اسلام اور شجر کاری

الف نظامی

لائبریرین
اسلام اور شجر کاری
( حاجی محمد حنیف طیب )​
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شجر سایہ دار کو کاٹنے، جلانے اور اسے کسی بھی طرح برباد کرنے یا نقصان پہنچانے سے سختی سے منع فرمایا ہے۔ کتب احادیث میں اکثر مقامات پر آیا ہے کہ جب کبھی حضور نبی کریم کفار سے جنگ کے لئے مجاہدین اسلام کو روانہ فرماتے تو انہیں جو ہدایات جاری فرماتے تھے ان میں ایک ہدایت یہ بھی ہوتی تھی کہ ثمر دار اشجار، یعنی پھل دار درخت ہر گز نہ کاٹے جائیں اور نہ ہی کسی قیمت پر سرسبز و شادات باغات و کھیت کاٹے یا اجاڑے جائیں اور نہ ہی اجناس یا کھانے پینے کی چیزوں کی بے حرمتی کی جائے۔
پھل دار درخت نعمت الہیہ میں سے ہیں اور قرآن کریم نے بھی کئی پھلوں اور درختوں کا ذکر فرمایا ہے۔ انہیں جنت کے درخت اور پھل قرار دیا گیا ہے اور انہیں انسان کے لئے نعمت اخروی بتایا گیا ہے۔ گویا پھل دار درخت اور شجر سایہ دار کو تحفظ دیا جانا ضرور ی ہے۔ جیسا کہ سدرة المنتہی کے بارے میں ہے کہ یہ بیری کے درخت کے زیر سایہ مسکن جبرئیل ہے، یہ سب رب تعالیٰ کی نشانیاں ہیں۔

انسان کا دل بھی ایک درخت کی مانند ہے۔ یہ وہ شجر سایہ دار ہے کہ اس میں اگر بدی کا بیج بو دیا جائے تو اس کے بعد جو درخت اُگے گا وہ شجر بد یا خراب درخت کہلائے گا اور اگر اچھے اور عمدہ بیج ڈالے جائیں گے یعنی حسن و عمل و اخلاق و کردار سے مزین پھوٹے گا تو وہ شجر ایسا سایہ دار ہوگا کہ اس کی گھنی چھاوں میں ایک عالم سکون پائے گا اور زندگی کا سرور آئے گا۔ یہی سکون و سرور عالم خود اس شخص کے لئے آخری کا ثمر عمل بن جائے گا۔
اچھے اور عمدہ عمل و کردار کیا ہیں؟ رب تعالیٰ کا فرمان ہے
”اطاعت کرو، اللہ کی اور اطاعت کرو اس کے رسول کی”۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بڑھ کر رب تعالیٰ کا اطاعت گزار اور وفا شعار کوئی نہیں اور جو اپنے کردار کو، اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے احکامات، عمل اور کردار کے مطابق ڈھال لے گا تو یقیناً وہی کامیاب و کامران ہے۔ یہ کامرانی دراصل اسی کو نصیب ہوتی ہے جو اپنے دل کو عشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کاشانہ بنا لیتا ہے۔ جب اس کا دل عشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خزینہ بن جاتا ہے تو لوگوں کے لئے یہ ایک شجر سایہ دار ہوتا ہے کہ لوگ اس سے فیض پاتے ہیں اور عشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں اس کے گرویدہ اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے شیدائی بنتے چلے جاتے ہیں۔
یہ سب کچھ محض ایک گوشہ دل میں نقطہ نور محبت کے طلوع کے سبب ہوتا ہے۔ یہ انعام رب جلیل ہے، وہ جسے چاہتا ہے اسے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عشق سے نوازتا ہے بلکہ جس کے ارض قلبی میں نمی ہوتی ہے وہی تخم حب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پاتی ہے۔
قرآن کریم میں حضرت لقمان علیہ السلام کی اپنے بیٹے کو وصیت بھی اس حوالے سے موجود ہے کہ
”بیٹا دل میں جو بیج بویا جاتا ہے وہی اُگتا ہے”
دل بھی ایک زمین کی مانند ہے جس میں عمل و کردار، اخلاق و محبت کے بیج بوئے جاتے اور درخت لگائے جاتے ہیں جس شخص کے دل کی زمین بنجر ہو جائے تو پھر اسے کاٹنے یا جلانے کی ضرورت نہیں رہتی بلکہ یہ از خود پژ مردہ و مضمحل ہو کر سوکھ جاتا ہے۔
یاد رکھیے! دل کی کھیتی اسی وقت ہری بھری رہے گی جس اس میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، صحابہ کرام، اولیائے کرام، بزرگان دین اور مشائخ عظام کی محبت زندہ رہے گی کہ یہی لوگ اصل میں دلوں کے مالک ہیں اور دل انہی کے سبب شجر سایہ دار ہیں جسے کوئی بھی قوت شکست نہیں دے سکتی اور انہی کی خوشبو سے دل معطر رہتے ہیں۔ یہ تو معروف ہے کہ اگر دنیا کی کھیتی سوکھ جائے تو انسان کو صرف بھوک تنگ کرے گی لیکن اگر دل کی کھیتی خشک ہو جائے تو پھر اس کی سارشی عقبیٰ برباد اور تمام حیات و دنیاوی و اخروی جلنے اور مرنے میں گزرے گی۔ لہٰذا دنیا کے ہرے بھرے ثمر دار درخت کاٹ کر انہیں برباد کرکے لوگوں کا رزق تنگ نہ کرو اور نہ ہی شجر سایہ دار جلا کر لوگوں کو ان کے سائے سے محروم کرو۔ ایسا نہ ہو کہ آخرت میں رب تعالیٰ ہمیں اس دنیاوی پاداش میں اپنے سائے سے محروم کردے اور ہمارے دلوں کی کھیتی کو اجاڑ دے۔ جرم چھوٹا ہو یا بڑا جرم ہی ہوتا ہے۔ بعض دفعہ چھوٹے جرم کی سزا بھی بڑی ہوتی ہے لہٰذا اس سے بچنے کے لئے اپنے دل میں ایسا شجر سایہ دار لگاو جو حسنات و احسانات کا ثمردار ہو اور جس سے لوگ سایہ بھی حاصل کریں اور پھل بھی کہ یہی عمل صدقہ جاریہ ہے۔​
 
Top