اسے عنوان دیجئے

اسے عنوان دیجئے


باب اول

وہ تینوں کتنا خوش ہوئے تھے، اس کا اندازہ کر لینا صرف انہی لوگوں کے لئے ممکن ہے جنہیں سکول کے دور کا کوئی دوست ایک طویل عرصہ بعد مل جائے اور وہ بھی ایسا جو کہ لنگوٹیا ہو۔ ایسا ہی ہوا تھا فرق صرف اتنا تھا کہ اسسٹنٹ پروفیسر طارق ہاشمی، جنرل ڈیوٹی پائلٹ احتشام الدین اور انجنئر ملک خورشید جو تینوں کسی تقریب میں عرصہ بعد اکٹھا ہوئے تھے، انہیں ڈاکٹر امتیاز علی کا پتہ چلا تھا کہ وہ ایک مقامی اسپتال میں کارڈیو ڈپارٹمنٹ میں ایم او (میڈیکل آفیسر) تعینات ہوا تھا۔ امتیاز سکول کے زمانے کا انتہائی قریبی ساتھی اور ہر شرارت کا پارٹنر تھا۔

تینوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا اور وہ اُڑ کر امتیاز کے پاس جانا چاہتے تھے، چناچہ تقریب کے اختتام پزیر ہونے سے قبل ہی ایک واقف شہر کی ہمراہی میں اسپتال جا پہنچے جہاں امتیاز نے اُنہیں دیکھتے ہی والہانہ استقبال کیا اور چاروں دوست کیفیٹیریا میں آ بیٹھے۔

موضوع گُفتگو وہی سکول تھا جہاں اُن چاروں کی دوستی پروان چڑھی تھی، جہاں اکٹھے مل کر شرارتیں کرتے انہوں نے نہ صرف اساتذہ اور سکول کے ملازمین بلکہ دوسرے طلبہ کا جینا بھی حرام کر رکھا تھا۔ پڑھائی تو بہت دور کی بات تھی وہ کلاس روم میں اکثر و بیشتر آنا بھی گوارا نہ کیا کرتے۔

وہ مس میداں(حمیداں) یاد ہے تُم لوگوں کو؟ امتیاز نے دانت نکالتے ہوئے کہا تھا

؛؛ارے ہاں کیوں نہیں وہ جو گُلو ریڑھی والے سے تھرڈ کلاس لپ اسٹک لے کر لگاتی تھیں اور ایک منٹ گزرنے کے بعد ہی وہ لپ اسٹک یوں چٹخ جایا کرتی تھی کہ جیسے کسی خستہ حال کمرے کا پینٹ جگہ جگہ سے اُکھڑ جاتا ہے، یا پھر جیسے کسی صحرا میں بھٹکے ہوئے پیاسے انسان کے ہونٹون پر پپڑیاں جم جاتی ہیں۔ پھر بھی وہ شیشے میں اُن پپڑیوں کو دیکھ دیکھ کر دبانے کی کوشش کرتیں؛؛ احتشام نے یوں کہا جیسے اُن سب سے اپنی یاداشت کی داد وصول کرنا چاہتا ہو۔

خورشید کہاں پیچھے رہنے والے تھے، یوں گویا ہوئے، ؛؛ ہاں ہاں یاد ہے مجھے بھی سب کچھ ارے وہی نا جن کے کپڑے اکثر یوں رفو کئے ہوئے ہوتے تھے کہ نا پھٹوں میں اور نا ہی سلوں میں۔ پر یار لوگو وہ تھیں کتنی وقت کی پابند، کسی جن کی طرح سکول میں وقت پر موجود ہوا کرتی تھیں۔ کتنا بھی شرارت کرو کچھ کرو صرف سمجھایا کرتیں کہ بچو پڑھ لکھ لو کچھ، یہ وقت پھر کبھی بھی ہاتھ نہیں آنے والا، پھر گاؤں کے مدرسہ میں اور تھا بھی کون، پانچویں جماعت سے لے کر میٹرک تک وہی سبھی جماعتوں کو دیکھا کرتیں، ہے نا؟

طارق نے چائے کی چسکی ایک بھانک سی سڑپ کی صورت میں لی اور کہنے لگے،؛؛ ہاں یار ایسا ہی تھا؛؛

ڈاکٹر صاحب ڈاکٹر صاحب، دور سے بھاگتا ہوا ایک سفید وردی پوش امتیاز کے قریب آیا اور بولا؛؛ سی ام او (کیثویلٹی میڈیکل آفیسر) آپ کو بلا رہے ہیں کوئی ایمرجنسی ہے۔

؛؛ ٹھیک ہے اُن سے کہو کہ میں آتا ہوں ؛؛ امتیاز نے کہا۔ وردی پوش چلا گیا

؛؛ ہاں تو تُم کیا کہ رہے تھے طارق؛؛ امتیاز بولا تھا

؛؛ ارے یار وہی کہ اُستانی میداں (حمیداں) نا ہوتیں تو شائد ہم لوگ چور ڈاکو ہی بن گئے ہوتے ، ہے نا؟؛؛ طارق کے کہنے پر باقی تینوں دوستوں نے اثبات میں سر ہلائے تھے

؛؛ وہی تو ہمیں پکڑ پکڑ کر باہر سے کلاس روم میں لایا کرتی تھیں ؛؛ احتشام نے کہا اور پھر اُن سب کو ٹاپک چینج کرنے کو بھی کہ دیا کہ وقت بہت کم تھا اُس کے پاس۔

چاروں ماضی کی یادوں میں گُم تھے کہ سفید پوش پھر آن دھمکا، ڈاکٹر صاحب مریضہ کی طبیعت بہت بگڑ گئی ہے پلیز آپ آ جائیں سی ام او صاحب نے تاکید کی ہے۔

امتیاز بادل نخواستہ اُٹھ کھڑا ہوا ، باقی تینوں بھی اُس کے ساتھ ہی چل دئے تھے تاکہ رستے میں کچھ اور یادیں تازہ کر لی جاتیں۔

ایمرجنسی میں داخل ہوئے تو سی ام او (کیثویلٹی میڈیکل آفیسر) مریضہ کہ آنکھیں بند کر رہا تھا، ساتھ ہی اُس نے مریضہ کے گزر جانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اُسے ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔

؛؛ارے یہ تو مس میداں ہیں؛؛ امتیاز نے کہا تھا

؛؛ چچ چچ بے چاری مس حمیداں؛؛ انا للہ و انا الیہ راجعون ؛؛ پروفیسر بولے


باب الثانی


عسکری حلقوں میں مشہور پروفیسر طارق ہاشمی جو جامعہ عسکریہ سے منسلک تھے، گزشتہ دس روز سے صدر مملکت، جنرل حمیدی سے ملاقات کی کوشش کر رہے تھے، جنرل حمیدی کو اُنہوں نے ہی پڑھایا تھا اور وہ تیزی سے ترقی کے مدارج ے کرتے ہوئے جنرل بن گئے تھے، پھر اُنہوں نے حکومت کا تختہ اُلٹ کر اقتدار سنبھال لیا تھا۔

پروفیسر صاحب کے بیٹے سے کسی میجر صاحب کی ٹھن گئی اور اُنہوں نے اُسے کہ سُن کر دہشت گردی میں اندر کروا دیا تھا اور سرسری سماعت کی ملٹری عدالت سے اُسے سزائے موت سُنائی گئی تھی، وہ اُسے بچانے کی سر توڑ کوشش کر رہے تھے۔

آج خوش قسمتی کہ جنرل صاحب نے ملاقات کے لئے دس منٹ عنایت کر دئےتھے، پروفیسر صاحب نے سامنے پیش ہو کر کھڑے کھڑے مدعا بیان کیا، جنرل صاحب نے اپنے ماتحت کو بلوایا اور استفسار کیا، وہ بولے کہ دو دن پہلے معافی کی درخواستیں موصول ہوئی تھیں لیکن جنرل صاحب نے اُنہیں مسترد کر دیا تھا اور پھانسی اگلے دن دی جانے والی تھی، جنرل صاحب نے معزرت کر لی کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا



باب الثالث


جنرل حمیدی کے اقتدار کا سورج غروب ہو چکا تھا، اور سولینز نے بہت سی قربانیوں کے بعد اُن سے اقتدار واپس چھین لیا تھا، جنرل صاحب زیرعتاب تھے اور بہت کوشش کے باوجود اُن ساتھیوں کو پیغام نہیں پہنچا پا رہے تھے کہ ملیٹری اکیڈمی میں جن کو اسٹریٹیجی کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ یا تو پیغامات اُن تک پہنچ نہیں پا رہے تھے اور یا وہ لوگ اُنہیں سُنے جانے کا موقع دینے کو تیار ہی نہیں تھے۔

نوبت یہاں تک پہنچی کہ سول حکومت نے جنرل صاحب پر آرٹیکل سکس (6) کا نفاز کر دیا ۔
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top