افتخار مغل اس جسم کی آشُفتہ بیانی سے گزر کر - افتخار مغل

اس جسم کی آشُفتہ بیانی سے گزر کر
تھک جاتا ہے انسان جوانی سے گزر کر

بے رنگ نظر آتا ہے جس کو مرا کردار
دیکھے تو ذرا میری کہانی سے گزر کر

ہم تم بھی تو اے دوست! بہت ٹوٹ گئے ہیں
ٹوٹی ہوئی ترتیبِ زمانی سے گزر کر

لیکن، کوئی پہنچا ہی نہیں دل کے متن تک
اجسام کے الفاظ و معانی سے گزر کر

بھیگی ہوئی لگتی ہے ہر اک چیز کی تصویر
اس آنکھ میں ٹھہرے ہوئے پانی سے گزر کر​
افتخار مغل
 
Top