ام اویس

محفلین
شھادت کا مطلب ہے گواہی دینا اور شہید اسے کہتے ہیں جو ایمان کی حالت میں اپنی جان، الله کی رضا کے لیے دینِ اسلام پر قربان کر دے۔ اسلام میں شہید کا مرتبہ اور مقام بہت بلند ہے۔ الله تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ جو لوگ الله کی خاطر مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو ، بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم ان کی زندگی کو سمجھ نہیں سکتے۔
الله تعالی نے جب نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو نبوت عطا فرمائی اس وقت مکہ میں ہر طرف کفر اور شرک کا دور دورہ تھا۔ جس طرح نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے لیے، دعوت توحید کا کام انتہائی مشکل تھا اسی طرح ان کی بات کو مان لینا بھی سخت دشوار تھا۔ اس مشکل وقت میں ایمان لانے والے لوگ پکے اور سچے مسلمان تھے۔ انہوں نے خالص اللہ کے لیے اپنی جان، اپنا مال ، اپنے تمام رشتے اور ہر طرح کے رسم و رواج کو چھوڑ کر کلمہ توحید پڑھا اور اس پر قائم رہے تھے۔ بتوں کی عبادت و اختیار سے انکار کرکے،ایک الله پر ایمان لانے کی وجہ سے انہیں بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اسلام قبول کرنے کی وجہ سے ان پر سخت ظلم کیا گیا،انہیں مارا پیٹا گیا، ان کی شدید مخالفت کی گئی یہاں تک کہ ان کا مال و اسباب چھین کر انہیں ان کے گھروں سے بھی نکال دیا گیا۔
دعوت حق کی ابتدا میں الله اور اس کے نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے والوں کو السابقون الاولون کہا جاتا ہے، یعنی اسلام قبول کرنے میں سب سے آگے بڑھنے والے۔ سابقون الاولون میں آزاد لوگوں کے علاوہ مکہ کے غریب، نادار اور غلام بھی شامل تھے ۔
اسلام کی پہلی شہید خاتون حضرت سُمیّہ بنت خباط رضی الله عنھا ہیں جو قبیلہ بنومخزوم کے رئیس ابوحذیفہ بن مغیرہ کی کنیز تھیں ۔ آپ کی شادی حضرت یاسر بن عامر سے ہوئی۔ یاسر یمن کے رہنے والے تھے ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے پانچ سال پہلے اپنے دو بھائیوں کے ساتھ اپنے ایک گمشدہ بھائی کی تلاش میں مکّہ آئے تھے لیکن بھائی نہ ملا۔ یاسر کے دونوں بھائی واپس چلے گئے اور یاسر مکہ میں رہنے لگے۔ یہاں اُن کی دوستی ابوحذیفہ سے ہوگئی۔ انہوں نے اپنی کنیز سُمیّہ کی شادی یاسر سے کردی۔ ان کے تین بیٹے عمّار، عبداللہ اور حریث پیدا ہوئے۔ حریث کو قبل از اسلام ہی قتل کردیا گیا۔ یہ خاندان قبیلہ بنو محزوم کا حریف تھا۔ کہا جاتا ہے کہ عمّار کے پیدا ہونے پر ابوحذیفہ نے سُمیّہ کو آزاد کردیا تھا۔ ابو حذیفہ کی موت کے بعد ابوجہل اس قبیلے کا سردار بن گیا اور زبردستی اس خاندان کو اپنی غلامی میں لے لیا۔ مکہ میں زندگی بسر کرنے والا یہ خاندان یقینا نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے کردار ، ان کی سچائی اور ان کے اخلاق سے خوب واقف تھا۔ اس لیے جب نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے دعوتِ توحید پیش کی تو فورا اس پر ایمان لے آئے اور اسلام قبول کر لیا۔ ابوجہل کو جب ان کے اسلام لانے کی خبر ہوئی تو وہ ان پر سختی اور ظلم کرنے لگا۔ مکہ کے دوسرے سردار ابو امیہ وغیرہ بھی اسلام دشمنی میں ابوجہل کا ساتھ دیتے تھے ۔ چنانچہ اس ظلم وستم میں وہ بھی ابوجہل کے ساتھ شامل ہوگئے ۔ حضرت یاسر اور حضرت سُمیّہ دونوں ہی جسمانی طور پر ضعیف اور کمزور تھے وہ بوڑھے ہو چکے تھے لیکن اسلام پر مضبوطی سے قائم تھے۔ مشرکین مکہ کا کوئی ظلم بھی اُن کو اسلام سے ذرا سا دور نہیں کرسکا۔ یہی حال ان کے بیٹوں عمّار اور عبداللہ کا تھا۔ سخت گرمی میں انہیں لوہے کی زرہیں پہناکر مکّہ کی تپتی ریت پر لٹا دیا جاتا، ان کی پیٹھ پر گرم کوئلے رکھے جاتے۔ سرد موسم میں ٹھنڈے پانی میں غوطے دینا کفّار کا روزانہ کا معمول تھا۔ماں باپ کے سامنے بچوں کو تکلیف دی جاتی اور بچوں کے سامنے والدین کو مارا پیٹا جاتا۔ اس خاندان پر اس قدر سختیاں اور ظلم دیکھ کر نبی کریم صلی الله علیہ نے ان کے حق میں فرمایا: اے آل یاسر ! صبر کرو تمہارا مقام جنت ہے۔
قریش کی نظر میں عورت کی حیثیت بے جان کھلونے سے زیادہ نہ تھی۔ عورت کا کام محض مرد کی خدمت کرنا اور اُس کا ہر حکم بجا لانا تھا۔اہلِ قریش اور خاص طور پر بنو مغیرہ اس بات کو اپنے کے لیے باعثِ شرم سمجھتے تھے کہ ایک معمولی، بوڑھی کنیز، اِس قدر ظلم و تشدّد کے بعد بھی ہمارا مذہب اور اس کے رسم و رواج چھوڑ کر ایک نئے دین پر قائم ہے اور بنو مغیرہ کے طاقت وَر سردار کے سامنے مضبوطی سے کھڑی ہے۔
ایک دن ابوجہل کو حضرت سُمیّہ پر شدید غصّہ آیا۔ پہلے انہیں گالیاں دیں پھر برچھی کا وار کرکے شہید کردیا۔ابوجہل نے نیزے کی اَنی حضرت سُمیّہ کے پیٹ میں گھونپ دی، جس سے وہ شہید ہوگئیں ۔ وہ اسلام کی راہ میں اپنی جان قربان کرنے والی پہلی خاتون ہیں اور ان کے شوہر حضرت یاسر رضی الله عنہ اسلام کے پہلے شہید ہیں۔ اسلام قبول کرنے کی پاداش میں کفارِ مکہ نے ان پر اس قدر ظلم و ستم کیے کہ وہ ان کی تاب نہ لا سکے اور دینِ اسلام کی خاطر ، الله کی راہ میں شہادت کے بلند مرتبے پر فائز ہوئے۔
حضرت عمّار رضی الله عنہ کو اپنے والدین کی موت کا بہت دُکھ ہوا ۔وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کی کہ اب حد ہوگئی ہے۔ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے صبر کی تاکید فرمائی اور الله تعالی سے آلِ یاسر کو جہنّم سے بچانے کی دعا کی۔ غزوۂ بدر میں جب ابوجہل مارا گیا تو آپؐ نے عمّار رضی الله عنہ سے فرمایا: دیکھو! الله تعالی نے تمہاری ماں کے قاتل کا فیصلہ کر دیاہے۔

نزہت وسیم
 

سیما علی

لائبریرین
ایک دن ابوجہل کو حضرت سُمیّہ پر شدید غصّہ آیا۔ پہلے انہیں گالیاں دیں پھر برچھی کا وار کرکے شہید کردیا۔ابوجہل نے نیزے کی اَنی حضرت سُمیّہ کے پیٹ میں گھونپ دی، جس سے وہ شہید ہوگئیں ۔ وہ اسلام کی راہ میں اپنی جان قربان کرنے والی پہلی خاتون ہیں ا
جزاک اللہ خیرا کثیرا
بیشک حضرت سُمَیَّہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا شمار ان بلند پایہ صحابیات میں ہوتا ہے جنہوں نے اسلام کی راہ میں سخت ترین اذیتوں کا سامنا کیا۔ حضرت سُمَیَّہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے باوجود اس کے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کمزور اور ضعیف تھیں سخت تکالیف برداشت کیں لیکن کلمہ حق کہنے سے کبھی باز نہ آئیں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا شمار مکے کے ان سات افراد میں ہوتا ہے جنہوں نے انتہائی ابتدا ہی میں اسلام قبول کرلیا تھا۔
حضرت یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرزند حضرت عمار رضی اللہ عنہٗ اور حضرت سُمَیَّہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) نے نتائج و مصائب سے بے پروا ہوکر پرچم توحید کو مضبوطی سے تھام لیا۔
مشرکین نے اہل حق کے ان پروانوں کو طرح طرح کی تکلیفیں دیں۔ حضرت سُمَیَّہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا عالم پیری تھا اور پھر بہ حیثیت عورت بھی وہ ایک صنف نازک تھیں لیکن کفار نے ان کے شوہر اور فرزند کے ہمراہ انہیں بھی سخت سزائیں دیں‘ ان لوگوں نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو لوہے کی زرہ پہنا کر تپتی ہوئی دھوپ میں کھڑا کیا تآنکہ مکہ کے چمکتے ہوئے سورج کی تپش سے یہ لوہا گرم ہوکر آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نازک جسم کو اذیت ناک جلن دے اور نتیجتاً آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کلمہ حق سے باز آجائیں‘ مگر عشق رسول ﷺ ان مقدس ہستیوں کے رگ و پے میں اس درجہ سرایت کرچکا تھا کہ کسی صورت بھی یہ واپس شرک کی طرف لوٹنے والوں میں نہ ہوئے۔
رسول کریم ﷺ جب ان کو بنومغیرہ بن عبداللہ بن عمر بن محزوم کی طرف سے دی گئی اذیتوں میں مبتلا مکہ کی گرم دوپہروں میں جلتا دیکھتے تو فرماتے: ’’اے آل یاسر‘ ہمت نہ ہارنا‘ اللہ نے تم سے جنت کا وعدہ کیا ہے۔‘‘
غرض اسلام کی محبت میں سارا دن یہ عذاب جھیلتے گزر جاتا۔ ایک دن‘ رات کو ابوجہل حضرت سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آیا اور ان پر سخت غصہ ہوا‘ کہنے لگا: ’’اے بڑھیا! تو سٹھیا گئی ہے کہ اپنے ساتھ اپنے خاوند اور بیٹے کو بھی بددین کرڈالا‘‘
یہ کہتے کہتے اتنا غضب ناک ہوا کہ بے چاری بزرگ عورت حضرت سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اس زور سے کھینچ کر برچھی ماری کہ اس صدمے اور تکلیف کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ اسی وقت شہید ہوگئیں۔
اسلام کی پہلی شہید خاتون حضرت سُمَیَّہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا پورا نام سُمَیَّہ بنت خباط تھا۔ قیاس یہ ہے کہ حضور ﷺ کی حیات اقدس کا یہ سارا دور (حضرت یاسرؓ‘ حضرت سُمَیَّہؓ) حضرت عبداللہؓ اور حضرت عمارؓ کے سامنے گزرا اور انہوں نے حضور ﷺ کی عظیم ترین شخصیت اور اعلیٰ سیرت و کردار کا نہایت گہرا اثر قبول کیا۔ یہی وجہ ہے کہ بعثت کے بعد حضور ﷺ نے دعوت حق کا آغاز فرمایا تو اس سارے خاندان نے کسی قسم کا ردوکد یا تامل نہیں کیا بلکہ دعوت حق پر لبیک کہا۔ یہ اہل حق کیلئے بڑا پرآشوب زمانہ تھا۔ مکہ کا جو شخص بھی اسلام قبول کرتا مشرکین قریش کے غیظ غضب اور لرزہ خیز جور و تشدد کا نشانہ بن جاتا‘ مشرکین اس معاملے میں اپنےعزیزوں کا بھی لحاظ نہیں کرتے تھے۔۔۔۔۔
 
Top