اسلام کے گمنام ابطال میں سے ایک … امیر برکۃ خان

ربیع م

محفلین
اسلام کے گمنام ابطال میں سے ایک … امیر برکۃ خان


ابو المعالی ناصر الدین بن جوجی خان بن چنگیزخان ، تاتاری بادشاہوں اور سلاطین میں سے سب سے پہلے انھوں نے اسلام قبول کیا ، برکۃ خان 650 ہجری میں منگولوں کے دارلحکومت قراقرم (حالیہ منگولیا ) سے واپسی کے دوران نجاری شہر میں ایک مسلم عالم نجم الدين مختار الزاهدي کے ہاتھوں اسلام میں داخل ہوئے ۔

سلطان برکۃ خان 653 کی ابتداء میں شمالی منگولوں یا تاتاریوں کی ایک بڑی شاخ زریں قبیلہ (طلائی اردو) کے سربراہ مقرر ہوئے ، ان کے قبول اسلام کے ساتھ شمالی علاقوں میں بسنے والے بہت سے منگولوں نے اسلام قبول کیا۔ برکۃ خان دین اسلام سے شدید محبت رکھنے والے اور انتہائی غیور شخصیت کے مالک تھے ، جن میں عقیدۃ اسلام ، اسلام کی محبت اور دین اسلام کے دفاع کے جذبہ کی جڑیں اتنی مضبوطی سے ہیوست تھیں جس کی مثال آج کل کے بہت سے مسلمانوں میں بھی ناپید ہے۔

دین اسلام کی خدمت اور اپنے وقت کے دشمن اسلام ہلاکو خان کے خلاف جہاد میں ان کا ہم کردار تھا ،انھوں نے بغداد پر تاتاریوں کا حملہ کئی سالوں تک روکنے رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ہلاکو کے خلاف ان کی دشمنی اور جنگیں مسلسل جاری رہیں یہاں تک کہ ہلاکو کی شان و شوکت اور دبدبہ کمزور پڑ گیا ، برکۃ خان کی ہلاکو کے خلاف فتوحات کی وجہ سے ہلاکو خان مرگی کے مرض میں مبتلا ہو گیا ۔

برکۃ خان نے منگولوں کے خاقان اعظم کی تقرری کے موقع پر منگولوں کے اتحاد کا شیرازہ بکھیر دیا۔منگولوں کے دو بڑے سرداروں قبلائی خان اور اس کے بھائی ارتق بوکا اور اوقطائی خان کو باہم لڑا دیا ، جس کی وجہ سے مجبورا ہلاکو خان کو شام سے واپس ان کی جنگ ختم کرنے کیلئے آنا پڑا یہ جنگ عین جالوت سے کچھ عرصہ قبل 658 ہجری کی بات ہے۔

اسی طرح برکۃ خان نے ممالیک اور ان کے بادشاہ کے ساتھ تعلقات استوار کرتے ہوئے ہلاکوخان کے خلاف اتحاد قائم کیا ، سقوط بغداد سے قبل خلیفۃ المستعصم کی بیعت کی ، منگولوں کے خؒاف جہاد میں ممالیک کے ساتھ مل کر شریک ہوئے ، سلطان بیبرس نے ان کے ساتھ شدید محبت کی وجہ سے اپنے بڑے بیٹے کا نام برکۃ خان رکھا۔

برکۃ خان ہمیشہ اسلام اور اہل اسلام کے خیر خواہ رہے مسلمانوں کی حرمات کا دفاع کرتے رہے ان کا دل اسلام کے غم میں گھلتا تھا۔

برکۃ خان نے اسلامی طرز پر ایک شہر "سرائی "( حالیہ سراتوف جو روس میں دریائے وولگا کے کنارے واقع ہے ) کی بنیاد رکھی جو زرئں قبیلہ کا دارلحکومت بھی تھا، جس میں بہت سی مساجد تعمیر کروائیں بہت سے علماء و فقہاء کو وہاں جمع کیا ، یہاں تک کہ یہ اپنے وقت کا دنیا میں ایک عظیم شہر بن گیا۔

برکۃ خان رحمہ اللہ 15ربیع الثانی 665 ہجری کو اباقا بن ہلاکو کے خلاف جنگ کیلئے رواں سفر کے دوران فوت ہوگئے ، ان کی وفات جہاد فی سبیل اللہ کی نیت پر ہوئی ہم اللہ رب العزت سے سوال کرتے ہیں کہ اللہ انھیں شہادت کے مراتب پر فائز کرے۔
 
Top