اسے کون بھول پائے گا۔ عرفان صدیقی

محسن حجازی

محفلین
اسے کون بھول پائے گا
نقش خیال
عرفان صدیقی​

منگل کی صبح ‘ نماز فجر کے کچھ ہی دیر بعد میرے موبائل فون پر ایک تین سطری‘ پیغام آیا:
”عید مبارک ہو۔
دعاؤں میں یاد رکھنا
الله سب کو خوشیاں عطا کرے“۔
عید کے موقع پر اس طرح کے پیغامات معمول کی بات ہے لیکن ان تین سطروں کا ایک ایک لفظ میرے ذہن کی لوح سے چپک کررہ گیا۔ میں اپنے بیٹے اور اس کے بچوں کے ساتھ عید منانے دبئی میں تھا۔ حیرت ہوئی کہ پاکستان کی عید سے ایک دن قبل صبح صبح یہ پیغام کیسے آگیا۔ یہاں نماز عید کا وقت صبح ساڑھے چھ بجے تھا۔ مسجد تک کے سفر کے دوران یہ پیغام مسلسل میرے دل پہ دستک دیتا رہا۔ خوبصورت مسجد میں بچھے دبیز قالین پر بیٹھے اور عید کا خطبہ سنتے ہوئے بھی وہ ایک خلش سی بن کر میرے پہلو میں رہا۔ دعا کی مشکبار ساعتوں میں وہ کسی روحانی لہر کی طرح میری اندر ارتعاش سا پیدا کرنے لگا۔ عید کا پورا دن وہ میرے ساتھ ساتھ چلتااور وقفے وقفے سے سرگوشیاں کرتا رہا۔
یہ مختصر سا تین سطری پیغام بھیجنے والے کا نام جسٹس افتخار محمد چوہدری تھا۔ وہ شخص جس نے ایک آمر کو اس کی آمریت کے عین عالم شباب میں للکارا۔ کئی باوردی جرنیلوں کے جھرمٹ میں رعونت کی تصویر بنے بدمست کمانڈو کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا۔ دو ٹوک الفاظ اور سپاٹ لہجے میں اسے بتادیا کہ میں استعفےٰ نہیں دوں گا۔ سنگین نتائج کی دھمکیوں کو پائے حقارت سے ٹھکرا دیا۔ اسے شام تک آرمی ہاؤس میں زیرحراست رکھا گیا کہ شاید اُس کی ”خودسری“ کو ہوش آجائے۔ ڈکٹیٹر کے اہلکاروں نے رات کی تاریکی میں اسے مجرموں کی طرح گاڑی میں ڈالا اور گھر پہنچادیا۔ اب وہ کسی رسمی اعلان ‘ کسی ایف آئی آر، کسی فرد جرم کے بغیر ایک قیدی تھا۔ اُس کے بچے بھی گھر سے باہر قدم نہیں رکھ سکتے تھے۔ اخبارات ‘ ٹیلی ویژن‘ ٹیلی فون‘ سب سلسلے منقطع ہوگئے۔ بیرونی د نیا سے اس کا کوئی رابطہ نہ تھا اور باہر والوں کو اس کے احوال کی کچھ خبر نہ تھی۔
تب قائد اعظم اور علامہ اقبال کے بیٹے شعلہ جوالہ بن کر اٹھے۔ کالے کوٹ والوں نے پاکستان میں مزاحمت کے ایک نئے قرینے کو رواج دیا۔ جسٹس افتخار چوہدری‘ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے تحت بحال ہوئے لیکن آمر کی زخمی انا پیچ وتاب کھاتی رہی۔ جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں پاکستان کی عدلیہ حقیقی معنوں میں آزادانہ اور فعال کردار ادا کرنے لگی۔ لوگوں کو لگا کہ اب کوئی ان کی حقوق کچل نہیں سکے گا۔ کوئی ریاستی جبر ان سے زیادتی نہیں کرسکے گا۔ فوج کی قوت پر برسر اقتدار آنے اور کمزور عدلیہ کے زور پر فرمانروائی کرنے والے ڈکٹیٹر کے لئے یہ اچھی خبر نہ تھی۔ افتخار چوہدری نے اسٹیل مل کی نج کاری میں کرپشن کی نشاندہی کرتے ہوئے سارا منصوبہ غارت کردیا۔ اس نے سینکڑوں لاپتہ افراد کا سراغ لگانے کی ٹھان لی۔ وہ ریاست سے بھی زیادہ طاقتور ایجنسیوں کے فولادی قلعوں پر ضربیں لگانے لگا۔ وہ اسلام آباد کے عالی نسب فارم ہاؤسز کے ذی شان مالکان کو پریشان کرنے لگا۔ اُس نے سپریم کورٹ کے واضح حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نواز شریف کو دوبارہ جلا وطن کرنے والوں کو کٹہرے میں کھڑا کردیا۔ وہ سو موٹو نوٹس کا اختیار بروئے کار لاتے ہوئے غریبوں اور مظلوموں کی داد رسی کرنے لگا۔ وہ لمبے ہاتھوں والے منہ زور مافیاز کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے لگا۔ اور پھر وہ ایک باوردی جرنیل کے صدارتی انتخاب کی راہ میں کانٹے بچھانے لگا۔ کوئی کب تک برداشت کرتا۔ 3 نومبر 2007ء کو چیف آف آرمی اسٹاف پرویز مشرف نے ایک بار پھر آئین توڑا ‘ جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت ساٹھ جج صاحبان کو فارغ کیا‘ مرضی کی عدالت بنائی اور مرضی کا فیصلہ حاصل کرلیا۔
بعد کی کہانی پُرعزم وکلاء ‘ پرجوش سول سوسائٹی اور بیدار میڈیا کی مشترکہ جدوجہد کی ولولہ انگیز داستان ہے۔ کوئی کچھ بھی کہتا رہے‘ حقیقت یہی ہے کہ وکلاء سڑکوں پہ نہ آتے تو مشرف آج بھی پورے طمطراق کے ساتھ منصب صدارت پر جلوہ گر ہوتا۔ جمہوریت کا مہردرخشاں صرف افتخار محمد چوہدری کے حرف انکار اور وکلاء کی للکار کی افق سے طلوع ہوا ہے۔ دکھ کا پہلو یہ ہے کہ 18 فروری کے عوامی منڈیٹ کو رسوا کردیا گیا۔ پیپلزپارٹی کی قیادت‘ مشرف سے بھی بڑھ کر افتخار چوہدری کے لہو کی پیاسی نکلی۔ تحریری معاہدے بھی ایشیائی معشوقاؤں کی کہہ مکرنی بن گئے۔ کہا گیا کہ آئینی ترمیم کے بغیر ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ پھر کمال ہنر مندی سے وکلا میں دراڑ ڈالی گئی۔ کل تک ایک ڈکٹیٹر کی قبائے آمریت پر ہاتھ ڈالنے والے ایک دوسرے کا گریبان نوچنے لگے۔ پھر ججوں کی فصیل میں گہرے شگاف ڈالے گئے۔ افتخار محمد چوہدری کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہونے اور وقت کی لوح پر سنہری نوشتے رقم کرنے والے کئی معزز جج‘ تھک ہا رکر اپنی کرسیوں کی طرف لوٹ گئے۔الله ان کے درجات بلند کو‘ ان کی سنیارٹی سمیت سلامت رکھے۔ وہ بھاری پنشنوں اور وسیع مراعات کے ساتھ ریٹائر ہوں لیکن اہل پاکستان آزردہ ہیں۔ پاکستان کی زخم خوردہ تاریخ میں پہلی بار‘ عوامی قوت کی دلکش رت نے جوانی کے خمار جسیی انگڑائی لی تھی اور خدا کے لہجے میں بولنے والا ڈکٹیٹر ڈھیر ہوگیا تھا۔ لیکن کڑی دھوپ کا کٹھن سفر بڑی جوانمردی سے کاٹنے کے بعد وہ ہمت ہار گئے اور کتنے ہی دلوں کی بستیاں ویران کرگئے۔
افتخار چوہدری اب ایک فرد کا نہیں‘ ایک اصول ‘ ایک نظریے ‘ ایک تصور اور ایک فلسفے کا نام ہے۔ ملامتوں اور ندامتوں کے کالے بازار میں وہ روشنی کی ایک علامت ہے۔ دنیا کے معروف ہارورڈ لا اسکول نے اُسے وہ ”میڈل آف فریڈم “ دینے کا اعلان کیا ہے جو نیلسن منڈیلا کو دیا گیا۔ اسکول کے ڈین پروفیسر ایلین کا کہنا ہے۔ ”ہمیں جسٹس چوہدری اور پاکستان کے بہادر وکلاء کی شاندار جدوجہد پر فخر ہے“۔ وہ اب بحالی اور عدم بحالی کے خرخشوں سے بہت اگے نکل چکا ہے۔ وہ لاکھوں دلوں کے چیمبرمیں مسند لگائے بیٹھا ہے اور اپنے عہد کا سب سے قد آور جج بن چکا ہے۔ اسے بازاری حیلوں‘ بہانوں اور چکر بازیوں کے ذریعے عدالتی نظام سے خارج کردینا ‘ کروڑوں پاکستانیوں کی توہین ‘ عدل و انصاف کی تضحیک‘ عدلیہ کی تحقیراور ایک خود سر آمر کی بدنیتی پر مبنی غیر آئینی اقدام کی توثیق ہے۔ افتخار چوہدری کا کیا بگڑنا ہے لیکن پیپلز پارٹی کے دامن پہ لگا یہ داغ کبھی نہ دھل پائے گا۔
میرے موبائل کی چھوٹی سی اسکرین پر اردو میں لکھی تین سطروں میں پیغام بھی ہے‘ آرزو بھی اور دعا بھی۔ پیغام کبھی گنگ نہیں ہوتے‘ آرزوئیں سدا جوان رہتی ہیں اور دعاؤں کے چمنستان پر کبھی خزاں نہیں آتی۔ اس دنیا میں کوئی فریب کاری بھی کام نہیں دکھا سکتی۔ افتخار چوہدری کا راستہ روکنے والوں نے تاریخ میں اپنے مقام کا تعین کرلیا ہے لیکن کوئی نہیں جانتا کہ افتخار محمد چوہدری کو ابھی کن رفعتوں کو چھونا ہے۔ نہ یہ بات 3 نومبر 2007ء والے ڈکٹیٹر کو معلوم تھی نہ آج کے صاحبان اختیار جانتے ہیں۔ یہ صرف وہی جانتا ہے جو علیم بھی ہے اور خبیر بھی اور جو حیلہ سازوں کے حیلے الٹ دینے پر قادر بھی ہے۔
 
Top