اسی حریف کی غارت گری کا ڈر بھی تھا - یوسف حسن

شمشاد

لائبریرین
اسی حریف کی غارت گری کا ڈر بھی تھا
یہ دل کا درد مگر زار رہگذر بھی تھا

اسی پہ شہر کی ساری ہوائیں برہم تھیں
کہ اک دیا مرے گھر کی منڈیر پر بھی تھا

یہ جسم و جان تیری ہی عطا سہی لیکن
ترے جہان میں جینا مرا ہنر بھی تھا

اسی کھنڈر میں مرے خواب کی گلی بھی تھی
گلی میں پیڑ بھی تھا پیڑ پر ثمر بھی تھا

مجھے کہیں کا نہ رکھا سفید پوشی نے
میں گرد گرد رواں تھا تو معتبر بھی تھا

میں سرخرو تھا خدائی کے روبرو یوسف
کہ اس کی چاہ کا الزام میرے سر بھی تھا
(یوسف حسن)
 
محفل فورم صرف مطالعے کے لیے دستیاب ہے۔
Top