تقطیع کے حساب سے کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ سائٹ غلط کیوں دکھارہی
 

سید ذیشان

محفلین
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن سائٹ سے یہی دیرہا . . جبکہ اقربا کا کہنا ہے کہ یہ رونگ ہے . رب کے سواےء کوئ بھی معبود حق نہیں یہ صحیح بتا رہے ہیں تقطیع کے حساب سے کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ سائٹ غلط کیوں دکھارہی

کوئ لکھنا غلط ہے۔ 'ئ' کا کیریکٹر 'ی', ے'، وغیرہ، کے اوپر ہمزہ لگانے کے لئے ہوتا ہے۔ یہ کیریکٹر 'ئی' کا متبادل ہرگز نہیں ہے۔ کوئی کو اسطرح لکھیں: ک و ئ ی (k + w +u +i). اس صورت میں سائٹ پر درست جواب آئے گا۔
 

زویا شیخ

محفلین
کوئ لکھنا غلط ہے۔ 'ئ' کا کیریکٹر 'ی', ے'، وغیرہ، کے اوپر ہمزہ لگانے کے لئے ہوتا ہے۔ یہ کیریکٹر 'ئی' کا متبادل ہرگز نہیں ہے۔ کوئی کو اسطرح لکھیں: ک و ئ ی (k + w +u +i). اس صورت میں سائٹ پر درست جواب آئے گا۔
بہت شکریہ جناب کوئی کا وزن 21ہے یا 121یہ بتا دیں پلیز
 

محمد وارث

لائبریرین
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن سائٹ سے یہی دیرہا . . جبکہ اقربا کا کہنا ہے کہ یہ رونگ ہے . رب کے سواےء کوئ بھی معبود حق نہیں یہ صحیح بتا رہے ہیں تقطیع کے حساب سے کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ سائٹ غلط کیوں دکھارہی
جو بحر معروف ہے اور جس میں عام طور پر غزلیں کہی جاتی ہیں اس کاوزن ہے:
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن

آپ نے جو مصرع لکھا
رب کے سوا کوئی بھی معبودِ حق نہیں

اس کی بحر اور تقطیع یوں بنتی ہے

رب کے س - مفعول
وا کُ ئی بی - فاعلاتن
معبود -مفعول
حق نہی - فاعلن
مفعول فاعلاتن مفعول فاعلن

اسی لیے کچھ نے کہا ہوگا کہ "سوا" کو سوائے کرنے سے یہ مسئلہ حل ہو جاتا ہے اور معروف بحر کے وزن میں آ جاتا ہے یعنی مثال کے طور پر

رب کے سوائے کوئی بھی معبودِ حق نہیں

رب کے س - مفعول
وا ءکو ء ۔ فاعلات
بِ معبود - مفاعیل
حق نہی - فاعلن

لیکن آخری بات جس کی طرف دھیان دینا ضروری ہے کہ ایک شعر میں اوپر گزرے دونوں اوزان کا خلط جائز ہے یعنی

مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن
اور
مفعول فاعلاتن مفعول فاعلن

کو ایک شعر یا غزل میں جمع کرنا جائز ہے۔ یہ دونوں دراصل ایک ہی وزن ہے اور پہلے وزن میں تسکینِ اوسط سے دوسرا وزن حاصل ہوتا ہے یعنی

مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن

اس میں فاعلات کی ت اور مفاعیل کی میم آپس میں ضم ہو جائیں تو فاعلات فاعلاتن بن جاتا ہے اور مفاعیل کا جو فاعیل بچ گیا وہ مفعول بن گیا

مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن
یعنی "مفعول فاعلاتم فاعیل فاعلن"
یعنی مفعول فاعلاتن مفعول فاعلن

یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ مصرع
رب کے سوا کوئی بھی معبود حق نہیں
بھی درست وزن میں ہے اور اصل بحر 'مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن' کے ساتھ اس کا خلط اور اجتماع جائز ہے، چاہے اس مصرعے کا وزن اس بحر سے تھوڑا مختلف ہے لیکن پھر بھی درست ہے۔
 

زویا شیخ

محفلین
جو بحر معروف ہے اور جس میں عام طور پر غزلیں کہی جاتی ہیں اس کاوزن ہے:
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن

آپ نے جو مصرع لکھا
رب کے سوا کوئی بھی معبودِ حق نہیں

اس کی بحر اور تقطیع یوں بنتی ہے

رب کے س - مفعول
وا کُ ئی بی - فاعلاتن
معبود -مفعول
حق نہی - فاعلن
مفعول فاعلاتن مفعول فاعلن

اسی لیے کچھ نے کہا ہوگا کہ "سوا" کو سوائے کرنے سے یہ مسئلہ حل ہو جاتا ہے اور معروف بحر کے وزن میں آ جاتا ہے یعنی مثال کے طور پر

رب کے سوائے کوئی بھی معبودِ حق نہیں

رب کے س - مفعول
وا ءکو ء ۔ فاعلات
بِ معبود - مفاعیل
حق نہی - فاعلن

لیکن آخری بات جس کی طرف دھیان دینا ضروری ہے کہ ایک شعر میں اوپر گزرے دونوں اوزان کا خلط جائز ہے یعنی

مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن
اور
مفعول فاعلاتن مفعول فاعلن

کو ایک شعر یا غزل میں جمع کرنا جائز ہے۔ یہ دونوں دراصل ایک ہی وزن ہے اور پہلے وزن میں تسکینِ اوسط سے دوسرا وزن حاصل ہوتا ہے یعنی

مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن

اس میں فاعلات کی ت اور مفاعیل کی میم آپس میں ضم ہو جائیں تو فاعلات فاعلاتن بن جاتا ہے اور مفاعیل کا جو فاعیل بچ گیا وہ مفعول بن گیا

مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن
یعنی "مفعول فاعلاتم فاعیل فاعلن"
یعنی مفعول فاعلاتن مفعول فاعلن

یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ مصرع
رب کے سوا کوئی بھی معبود حق نہیں
بھی درست وزن میں ہے اور اصل بحر 'مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن' کے ساتھ اس کا خلط اور اجتماع جائز ہے، چاہے اس مصرعے کا وزن اس بحر سے تھوڑا مختلف ہے لیکن پھر بھی درست ہے۔
بہت بہت شکریہ سر آپ نے اپنا قیمتی وقت دیکر ہمیں تفصیل سے سمجھایا ہمیشہ ہنستے مسکراتے رہیں
 
Top