اس پر احتجاج کیوں نہیں؟

الف نظامی

لائبریرین
کیا ہم ایسی قوم و ملک سے تعلق رکھتے ہیں جس کو جو آئے استمعال کرتا رہے؟
نیگرو پونٹے ، بش وغیرہ کے بیانات پر قوم کیوں نہیں بولتی؟ ان لوگوں کو ہماری تقدیر لکھنے کا حق کس نے دیا ہے؟ کیا یہ ڈکٹیشن نہیں ہے؟ ہمارے معاملات میں مداخلت نہیں ہے؟
ہمارے سیاست دان عوام کے بجائے امریکہ کی طرف کیوں دیکھتے ہیں؟
ذرا سوچیے!
 

الف نظامی

لائبریرین
امریکی وزیر اور وہ بھی نائب وزیر کا پاکستان میں آ کر ڈکٹیٹ کرنا بدترین توہین کے مترادف ہے؛ سیکرٹری جنرل پاکستان تحریک انصاف ائیر مارشل (ر) شاھد ذوالفقار بحوالہ
 

اظہرالحق

محفلین
دیکھیں جی ہم اپنے چھوٹے آقا (جنرل مُشرَک) اور بڑے آقا ( مسٹر بُش) کے خلاف کوئی بات نہیں کرنا چاہتے ۔ ۔ ۔ یہ بڑے لوگوں کی باتیں ہیں ۔ ۔ ۔ ہم تو غلام ہیں چاہے ۔ ۔ بڑے آقا کے ہوں یا چھوٹے آقا کے ۔۔ ۔

لگتا ہے آپکو یہ کہنا پڑے گا کہ "تو کہ ناواقف آداب غلامی ہے ابھی " وللہ
 
سچی بات یہ ہے کہ پہلے جو کام ڈھکے چھپے ہوتا تھا اب وہ کھلے عام ہونے لگا ہے اور نیگرو پونٹے مسلسل چکر لگا کر پاکستان کو ہدایات دے کر جاتا ہے اور مشرف جیسے بے شرم اور بے غیرت حکمران چوں چرا نہیں کرتے اور عوام کو دھوکہ دینے کے لیے کہتے ہیں کہ ہم خود اپنے فیصلے کرتے ہیں۔

شرم آنی چاہیے پورے حکومتی ٹولے کو مگر شرم تو انہوں نے اتار کر پھینک دی ہے آئے کہاں سے۔ انتہائی بے شرموں کا گروہ ہے یہ اور اپنی ان سفلی حرکات پر انہیں فخر بھی ہے۔
 
باہر والے اگر بولتے ہیں تو اس میں عوام کا کوئی دوش نہیں۔ اگر ہمارے سیاستدان مخلص ہوتے اور ایمان کی طاقت ان کے پاس ہوتی تو کوئی باہر کا بندہ ہمارے داخلی معاملات میں مداخلت کی جرات نہ کر سکتا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
سب سے پہلے عوام کو بولنا سیکھنا ہوگا۔ اپنے سیاستدانوں کا محاسبہ کرنا ہوگا۔ تب بات بنے گی، ورنہ یہی حالات رہیں گے مزید 60 سال بھی۔
 

الف نظامی

لائبریرین
سیاست دانوں کے اس مرض کا ،کہ وہ ہر مسئلہ میں عوام کے بجائے امریکہ کی طرف دیکھتے ہیں ، کا کوئی علاج ہے؟
 

عمر میرزا

محفلین
سیاست دانوں کے اس مرض کا ،کہ وہ ہر مسئلہ میں عوام کے بجائے امریکہ کی طرف دیکھتے ہیں ، کا کوئی علاج ہے؟
عوام کی ہر کامیابی کی راہ میں رکاوٹ بھی یہی سیاستدان ہیں اور ہر نئی ناکامی میں رہبرومعاون بھی یہی سیاستدان ہیں - اس درمیان کی چیز کو نکالے بغیر کوئی چارہ نہیں۔
 

عمر میرزا

محفلین
دیکھیں جی ہم اپنے چھوٹے آقا (جنرل مُشرَک) اور بڑے آقا ( مسٹر بُش) کے خلاف کوئی بات نہیں کرنا چاہتے ۔ ۔ ۔ یہ بڑے لوگوں کی باتیں ہیں ۔ ۔ ۔ ہم تو غلام ہیں چاہے ۔ ۔ بڑے آقا کے ہوں یا چھوٹے آقا کے ۔۔ ۔
نہ بھائی ہم غلام نہیں اور نہ ہی ہم نے اپنے آپ کو غلام سمجھنا ہے ہم نے تواس سرزمین پر آزاد جنم لیا ہے ۔غلام تو یہ سیاستدان ہیں جہنوں نے شاید کچھ رنگین کاغذوں ،شہرت اور مغربی آقاؤں کے قرب و رضا کی خاطر اپنے ضمیر کو مار کر ان کی غلامی قبول کی ہوئی ہے۔











۔
 
Top