اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت کا حکم سنایا

جاسم محمد

محفلین
ایسے فیصلوں کا کیا فائدہ جن سے ادارے تقسیم ہوں، فواد چوہدری
ویب ڈیسک منگل 17 دسمبر 2019
1920052-fawadchx-1576570947-120-640x480.png

ایک دوسرے کو نیچا دکھانا کسی کے مفاد میں نہیں، وفاقی وزیر فوٹو:فائل

اسلام آباد: وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا ہے کہ ایسے فیصلوں کا کیا فائدہ جن سے ادارے تقسیم ہوں۔

وفاقی وزیر فواد چوہدری نے ٹوئٹر پر بیان میں کہا ہے کہ ایسے فیصلوں کا کیا فائدہ جن سے فاصلےاورتقسیم بڑھے اور قوم و ادارے تقسیم ہوں۔

فواد چوہدری نے کہا کہ وقت کے تقاضے ہوتے ہیں ملک کو جوڑنے کی ضرورت ہے، مسلسل کہہ رہا ہوں گفتگو کی ضرورت ہے، نئے معاہدے (New Deal) کی طرف جائیں، ایک دوسرے کو نیچا دکھانا کسی کے مفاد میں نہیں، ملک پر رحم کریں۔
 

جاسم محمد

محفلین
کیسے کیسے فیصلے آ رہے ہیں
18/12/2019 ایاز امیر

جنرل مشرف والے فیصلے کی اہمیت علامتی ہے۔ وہ ملک سے باہر ہیں اور پہلے بھی واپس نہیں آ رہے تھے۔ اب کہاں آنا ہے۔ اس کے علاوہ اُن کے پاس اپیل کا بھی حق ہے۔ لہٰذا اُن کا مقدمہ ابھی چلتا رہے گا۔ علامتی اہمیت بہرحال اپنی جگہ ہے کہ ایک سابق آرمی چیف کو ایسی سزا بھی سنائی جا سکتی ہے۔
لیکن آرمی چیف کی توسیع کے بارے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ‘ جو جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا ہے‘ بہت اہم ہے۔ قانونی موشگافیوں سے ہٹ کر اُس فیصلے کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اُس نے موجودہ آرمی چیف کی توسیع پہ سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ فیصلے کے مطابق وزیر اعظم یا حکومت اُن کو توسیع دے ہی نہیں سکتے تھے کیونکہ اس کی گنجائش کسی قانون میں موجود نہیں۔ نہ آرمی ایکٹ میں ایسا کوئی تصور ہے‘ نہ کسی اور قانون میں۔ لہٰذا جو سمریاں بنیں توسیع کے حوالے سے ان کا کوئی قانونی وجود بنتا ہی نہیں تھا۔ جس زاویے سے بھی دیکھا جائے یہ بہت دُور رس نتائج کی حامل تشریح ہے ‘خاص طور پہ ہمارے تناظر میں جہاں یا تو فوجی سربراہ اپنے آپ کو توسیع دیتے رہے ہیں یا حکومتیں اُن کی مدتِ ملازمت بڑھاتی رہی ہیں۔
فیصلہ کہتا ہے کہ توسیع دینی ہے تو قانون بنانا پڑے گا‘ نہیں تو موجودہ چیف کو جو مہلت چھ ماہ کی دی گئی ہے وہ ختم ہو جائے گی اور نیا چیف مقرر کرنا پڑے گا۔ یہ بہت بڑا فیصلہ ہے اور ظاہر ہے‘ بہتوں کیلئے پریشانی کا باعث بھی بن سکتا ہے کیونکہ جو چیز واضح سمجھی جا رہی تھی کہ تین سال کی توسیع ہو گئی ہے وہ اس فیصلے سے دھندلی پڑ جاتی ہے۔ ویسے تو کوئی پرابلم نہیں ہونی چاہیے حکومت کو قانون پاس کرنے میں۔ لیکن ابھی تک یہ بھی واضح نہیں کہ حکومت کو کس قسم کا قانون پارلیمنٹ میں لانا پڑے گا۔ ابھی تک تو یہی سمجھا جا رہا ہے کہ تمام پارٹیاں توسیع کے مسئلے پہ متفق ہوں گی یا ہو جائیں گی۔ لیکن یہ تو اب کا تاثر ہے۔ پتہ نہیں قانون سازی کیا شکل اختیار کرتی ہے اور پھر جب معاملہ قومی اسمبلی یا پارلیمنٹ کے سامنے جاتا ہے تو وہاں کیا آراء سامنے آتی ہیں۔
کچھ ایسی باتیں بھی ہیں جو صاف نہیں کہی جا سکتیں۔ یقینی صورتحال جب غیر یقینی میں تبدیل ہو جائے تو پھر طرح طرح کی قباحتوں کا پیدا ہونا فطری ہو جاتا ہے۔ جنہوں نے پہلے چپ سادھی ہو اُن کے خیالات کو بھی زبان لگ جاتی ہے۔ کچھ حلقے فیصلے پہ خوش ہوں گے اور یقینا کچھ ہیں جن کو اچھا نہیں لگے گا۔ بہرحال یہ غیر یقینی صورتحال اچھی نہیں اور اِس بارے میں حکومت پہ ضرور یہ الزام لگے گا کہ کچھ تیاری کی ہوتی یا ذہن واضح ہوتے تو اس جھمیلے سے بچا جا سکتا تھا۔ لیکن حکومت نے ہر چیز عجلت میں کی اور اس مسئلے کو خراب کیا۔ اب کوئی مانے یا نہ مانے بہتوں کیلئے اِس سارے مسئلے کا الجھاؤ باعثِ شرمندگی ثابت ہو رہا ہے۔
لیکن ایک پہلو خیر کا بھی اس ماجرے سے نکلتا ہے۔ یہ توسیع والا مسئلہ شاید ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائے۔ قانون جو بھی پاس ہو یا نہ ہو‘ آئندہ کسی کی توسیع اتنی آسان نہ رہے گی جتنا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ اپنے آپ کو توسیع دینے والے بھی محتاط ہو جائیں گے اور سویلین حکومتوں کا یہ دردِ سر ختم ہو جائے گا کہ کسی کو توسیع دینی ہے یا نہیں۔ دیگر ممالک کو چھوڑئیے‘ امریکا اور برطانیہ سے ہم نے اپنا کیا موازنہ کرنا ہے لیکن ہمارے ہمسائے بھارت میں یہ توسیع والا مسئلہ کبھی پیش نہیں آیا۔ ایک مخصوص مدت کیلئے آرمی چیف آتے ہیں اور میعاد پوری ہونے پہ گھر چلے جاتے ہیں۔ یہ ہماری ہی انوکھی تاریخ رہی ہے کہ لوگ توسیع لیتے رہے ہیں۔
یہ کام جنرل ایوب خان سے شرو ع ہوا تھا۔ چار سال کے لئے کمانڈر انچیف بنائے گئے اور پھر چار سال کی اُنہیں توسیع دی گئی جس کی قطعاً کوئی ضرورت نہ تھی‘ لیکن تب حکمرانی ہی ایسی تھی کہ اصل طاقت اوپر کی نوکر شاہی کے ہاتھ میں تھی۔ سیاست دان بیچارے ایک درواز ے سے اندر لائے جاتے اور دوسرے درواز ے سے نکالے جاتے تھے۔ چوہدری محمد علی اور سکندر مرزا سُپر بیوروکریٹ تھے‘ اور اصلی فیصلہ ساز وہی تھے۔ اُن کے شانہ بشانہ جنرل ایوب خان تھے جو فوج کے سربراہ ہوتے ہوئے وزیر دفاع بھی تھے اور اس حوالے سے کابینہ کی میٹنگوں میں شامل ہوتے تھے۔ اس تناظر میں اُن کو توسیع ملنی ہی تھی۔ اُن کی توسیع کے دوران ہی ملک کا پہلا مارشل لاء نافذ ہوا۔
ایوب خان جب صدر بنے تو فوج کا سربراہ اُنہوں نے جنرل موسیٰ خان کو بنایا۔ معیارقابلیت کی بجائے وفاداری کا تھا۔ موسیٰ خان کچھ زیادہ زیرک جرنیل نہ تھے بس ایوب خان کے سائے میں چلنے کے عادی تھے اور اِسی وجہ سے لمبے عرصے کیلئے فوج کی کمان اُن کے ہاتھوں میں رہی۔ نقصان یہ ہوا کہ جب ایوب خان نے 65ء کی جنگ کی شروعات کی تو جنرل موسیٰ خان فیصلے میں کہیں نظر نہ آئے۔ جب باقاعدہ جنگ چھڑ گئی تو اُن کی کمان غیر معمولی کارکردگی نہ دکھا سکی۔ موسیٰ خان کے بعد جنرل یحییٰ خان آئے اور اُن کو بھی کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ ایوب خان بیمار پڑے‘ اُن پر فالج کا حملہ ہوا تو جنرل یحییٰ خان نے معاملات کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ ایوانِ صدر میں تو ایوب خان تھے لیکن اقتدار کا جھکاؤ جنرل یحییٰ خان کی طرف جا چکا تھا۔ پھر جب ایوب خان کے خلاف تحریک شروع ہوئی اور کہنے والے کہتے ہیں کہ کچھ اداروں نے جنرل یحییٰ خان کے اشارے پہ اُس تحریک کو ہوا دی تو حالات ایوب خان کے ہاتھوں سے بالکل ہی نکل گئے۔ جب انہوں نے صدارت سے سبکدوش ہونے کا اعلان کیا تو اقتدار جنرل یحییٰ خان کے سپرد کر دیا۔ پھر جو کچھ مشرقی پاکستان میں ہوا وہ ہم جانتے ہیں۔ کہتے تو ہم یہ ہیں کہ ہندوستان نے یہ کیا وہ کیا لیکن سانحہِ مشرقی پاکستان کے زیادہ اسباب ہمارے اپنے بنائے ہوئے تھے۔
یہ بات بھی ماننی چاہیے کہ حالات کی سنگینی میں ذوالفقار علی بھٹو کی بھی بھاری ذمہ داری بنتی ہے۔ بحران تو تھا ہی لیکن اُس کی شدت میں اضافہ بھٹو نے کیا۔ یحییٰ خان کو استعمال کرنا وہ خوب جانتے تھے اور شیخ مجیب الرحمان سے کوئی سمجھوتہ کرنے کیلئے بالکل تیار نہ تھے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ میں ہو جاتا تو شاید حالات اتنی تیزی سے خراب نہ ہوتے۔ لیکن یحییٰ خان کا کنٹرول اپنے قریبی جرنیلوں پہ کمزور پڑ چکا تھا اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ عوامی لیگ سے کوئی سمجھوتہ ہو۔ بھٹو اُن جرنیلوں کے ساتھ اندرونِ خانہ ملے ہوئے تھے۔
یہ تو جملہ معترضہ ہوا۔ جب جنرل ضیاء الحق سربراہ بنے اور 1977ء کا مارشل لاء لگ گیا تو وہ اپنے آپ کو توسیع دیتے گئے۔ وہ بخوبی سمجھتے تھے کہ اُن کی فوج کی کرسی ہی اُن کے اقتدار کی ضمانت ہے‘ لہٰذا جہاں اور سیاسی تبدیلیاں ہوئیں اُس کرسی کو اُنہوں نے نہ چھوڑا۔
یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کئی ایک جرنیلوں نے اچھی مثال بھی قائم کی۔ جب جنرل جہانگیر کرامت کا نواز شریف سے کسی بات پہ مسئلہ بنا تو اُنہوں نے چپکے سے استعفیٰ دے دیا اور گھر چلے گئے۔ بعد میں جا کے یہ واقعہ نواز شریف کو بہت مہنگا پڑا۔ جنرل کرامت کی جگہ فوج کے سربراہ جنرل مشرف بنے اور اُنہیں اس عہدے کیلئے اس لئے چُنا گیا کہ نواز شریف کے کچھ افلاطون یہ خیال کرتے تھے کہ مشرف اردو سپیکنگ ہے اور اُن کی فوج میں اپنی لابی نہ ہو گی۔ مشرف نے پھر جو حشر نواز شریف کا کیا وہ ہمارے سامنے ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ سپریم کورٹ نے قوم اور سیاسی پارٹیوں پہ یہ احسان کیا ہے کہ اس مسئلے کا مستقل حل پیش کر دیا ہے۔ اگر سیاست دانوں میں عقل ہو اور صحیح قانون پاس کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ مسئلہ ہمیشہ کیلئے ختم ہو سکتا ہے۔ ایک مدت کیلئے لوگ آئیں گے اور رخصت ہو جائیں گے۔ بیچ کی ریشہ دوانیاں ختم ہو جائیں گی۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اگر عقل سے کام لیا گیا‘ نہیں تو معاملات کو ٹیڑھا کرنے کی ہماری صلاحیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
 
ایسے فیصلوں کا کیا فائدہ جن سے ادارے تقسیم ہوں، فواد چوہدری
ویب ڈیسک منگل 17 دسمبر 2019
1920052-fawadchx-1576570947-120-640x480.png

ایک دوسرے کو نیچا دکھانا کسی کے مفاد میں نہیں، وفاقی وزیر فوٹو:فائل

اسلام آباد: وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا ہے کہ ایسے فیصلوں کا کیا فائدہ جن سے ادارے تقسیم ہوں۔

وفاقی وزیر فواد چوہدری نے ٹوئٹر پر بیان میں کہا ہے کہ ایسے فیصلوں کا کیا فائدہ جن سے فاصلےاورتقسیم بڑھے اور قوم و ادارے تقسیم ہوں۔

فواد چوہدری نے کہا کہ وقت کے تقاضے ہوتے ہیں ملک کو جوڑنے کی ضرورت ہے، مسلسل کہہ رہا ہوں گفتگو کی ضرورت ہے، نئے معاہدے (New Deal) کی طرف جائیں، ایک دوسرے کو نیچا دکھانا کسی کے مفاد میں نہیں، ملک پر رحم کریں۔
اس پر ایک کمنٹ کرنے کا دل چاہ رہا ہے جو الف نظامی اکثر کیفیت نامے میں پوسٹ کرتے ہیں۔
 
پاء غفور کی پریس ریلیز پر ایک جاندار تبصرہ ;)

ایک شخص کا بھائی انتقال کر گیا تو قبرستان میں زارو قطار رو رہا تھا۔ لو گوں نے تسلی دی تو وہ بولا مجھے بھائی کے مرنے سے زیادہ غم یہ ہے کہ موت کا فرشتہ گھر دیکھ گیا ہے۔

۔۔۔

منقول
 

جاسم محمد

محفلین
پاء غفور کی پریس ریلیز پر ایک جاندار تبصرہ ;)

ایک شخص کا بھائی انتقال کر گیا تو قبرستان میں زارو قطار رو رہا تھا۔ لو گوں نے تسلی دی تو وہ بولا مجھے بھائی کے مرنے سے زیادہ غم یہ ہے کہ موت کا فرشتہ گھر دیکھ گیا ہے۔

۔۔۔

منقول
مریم نواز میڈیا سیل :)
 

جاسم محمد

محفلین
آل پاکستان مسلم لیگ کا پرویز مشرف کی سزا کیخلاف اپیل کرنے کا فیصلہ
210495_3822883_updates.jpg

پرویز مشرف کا ٹرائل غیر آئینی تھا اور سب سے زیادہ غیر آئینی طریقے سے اس کیس کی سماعت کی گئی،مہرین ملک، فوٹو:فائل

آل پاکستان مسلم لیگ (اے پی ایم ایل)کی جنرل سیکرٹری مہرین ملک آدم نے کہا ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف سزا انہیں سنے بغیر سنائی گئی، اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اے پی ایم ایل کی جنرل سیکرٹری مہرین ملک آدم نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف بار بار درخواست کرتے رہے ہیں کہ سزا ان کی غیرموجودگی میں نہ سنائی جائے اور انہیں خصوصی عدالت میں دفاع کا حق دیا جائے۔

مہرین ملک آدم کا کہنا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ پرویز مشرف کا ٹرائل غیر آئینی تھا اور سب سے زیادہ غیر آئینی طریقے سے اس کیس کی سماعت کی گئی۔

اے پی ایم ایل کی رہنما کا کہنا تھا کہ خصوصی عدالت کی طرف سے دیے گئے یکطرفہ فیصلے پر تحفظات ہیں، قانونی ٹیم سے مشاورت کررہے ہیں، جلد اپنی حکمت عملی کا اعلان کریں گے۔

آل پاکستان مسلم لیگ کی جنرل سیکرٹری نے کہا کہ قانون کے پابند شہری کے طور پر پرویز مشرف تمام عدالتوں میں پیش ہوئے، ان کے خلاف بنائے گئے تمام کیسز بدنیتی پر مبنی ہیں، سابق صدر کو انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

انہوں نےکہاکہ پرویزمشرف کے خلاف کیس غلط طریقے سے بنایا گیا، کیس میں معاونین اور مددگاروں کو شامل نہیں کیا گیا اور سابق صدر کو واحد ذمہ دار قرار دیا گیا، حالانکہ یہ فیصلہ کابینہ، صوبائی وزرائے اعلٰی، گورنرز اور کورکمانڈرز کی مشاورت کے بعد کیا گیا تھا۔

سنگین غداری کیس میں پرویز مشرف کو سزائے موت
واضح رہے کہ اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت کا حکم سنا دیا ہے۔

چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ اور خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس وقار سیٹھ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کی اور جسٹس سیٹھ وقار نے چار سطروں پر مشتمل مختصر فیصلہ پڑھ کر سنایا۔



مختصر فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007 کو آئین پامال کیا اور ان پر آئین کے آرٹیکل 6 کو توڑنے کا جرم ثابت ہوتا ہے۔

فیصلے کے مطابق پرویز مشرف پر آئین توڑنے، ججز کو نظر بند کرنے، آئین میں غیر قانونی ترامیم، بطور آرمی چیف آئین معطل کرنے اور غیر آئینی پی سی او جاری کرنے کے آئین شکنی کے جرائم ثابت ہوئے۔

تین رکنی بینچ میں سے دو ججز نے سزائے موت کے فیصلے کی حمایت کی جب کہ ایک جج نے اس سے اختلاف کیا۔ نمائندہ جیو نیوز کے مطابق سندھ ہائیکورٹ کے جج نظر محمد اکبر نے فیصلے سے اختلاف کیا ہے۔

خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس سیٹھ وقار نے ریمارکس دیے کہ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
پاء غفور کی پریس ریلیز پر ایک جاندار تبصرہ ;)

ایک شخص کا بھائی انتقال کر گیا تو قبرستان میں زارو قطار رو رہا تھا۔ لو گوں نے تسلی دی تو وہ بولا مجھے بھائی کے مرنے سے زیادہ غم یہ ہے کہ موت کا فرشتہ گھر دیکھ گیا ہے۔

۔۔۔

منقول
شغل تو یہ لگا ہوا ہے کہ کل تک عدالتی فیصلوں کے احترام کا درس دینے والے آج کہہ رہے ہیں کہ عدالتیں غلط فیصلے دیتی ہیں۔
دوسرا شغل یہ کہ کل راولپنڈی میں ہونے والے ایک اجلاس میں ان افسران کی کان کھچائی کی گئی جن کی بنیادی ذمہ داری ججو‍ ں کو قابو میں رکھنے کی تھی۔
(مریم نواز واٹس ایپ گروپ)
 
مریم نواز میڈیا سیل :)
بخاری صاحبہ کا مریم نواز میڈیا سیل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ ایک جمہوری رضاکار ہیں۔ اور اگر خاندانی پس منظر کے حساب سے دیکھا جائے تو پھر تو انھیں پاء غفور ٹیم کا حصہ ہونا چاہیے کہ ایک میجر جنرل کی بیٹی ہیں۔
 
جاسم بھائی بات یہ ہے کہ سیاستدان جتنے کرپٹ، غنڈے بدمعاش ہوں، منتخب انھیں یہی عوام کرتی رہی ہے۔ یا پھر انھی اداروں کی مدد سے آتے رہے ہیں۔
آرٹیکل-6 کہتا ہے کہ

1۔ کوئی شخص جو طاقت کے استعمال سے یا دیگر غیر آئینی ذریعے سے دستور کی تنسیخ کرے یا تنسیخ کرنے کی سعی یا سازش کرے، تخریب کرے یا تخریب کرنے کی سعی یا سازش کرے سنگین غداری کا مجرم ہو گا۔
2۔ کوئی شخص جو شق ایک میں مذکورہ افعال میں مدد دے گا یا معاونت کرے گا،اسی طرح سنگین غداری کا مجرم ہوگا۔
3۔ مجلس شوریٰ پارلیمنٹ بذریعہ قانون ایسے اشخاص کے لئے سزا مقرر کرے گی جنہیں سنگین غداری کا مجرم قرار دیا گیا ہے۔

تو اس ضمن میں جوابی طور پر کرپٹ سیاستدانوں کا رونا ڈالنا قطعی غیر متعلقہ بات ہے۔

دوسری بات یہ کہ جب ایک فرد طاقت کے زور پر مندرجہ بالا کام کرتا ہے تو عوام یا خواص کی بڑی تعداد طاقت نہ ہونے کی وجہ سے یا مفادات حاصل کرنے کے لیے اس کی تابع ہو جاتی ہے۔ کم ہی لوگ مزاحمت یا عزیمت کی راہ اختیار کرنے والے ہوتے ہیں۔
طاقت کے زور پر آئین توڑنے والا اور اس کے زور کے ڈر سے یا سائے میں اس کا ساتھ دینے والا ہرگز برابر نہیں گردانے جا سکتے۔
دوسری شق میں وہ افراد گنے جائیں گے جنھوں نے آئین توڑنے میں مدد کی ہو۔ نہ کہ طاقت سے ڈر کر اس کا ساتھ دینے والے، یا مفاد کی وجہ سے ساتھ دینے والے۔
 
جی بھائی۔ آئین پاکستان کو ردی کا ٹکڑا کہنے والوں کے کل اپنے ٹوٹے ٹوٹے ہو گئے :)
ابھی چند ہفتے پہلے ہی دو فوجی افسران کو غداری کے الزام میں سزائے موت اور عمر قید کی سزا سنانے والے کہہ رہے کہ فوجی غدار نہیں ہو سکتا۔ سبحان اللہ۔
 

جاسم محمد

محفلین
ابھی چند ہفتے پہلے ہی دو فوجی افسران کو غداری کے الزام میں سزائے موت اور عمر قید کی سزا سنانے والے کہہ رہے کہ فوجی غدار نہیں ہو سکتا۔ سبحان اللہ۔
بھائی فوجی فاؤنڈوشن کو اصل تکلیف سابق آرمی چیف کو غدار ڈکلیئر کرکے سزا سنانے پر نہیں بلکہ اس پریشانی پر ہے کہ سول عدالتیں ان کے کنٹرول سے باہر ہو گئی ہیں۔ تاریخ میں پہلی بار مختلف ججز عوام کو کھلے عام بتا رہے ہیں کہ ان کو ایجنسیاں کس کس طرح دباؤ میں لاتی ہیں۔
 
میں آرٹیکل 6 میں ایک معمولی تبدیلی تجویز کرتا ہوں، تاکہ آئندہ یہ گستاخ آرٹیکل حائل نہ ہو سکے۔
پہلی اور دوسری شق کے آغاز میں "آرمی کے علاوہ" کا اضافہ کر دیا جائے۔
 
میں آرٹیکل 6 میں ایک معمولی تبدیلی تجویز کرتا ہوں، تاکہ آئندہ یہ گستاخ آرٹیکل حائل نہ ہو سکے۔
پہلی اور دوسری شق کے آغاز میں "آرمی کے علاوہ" کا اضافہ کر دیا جائے۔
ہمیں پہلے ابو کی ایکسٹینشن کی ٹینشن دور کر لینے دیجیے۔ پلیز پلیز پلیز ;)
 

آورکزئی

محفلین
اٹارنی جنرل انور منصور اگر اس وقت جنرل نیازی کے سامنے بھونکتا تو ملکی صورت حال کچھ اور ہوتا۔۔۔
انور منصور 71ء میں ہتھیار ڈالنے والوں میں سے ہے
 
Top