ٹائپنگ مکمل اسکول کے کتب خانے

عائشہ عزیز

لائبریرین
سیدہ شگفتہ اپیا کے لیے اسکین پیج

1.gif
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
(ص 43)
باب نمبر ۴
نظامِ کتب خانہ

لائبریری کمیٹی
۴۶​

کتب خانہ کا عملہ
۴۷​

لائبریرین
۴۸​

لائبریرین کے فرائض
۴۹​


رضاکار طلباء
۵۵​
چپراسی
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
(ص 45)​
نظام کتب خانہ
کسی ادارے کو خوش اسلوبی سے چلانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے منتظمین اور عملہ کے افراد باصلاحیت اور تجربہ کار ہوں۔ اپنے فن اور پیشہ ورانہ علم میں طاق ہوں۔ علم کتاب داری ایک فن بھی ہے اور سائنس بھی۔ اس کی تعلیم اب تمام ملکوں میں اعلیٰ معیار پر ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں بھی اس کی تعلیم اب انٹرمیڈیٹ سے شروع ہوگئی ہے۔ اس مضمون کو آرٹس، سائنس اور کامرس کے طلباء اختیاری مضمون کی حیثیت سے پڑھ سکتے ہیں۔ اسی طرح بی۔اے، بی۔ایس۔سی اور بی۔کام میں بھی اس کی تعلیم و تربیت کا انتظام کیا جارہا ہے۔ جامعات میں تو کافی عرصہ سے ڈپلوما اور ایم۔اے لائبریری سائنس کی تعلیم دی جارہی ہے۔ اس صورتِ حال سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس علم کی کتنی اہمیت اور ضرورت ہے۔
جس طرح بچوں کی رسمی تعلیم دینے کے لیے اساتذہ کے تقرر کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح غیر رسمی تعلیم کتب خانوں کے ذریعہ کی جاتی ہے اور اس کے لیے پیشہ ورانہ قابلیت کے حامل لائبریرین کا تقرر ضروری ہے کیونکہ کتب خانوں کے مواد کو جدید طرز پر منظم کرنے اور طلباء و اساتذہ کو اس مواد سے مستفید ہونے کا سائنسی طریقہ لائبریرین ہی بتا سکتا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے ہمارے ملک میں کتب خانوں کا انتظام یا تو کسی ایسے استاد کے سپرد کردیا جاتا ہے جو ہیڈ ماسٹر یا پرنسپل کے عتاب کا شکار ہوتا ہے یا دفتر کے کلرک کو یہ ذمہ داری سونپ دی جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی اصل ذمہ داری کے ساتھ کتب خانہ کے کام کو بے توجہی سے کرتے ہیں اور عدم دلچسپی کے باعث کتب خانہ محض ایک فاضل مدبن کر رہ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کہ اسکولوں کے کتب خانوں میں اکثر تالا پڑا رہتا ہے اور بہت کم طلباء اور اساتذہ اس سے مستفید ہوتے ہیں۔ ان کتب پر جو بھی رقم صرف کی جاتی ہے وہ بے کار ثابت ہوتی ہے۔ کتابیں محض الماریوں کی زینت بنی رہتی ہیں جنہیں دیمک اور کیڑے چاٹ جاتے ہیں۔ حکومت اور محکمہ تعلیمات کے ذمہ دار عہدیداران کا فرض ہے کہ وہ قومی سرمائے اور علم کے خزانوں کی اس طرح بربادی اور بے حرمتی کا مناسب علاج کریں۔ اگر اسکول میں واقعی کتب خانے قائم کرنا ہیں تو پھر اس سے متعلق تمام ضروری انتظامات کیے جائیں اور تعلیم یافتہ اور تجربہ کار لائبریرین کا تقرر کیا جائے جو
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
(ص46)

علم لائبریری سائنس میں ایم۔اے کی سند رکھتے ہوں۔
لائبریری کمیٹی

کتب خانوں کے نظام کو بہتر طریقہ سے چلانے کے لیے ضروری ہے کہ اسکول کے ہیڈ ماسٹر یا پرنسپل ایک لائبریری مشاورتی کمیٹی (Library Advisory Committee) کا تقرر کریں۔ اس کمیٹی کی تشکیل اس طرز پر کی جائے۔
۱ ۔ صدر ۔ ہیڈ ماسٹر یا پرنسپل۔​
۲ ۔ معتمد ۔ لائبریرین​
۳ ۔ اراکین ہرمضمون کے ایک استاد کو کمیٹی کا رکن منتخب کیا جائے۔ ہر رکن کی مدت رکنیت ایک تعلیمی سال ہونی چاہیے۔​
اس کمیٹی کی ذمہ داری کتب خانہ کے مسائل پر غور کرنا اور اس کی ترقی کے لیے مناسب پروگرام مرتب کرنا ہوگا۔ نیز طلباٰء اور اساتذہ کو کتب خانے کی طرف راغب کرنا اور ان کو تمام علمی سہولتیں فراہم کرنا ہوگا۔ اس ضمن میں کمیٹی کے اراکین کی کارکردگی کے چند اصول درج ذیل ہیں۔

۱ ۔ اپنے مضامین سے متعلق مواد کے انتخاب میں مشورہ دینا۔
۲ ۔ منتخبہ مواد کے حصول میں مدد کرنا۔
۳ ۔ اپنے مضامین پر طلباء کے پڑھنے کے لیے فہرست کتب تیار کرنا۔
۴ ۔ طلباء کو اپنے مضامین پر کتب انتخاب کرنے میں مدد کرنا۔
۵ ۔ لائبریرین کو اگلے ہفتے یا اگلے مہینے پڑھائے جانے والے موضوعات سے آگاہ کرنا تاکہ وہ ان موضوعات پر طلباء کے لیے کتب خانہ میں موجود کتابوں اور مضامین کی فہرست پہلے سے تیار کرسکے اور ان کتابوں اور مضامین کو ہر جماعت کے اعتبار سے الگ الگ الماریوں میں ترتیب دے سکے تاکہ طلباء آسانی سے ان سے استفادہ کرسکیں۔
۶ ۔ لائبریرین کی انتظامی امور میں مدد کرنا۔
 

اسکول کے کتب خانوں کو اہمیت اور ضرورت​
ہر ملک اپنے تعلیمی نظام کی اساس کسی خاص نظریہ اور کسی مخصوص فلسفہ پر ترتیب دیتا ہے۔ پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے۔ اس کی تشکیل اسلامی نظریہ حیات پر ہوئی۔ لہذا اس نسبت سے اس کا تعلیمی نظام اسلامی اصولوں اور نظریات پر مبنی ہونا چاہیے۔ چنانچہ تعلیمی نظام خالص اسلامی نظریات اور نظریہ پاکستان کی بنیادوں پر استوار ہونا چاہیے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اسکولوں ، کالجوں اور جامعات کے نصاب کو اس طرح تشکیل دیا جائے کہ طلبا کو ابتدا ہی اس اسلام کی بنیادی تعلیم سے کلی طور پر شناسائی ہو اور نظریہ پاکستان سے مکمل طور پر آگاہی ہو جائے۔​
تعلیم نظام اور اسکول​
تعلیمی نظام میں اسکول کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ ہر ملک کی حکومت تعلیمی منصوبہ بندی میں ابتدائی اور ثانوی تعلیم پر خاصی توجہ دیتی ہے۔ بنیادی تعلیم اگر صحیح خطوط پر مرتب کی جائے تو پھر اعلی تعلیم اور تحقیق کا معیار بہت بلند اور اعلی ہو جاتا ہے۔ ابتدائی تعلیم کو اگر ملکی نظریات سے ہم آہنگ کیا جائے تو نوجوان نسل میں اخوت ، یکجہتی اور اتحاد کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے اور قومی و ملی شعور جنم لیتا ہے۔​
ہمارے ملک میں تعلیمی منصوبہ بندی کے لیے کئی کمیشن بٹھائے گئے۔ بے شمار کانفرسیں ہوئیں اور کئی تعلیم پالیسیاں مرتب کی گئیں۔ کمیشنر کی رپورٹس اور پالیسیوں میں تعلیمی معیار کو بلند کرنے اور ملک میں یکجہتی اور ہم آہنگی پیدا کرنے کی بے شمار سفارشیں کی گئیں لیکن ان پر عمل درآمد نہیں ہو سکا ۔​
ہمارا مقصد اس کتاب میں تعلیمی عمل کے اس پہلو پر بحث کرنا ہے جس کے توسط سے ہمارے بچوں اور نوجوانوں میں علم کو بطور حاصل کرنے اور معیار تعلیم کو بلند کرنے کا جذبہ اور شوق پیدا ہو سکے۔ اس باب میں اساتذہ ، نصاب تعلیم اور کتب خانوں کے کردار پر بحث مقصود ہے۔ یہ بحث ہم صرف​
 

مقدس

لائبریرین
40

تمام دنیا کے علمی ذخائر سے مفت فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
اساتذہ اگر کتب خانہ میں دلچسپی لیں اور لائبریریین سے تعاون کریں تو وہ اپنے مضامین پر اپنے لیے اور طلباء کے لیے نئی اور پرانی کتب منتخب کر کے کتب خانہ مٰں شامل کروا سکتے ہیں۔ اس طرح تمام اساتذہ کے تعاون سے کتب خانہ کا مواد نہایت معیاری ہو جائے گا اور آئندہ آنے والے اساتذہ اور طلباء اس مواد سے فیضاب ہو سکیں گے، یہ سلسلہ اگر مسلسل قائم رہے تو کتب خانہ روز افزوں ترقی کرتا رہے گا اور طلباء جو علم اسکول سے حاصل کریں گے وہ پوری قوم و ملک کے لیے باعث فیض بن جائے گا۔
طلباء اور کتب خانے
اسکول کے کتب خانے کو استعمال کرنے والے بیشتر طلباء اور اساتذہ ہوتے ہیں۔ یہاں نصابی کتب کے علاوہ اور بےشمار کتب اب تمام مضامین پر جمع کی جاتی ہیں جو اسکول میں پڑھائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایسے موضوعات پر بھی کتب مہیا کی جاتی ہیں جن کا تعلاق طلباء اور اساتذہ کے ذاتہ ذوق و شوق سے ہوتا ہے۔ ناول اور افسانے بھی رکھے جاتے ہیں تاکہ طلباء اور اساتذہ اپنے درسی مضامین کے علاوہ ذاتی ذوق و شوق کا مواد بھی حاصل کر سکیں۔ اس طرح طلباء کو اپنی علمی صلاحیت اجاگر کرنے اور اپنے ذوق کی تسکین کا خاصہ موقع مل جاتا ہے۔
طلباء اپنے اردگرد کے موحول۔ یعنی ملک کی سیاست، معاشرت، مذہب اور دیگر مسائل پر تنقیدی انداز سے سوچتے اور فکر کرتے ہیں۔ ان کے ذہن میں بےشمار سوالات ابھرتے ہیں جن میں سے بعض وہ اپنے والدین سے، بعض اساتذہ سے اور احباب سے سمجھتے ہیں۔ لیکن بعض ایسے سوالات ہوتے ہین جو وہ کسی سے نہیں پوچھ سکتے شرم و حجاب کے باعث خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ کتب خانہ ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جہاں ان کو ہر قسم کے سوالات اور مسائل پر کتب مل سکتی ہیں اور وہ ان کے جوابات اور حل بہ آسانی حاصل کر سکتے ہیں ان کے لیے ضروری ہے کہ طلباء کے لیے ایسی تمام کتب کہیا کی جائیں جن کے توسط سے وہ اپنی ذہنی الجھنوں کو دور کر سکیں اور تعمیری انداز پر اہنی عملی اور عملی ذندی کو ڈھال سکیں۔ بچوں کو آذادی کے ساتھ کتب منتخب کرنے اور پڑھنے

41

کا موقعہ دیا جائے تاکہ ان میں تحقیق اور جستجو کرنے کا شوق و جذبہ پیدا ہو اور وہ اپنے مسائل کو حل اور اپنے سولات کے جوابات خود حاصل کر سکیں۔ اس طرح ان میں خود اعتمادی اور وقار کی قوت پیدا ہو گئی۔
طلاء کے جمالیاتی ذوق کو پروان چڑھانے کے لیے بھی اسکول کے کتب خانہ میں ایسا مواد فراہم کرنا چاہیے جن کے مطالعہ سے ان میں اللہ کی تخلیق کردہ کائنات اور انسان کی تشکیل کردہ اشیاء سے لطف اندوز ہونے کا شعور پیدا ہو جائے۔ قدرتی مناظرر، خوبصورت پرندے، پہاڑ ، وادیاں، سبزہ زار، تصاویر، ادبی مواد، شاعری، منظر نگاری وغیرہ کو محسوس کرنے اور ان سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت پیدا ہو سکے۔ لیکن اس ذوق کو پروان چڑھانے میں اتنی احتاط ضروری ہے کہ ہمارا نظام تعلیم چونکہ اسلامی نظریہ پر مرتب کیا جا رہا ہے اس لیے ہمیں کتب خانوںمیں فنون لطیفہ پر کتب جمع کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہم اس نظریہ کے منافی یا اس کے بتائے ہوئے اصولوں کی خلاف مواد اکٹھا کرنے سے اجتناب کریں۔
طلباء کی کتب خانوں میں دلچیپی بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ ان کو انتخاب کتب کے سلسلہ میں مشورہ دینے کا حق دیا جائے اور ان کو یہ احساس دلایا جائے کہ کتب خانہ ان کے لیے اور ان کے مشوروں کے مطابق ترتیب دیا جا رہا ہے۔ طلباء کو مختلف قسم کی خدمات انجام دینے ما موقع دیا جائے اس طریق کار سے طلباء میں کتب خانہ کے معاملات میں ذاتی دلچسپی پیدا ہو گی اور ان کے علمی اور ذاتی ذوق کی تسکین ہو گی۔

والدین اور کتب

اکثر ترقی یافتہ ممالھ میں والدین اور اساتذہ کی انجمنیں قائم کی گئی ہیں۔ پاکستان میں بعض اسکولوں نے ایسی انجمنیں قائم کی ہیں۔ ان کی خاصی اہمیت ہے۔ ان کے توسط سے اساتذہ اور والدین میں باقاعدہ رابطہ رہتا ہے، اساتذہ بچوں کی تعلیمی صلاھیت کے متعلق والدین کو آگاہ کرتے رہتے ہیں اور والدین بھی اپنے بچوں کئ کیفیت معلوم کرتے رہتے ہیں اور باہمی مشوروں سے بچوں کی خامیوں اور کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ انجمنیں اسکوم کے ترقیاتی پروگراموں میں دل کھول کر حصہ لیتی ہیں اور اسکول کے لیے مالی اعانت کا بھی بنوبست کرتی ہیں۔ ایسے اسکولوں میں والدین کو کتب خانہ استعمال کرنے کی
 

مقدس

لائبریرین
42

اجازت ہوتی ہے۔ والدین نہ صرف کتب خانہ ست علمی مواد حاصل کرتے ہیں بلکہ اساتذہ اور لائبریرین کے ساتھ کتب خانہ کی ترقی میں بھرپور حصہ لیتے ہیں۔ والدین اور اساتذہ لائبریرین کو بچوں کی اسکول اور گھر کی مصروفیت اور تعلیمی کارگردگی سے آگاہ کرتے ہیں جس سے اساتذہ اور لائبریرین ان کی ذہنی کیفیت کا اندازہ لگا کر مناسب علمی تربیت کا اہتمام کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اس قسم کی انجمنوں کے قیام میں کوئی دلچسپی نہیں لی جا رہی ہے۔ ان کا قیام ہر ابتدائی اور ثانوی اسکول میں بیحد ضروری ہے، ان انجمنوں کے قیام سے والدین اور اساتذہ اور لائبریرین باہمی صلاح و مشورہ سے بچوں کی عملی، اخٌاقی اور روحانی تربیت احسن طریقے پر کر سکتے ہیں اور ایک صالح معاشرہ قائم کیا جا سکتا ہے۔

بعض اسکولوں میں کتب خانے والدین کے علاوہ اپنے علاقے کے ذی علم اور عام پڑھے لکھے افراد کو بھی علمی خدمات سے نوازتے ہیں۔ جس سے نہ صرف ان حضرات کی علمی تشنگی دور ہوتی ہے بلکہ معاشرہ میں اصلاحی اور تعمیری کام کرنے کی ایک تحریک پیدا ہوتی ہے۔ اسکول کے کتب خانے اپنے علاقے میں دیہات سدھار، تعلیم بالغاں اور صحٹ مند عناصر کو فروغ دینے میں بھی مدد کرتے ہیں۔ کتب خانہ کی علمی خدمات سے متاثر ہو کر علاقے کے تمام افراد اسکول اور کتب خانہ کی فلاح و بہنود کے لیت مالی اور عملی اعانت اور تعاون کرتے ہیں۔ اسکول کے کتب خانے دیہاتوں اور چھوٹے شہروں میں عوامی کتب خانوں کی خدمات سرانجام دیتے ہیں۔ ہمارے ملک میں اس کا فی الحال رواج نہیں ہے۔ اگر اسکول تعلیمی پروگرام کے علاوہ معاشرتی اور سماجی پروگراموں میں حصہ لینے شروع کریں تو اس سے ہمارے بچوں اور نوجوانوں کی فکر اور کارکردگی صحیح خطوط پر مرتب ہو گی اور قوم تخریبی عناصر سے محفوظ ہو جائے گی۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
(ص51)

۵۔ مختلف تنقیدی کتابیات، کٹیلاگ، قومی کتابیات، عام فہرست کتب، رسائل و اخبارات، میں شائع ہونے والے تبصرہ سے مناسب کتب منتخب کرنا۔
۶۔ مختلف مضامین پر مطلوبہ کتب کی فہرست تیار کرنا۔
۷۔ کتب فروشوں اور ناشروں کے ذخیرہ کتب کا معائنہ کرنا۔
۸۔ مطلوبہ کتب کے لیے ضروری معلومات فراہم کرنا اور آڈر تیار کرنا۔
۹۔ کتب فروشوں اور ناشروں سے خریداری کتب کے لیے کمیشن اور دیگر معاملات طے کرنا۔
۱۰۔ خریداری کے لیے آڈر دینا اور مواد کو جانچ کر وصول کرنا۔
۱۱۔ غیر وصول شدہ مواد کے حصول کے لیے سعی کرنا۔
۱۲۔ تمام بلوں کو چیک کرنا اور ان کی ادائیگی کرنا۔
۱۳۔ تمام وصول شدہ مواد کو داخلہ رجسٹر میں درج کرانا۔

تیاری مواد

۱۔ درجہ بندی اور کٹیلاگ سے متعلق پالیسی مرتب کرنا۔
۲۔ درجہ بندی اور کٹیلاگ سازی سے متعلق تمام ضروری کتب اور مواد کو فراہم کرنا۔
۳۔ کتب خانہ کے تمام مواد کا کٹیلاگ تیار کرنا اور درجہ بندی کے مطابق اس کو الماریوں میں ترتیب دینا۔
۴۔ طلباء کو کٹیلاگ استعمال کرنے کا طریقہ بتانا۔

اجراء کتب

۱۔ اجراء کتب کے لیے اصول و ضوابط مرتب کرنا۔
۲۔ تمام طلباء، اساتذہ اور دیگر قارئین کی رکن سازی کرنا، اجرائے کتب ۧکے لیے کارڈ جاری کرنا اور ضروری ہدایات سے آگاہ کرنا۔
۳۔ اجرائے مواد کی اعداد و شمار روزانہ، ماہانہ اور سالانہ جمع کرنا۔


اگلا ٹیگ سید مقبول شیرازی زلفی بھائی
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
(ص 53)

حفاظت، مواد اور جلدی بندی

۱۔نئی اور زیر استعمال کتب کا جلد سازی کے لیے انتخاب کرنا اور ان کے لیے ضروری ہدایات تیار کرنا۔
۲۔ جلد سازوں سے شرح جلد سازی اور دیگر تفصیلات طے کرنا۔
۳۔ جلد سازی کے بعد کتابوں کو طے شدہ ہدایات کے مطابق چیک کرنا۔
۴۔ کتب اور دیگر مواد کتب خانہ کی کلی طور پر سال یا دو سال میں مکمل جانچ پڑتال کرنا اور اس کی رپورٹ تیار کرنا۔ رپورٹ میں واضح طور پر اعداد و شمار کی مدد سے مندرجہ ذیل باتوں کی تفصیل بتانا۔
۱۔ کل کتب رسائل، اخبارات اور دیگر مواد کی تعداد۔
۲۔ کتنی کتب موجود ہیں۔ کتنی جاری کی گئیں اور ابھی واپس نہیں آئیں۔
۳۔ کتنی کتب گم یا ضائع ہوگئیں۔
۴۔ کتنی کتب کو جلد سازی کی ضرورت ہے۔
۵۔کتنی کتب گم یا ضائع ہونے کے باعث نئی خریدی جائیں۔
۶۔کتب کےگُم ہونے یا ضائع ہونے کے اسباب کیا ہیں اور ان کا تدارک کیسے ہوسکتا ہے؟
۷۔ کون سی کتب زیادہ، کون سی کم اور کون سی بالکل استعمال نہیں ہوئیں۔
۸۔کتب کے علاوہ دیگر مواد کے استعمال کی صورت حال کیا رہی۔
مندرجہ بالا فرائض اور خدمات کی علاوہ لائبریرین کی اپنی پیشہ ورانہ اہلیت اور قابلیت کو اجاگر کرنے کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات کرنا چاہیں۔
۱۔ پیشہ ورانہ اور فنی مواد کو پابندی سے پڑھنا اور جانچنا۔
۲۔ نئی کتب کا تنقیدی جائزہ لینا۔
۳۔ اسکول کے تمام اجتماعات میں شرکت کرنا۔
 
Top