اسلام اور سوشلزم کا موازنہ

إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ
بیشک دین اللہ تعالٰی کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے
اسلام میں بنیادی حقیقت وجود باری تعالٰی اور عقیدہ توحید و رسالت ہے
سوشلزم وجود باری تعالی کا منکر ہے اور مادہ کو اولیت دیتا ہے

اسلام ہر شعبہ زندگی میں انبیآء علیہم السلام کے بتائے ہوئے اصولوں کو اپنانے کی دعوت دیتا ہے
سوشلزم ہر قدم پر مادہ پرستی کی رغبت دیتا ہے اور اس کا روحانیت سے کوئی تعلق نہیں

اسلام کا طریق کار اخلاق و تہذیب کا پابند ہے
سوشلزم توڑ پھوڑ املاک کی بربادی اور جانوں کے ضیاع کا قائل ہے

اسلام میں زندگی کی راہیں محض عقل و تجربہ سے نہیں بلکہ شریعت کی روشنی میں طے پاتی ہیں
سوشلزم کی نگاہ میں عقل فیصلہ کن قوت ہے اسے کسی بیرونی راہنمائی کی ضرورت نہیں

اسلام جمہوری اور شورائی نعمتوں سے معمور ہے
سوشلزم آمریت اور ڈکٹیٹر شپ کو جنم دیتا ہے

اسلام فرد کی انفرادی حیثیت کو تسلیم کرتا ہے
سوشلزم کی نظر میں فرد کی انفرادیت کی کوئی حقیقت نہیں

اسلام اخلاق و تہذیب کا اعلٰی داعی ہے
سوشلزم اخلاق و مذھب کو ایک ڈھونگ تصور کرتا ہے

اسلام دولت کی منصفانہ تقسیم کر کے عدل قائم کرتا ہے
سوشلزم تمام وسائل دولت حکومت کو دے کر لوگوں کو مفلس اور بے بس بناتا ہے

اسلام اللہ تعالٰی اور اس کے حبیب رحمت عالم صلٰی اللہ علیہ وسلم کا محبوب و پسندیدہ دین ہے
سوشلزم لینن اور مارکس کی ایجاد ہے

اسلام کا مرکز مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ ہے
سوشلزم کا مرکز پیکنگ اور ماسکو ہے

اسلام کا بنیادی مآخد قرآن پاک ہے اور اس کے قواعد و ضوابط خود خالق کائنات نے بنائے ہیں
سوشلزم کی بنیاد کتاب سرمایہ ہے اور اس کے اصول کتاب کے مصنف مارکس نے وضع کیے ہیں

اسلام درگزرومعافی کا درس دیتا ہے بعد فتح مکہ حضور علیہ السلام نے دشمنوں کو معاف فرمایا
سوشلزم کے پجاری کسی علاقے پر قابض ہو جائیں تو مخالفین کو درد ناک سزائیں دیتے ہیں
 

مؤثرہ

محفلین
إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ

بیشک دین اللہ تعالٰی کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے
اسلام میں بنیادی حقیقت وجود باری تعالٰی اور عقیدہ توحید و رسالت ہے
سوشلزم وجود باری تعالی کا منکر ہے اور مادہ کو اولیت دیتا ہے

اسلام ہر شعبہ زندگی میں انبیآء علیہم السلام کے بتائے ہوئے اصولوں کو اپنانے کی دعوت دیتا ہے
سوشلزم ہر قدم پر مادہ پرستی کی رغبت دیتا ہے اور اس کا روحانیت سے کوئی تعلق نہیں

اسلام کا طریق کار اخلاق و تہذیب کا پابند ہے
سوشلزم توڑ پھوڑ املاک کی بربادی اور جانوں کے ضیاع کا قائل ہے

اسلام میں زندگی کی راہیں محض عقل و تجربہ سے نہیں بلکہ شریعت کی روشنی میں طے پاتی ہیں
سوشلزم کی نگاہ میں عقل فیصلہ کن قوت ہے اسے کسی بیرونی راہنمائی کی ضرورت نہیں

اسلام جمہوری اور شورائی نعمتوں سے معمور ہے
سوشلزم آمریت اور ڈکٹیٹر شپ کو جنم دیتا ہے

اسلام فرد کی انفرادی حیثیت کو تسلیم کرتا ہے
سوشلزم کی نظر میں فرد کی انفرادیت کی کوئی حقیقت نہیں

اسلام اخلاق و تہذیب کا اعلٰی داعی ہے
سوشلزم اخلاق و مذھب کو ایک ڈھونگ تصور کرتا ہے

اسلام دولت کی منصفانہ تقسیم کر کے عدل قائم کرتا ہے
سوشلزم تمام وسائل دولت حکومت کو دے کر لوگوں کو مفلس اور بے بس بناتا ہے

اسلام اللہ تعالٰی اور اس کے حبیب رحمت عالم صلٰی اللہ علیہ وسلم کا محبوب و پسندیدہ دین ہے
سوشلزم لینن اور مارکس کی ایجاد ہے

اسلام کا مرکز مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ ہے
سوشلزم کا مرکز پیکنگ اور ماسکو ہے

اسلام کا بنیادی مآخد قرآن پاک ہے اور اس کے قواعد و ضوابط خود خالق کائنات نے بنائے ہیں
سوشلزم کی بنیاد کتاب سرمایہ ہے اور اس کے اصول کتاب کے مصنف مارکس نے وضع کیے ہیں

اسلام درگزرومعافی کا درس دیتا ہے بعد فتح مکہ حضور علیہ السلام نے دشمنوں کو معاف فرمایا
سوشلزم کے پجاری کسی علاقے پر قابض ہو جائیں تو مخالفین کو درد ناک سزائیں دیتے ہیں
بہت اچھے
 

ساجد

محفلین
ابو حذیفہ عباسی صاحب ، تقابل پیش کرنے کا شکریہ ۔
سوشل ازم کو اسلام کے مقابل رکھ کر موازنہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ دین اور ازم میں بنیادی فرق یہی ہے کہ اول الذکر اللہ تعالی کی عطا ہوتا ہے اور آخر الذکر انسانی ذہن کی ایجاد۔ البتہ دنیا کے اقتصادی نظام کو چلانے میں سوشلزم اور سرمایہ دارانہ نظام کے درمیان مسابقہ جاری رہتا ہے لیکن ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں اس پر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ مال و زر اور آجر و اجیر کے متعلق اسلام کی تعلیمات ان دونوں نظام ہائے مال سے کہیں زیادہ متوازن اور اعلی ہیں بلکہ ان دونوں نظاموں میں انہی تعلیمات کے سنہرے اصولوں سے لی گئی باتیں بھی شامل ہیں۔ اگر ہم اپنے شعبہ ہائے زندگی میں اسلامی تعلیمات کا نفاذ کر لیں تو ہم بہت بہتر انداز میں ہمہ جہت دنیاوی ترقی سے مستفید ہو سکتے ہیں ۔
 

سعود الحسن

محفلین
إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ
بیشک دین اللہ تعالٰی کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے
اسلام میں بنیادی حقیقت وجود باری تعالٰی اور عقیدہ توحید و رسالت ہے
سوشلزم وجود باری تعالی کا منکر ہے اور مادہ کو اولیت دیتا ہے

اسلام ہر شعبہ زندگی میں انبیآء علیہم السلام کے بتائے ہوئے اصولوں کو اپنانے کی دعوت دیتا ہے
سوشلزم ہر قدم پر مادہ پرستی کی رغبت دیتا ہے اور اس کا روحانیت سے کوئی تعلق نہیں

اسلام کا طریق کار اخلاق و تہذیب کا پابند ہے
سوشلزم توڑ پھوڑ املاک کی بربادی اور جانوں کے ضیاع کا قائل ہے

اسلام میں زندگی کی راہیں محض عقل و تجربہ سے نہیں بلکہ شریعت کی روشنی میں طے پاتی ہیں
سوشلزم کی نگاہ میں عقل فیصلہ کن قوت ہے اسے کسی بیرونی راہنمائی کی ضرورت نہیں

اسلام جمہوری اور شورائی نعمتوں سے معمور ہے
سوشلزم آمریت اور ڈکٹیٹر شپ کو جنم دیتا ہے

اسلام فرد کی انفرادی حیثیت کو تسلیم کرتا ہے
سوشلزم کی نظر میں فرد کی انفرادیت کی کوئی حقیقت نہیں

اسلام اخلاق و تہذیب کا اعلٰی داعی ہے
سوشلزم اخلاق و مذھب کو ایک ڈھونگ تصور کرتا ہے

اسلام دولت کی منصفانہ تقسیم کر کے عدل قائم کرتا ہے
سوشلزم تمام وسائل دولت حکومت کو دے کر لوگوں کو مفلس اور بے بس بناتا ہے

اسلام اللہ تعالٰی اور اس کے حبیب رحمت عالم صلٰی اللہ علیہ وسلم کا محبوب و پسندیدہ دین ہے
سوشلزم لینن اور مارکس کی ایجاد ہے

اسلام کا مرکز مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ ہے
سوشلزم کا مرکز پیکنگ اور ماسکو ہے

اسلام کا بنیادی مآخد قرآن پاک ہے اور اس کے قواعد و ضوابط خود خالق کائنات نے بنائے ہیں
سوشلزم کی بنیاد کتاب سرمایہ ہے اور اس کے اصول کتاب کے مصنف مارکس نے وضع کیے ہیں

اسلام درگزرومعافی کا درس دیتا ہے بعد فتح مکہ حضور علیہ السلام نے دشمنوں کو معاف فرمایا
سوشلزم کے پجاری کسی علاقے پر قابض ہو جائیں تو مخالفین کو درد ناک سزائیں دیتے ہیں



میرے بھائی کچھ لکھنے سے پہلے پڑھ لینے میں کوئی حرج نہیں ہوتا ، تنقید بھی آپ کا حق ہے ، تقابل بھی کریں، لیکن بندہ جب دو چیزوں کا بھی تقابل کرتا ہے تو دو نوں چیزوں کو دیکھ اور پرکھ لیتا ہے ، اور اگر خود دیکھنے کی حالت میں نہ ہو دونوں کے متعلق مطالعہ کر لیتا ہے ، سمجھ لیتا ہے ۔ بغیر دشمن کا نام جانے تو بندہ دشمن کو بھی برا بھلا کہنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہوتا۔

میرے بھائی یہ سب لکھنے یا کاپی کرنے سے پہلے آپ اگر یہ سمجھ لیتے کہ سوشلزم کیا ہے نظریہ کس نے دیا کب دیا تو بہتر ہوتا ۔

میں آپ کو ایک مشورہ دیتا ہوں اگر آپ واقعی میں اسلام کو سوشلزم سے بہتر سمجھتے ہیں ( جو کہ سچ ہے اور میرا یقین اور ایمان بھی) تو سوشلزم کے بارے میں پہلے تھوڑا پڑھ لیں اور پھر اس پوسٹ کو دوبارہ لکھیں تاکہ یہ تحریر دنیا میں کو بھی پڑھے اور کہیں بھی پڑھے تو وہ بھی اس سے اتفاق کرے نہ کہ مسلمانوں کی کم علمی کا مذاق اڑائے۔ امید ہے آپ میری بات کا برا نہیں مانے گے ، اگر کو راہنمائی چاہے تو میں حاضر ہوں۔
 
میرے بھائی کچھ لکھنے سے پہلے پڑھ لینے میں کوئی حرج نہیں ہوتا ، تنقید بھی آپ کا حق ہے ، تقابل بھی کریں، لیکن بندہ جب دو چیزوں کا بھی تقابل کرتا ہے تو دو نوں چیزوں کو دیکھ اور پرکھ لیتا ہے ، اور اگر خود دیکھنے کی حالت میں نہ ہو دونوں کے متعلق مطالعہ کر لیتا ہے ، سمجھ لیتا ہے ۔ بغیر دشمن کا نام جانے تو بندہ دشمن کو بھی برا بھلا کہنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہوتا۔

میرے بھائی یہ سب لکھنے یا کاپی کرنے سے پہلے آپ اگر یہ سمجھ لیتے کہ سوشلزم کیا ہے نظریہ کس نے دیا کب دیا تو بہتر ہوتا ۔

میں آپ کو ایک مشورہ دیتا ہوں اگر آپ واقعی میں اسلام کو سوشلزم سے بہتر سمجھتے ہیں ( جو کہ سچ ہے اور میرا یقین اور ایمان بھی) تو سوشلزم کے بارے میں پہلے تھوڑا پڑھ لیں اور پھر اس پوسٹ کو دوبارہ لکھیں تاکہ یہ تحریر دنیا میں کو بھی پڑھے اور کہیں بھی پڑھے تو وہ بھی اس سے اتفاق کرے نہ کہ مسلمانوں کی کم علمی کا مذاق اڑائے۔ امید ہے آپ میری بات کا برا نہیں مانے گے ، اگر کو راہنمائی چاہے تو میں حاضر ہوں۔
 
السلام علیکم سعود بھائی۔ احسن وانسب یہ تھا کہ غلطی کی نشاندہی کر کے تصحیح اور جہاں کہیں فی الواقع تقابل میں تشنگی تھی اس کی تکمیل کر دی جاتی
 
میرے بھائی کچھ لکھنے سے پہلے پڑھ لینے میں کوئی حرج نہیں ہوتا ، تنقید بھی آپ کا حق ہے ، تقابل بھی کریں، لیکن بندہ جب دو چیزوں کا بھی تقابل کرتا ہے تو دو نوں چیزوں کو دیکھ اور پرکھ لیتا ہے ، اور اگر خود دیکھنے کی حالت میں نہ ہو دونوں کے متعلق مطالعہ کر لیتا ہے ، سمجھ لیتا ہے ۔ بغیر دشمن کا نام جانے تو بندہ دشمن کو بھی برا بھلا کہنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہوتا۔

میرے بھائی یہ سب لکھنے یا کاپی کرنے سے پہلے آپ اگر یہ سمجھ لیتے کہ سوشلزم کیا ہے نظریہ کس نے دیا کب دیا تو بہتر ہوتا ۔

میں آپ کو ایک مشورہ دیتا ہوں اگر آپ واقعی میں اسلام کو سوشلزم سے بہتر سمجھتے ہیں ( جو کہ سچ ہے اور میرا یقین اور ایمان بھی) تو سوشلزم کے بارے میں پہلے تھوڑا پڑھ لیں اور پھر اس پوسٹ کو دوبارہ لکھیں تاکہ یہ تحریر دنیا میں کو بھی پڑھے اور کہیں بھی پڑھے تو وہ بھی اس سے اتفاق کرے نہ کہ مسلمانوں کی کم علمی کا مذاق اڑائے۔ امید ہے آپ میری بات کا برا نہیں مانے گے ، اگر کو راہنمائی چاہے تو میں حاضر ہوں۔
جناب فاضل ابو حذیفہ عباسی صاحب نے تقابلہ مختلف پہلو و جہت مختلفہ سے پیش کرتے ہوئے اول الکلام "بیشک دین اللہ تعالٰی کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے" کو موضوع بیان بنایا ہے جو کہ منصوص ہے۔ اگرکوئی جہت عقلاً معارض بھی ٹھرے تو صاحب ایمان کے لیے دین اسلام کی برتری بصورت تقابلہ بیان کرنا مستحسن ہے۔ اگرچہ عقل سلیم سے سوشلزم کو بھی کچھ معمولی واسطہ فی الواقع ممکن ہے مگر بطور دین یا عملی مذھب سوشلزم کی کوئی حیثیت نہیں۔ تو آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ " بندہ جب دو چیزوں کا بھی تقابل کرتا ہے تو دو نوں چیزوں کو دیکھ اور پرکھ لیتا ہے" کیا ایمان کو نظر سے دیکھا اور عقل سے پرکھا جا سکتا ہے؟؟؟ اگرسوشلزم کی کوئی شق موافق عقل سلیم ہھی ہو تو کیا اس موافقت کی بناء پر تقابلہ ناپسندیدہ ہو جائے گا؟ ؟؟ جناب اسلام کی برتری کو کسی کے اتفاق کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
کمال ہے کہ اگر کوئی سوشلزم کو نہ پڑھے تو ِاسے تو کم علمی کا مذاق سمجھا جائے۔ اور اگر کوئی اسلام کو نہ پڑھے تو ِاسے کم علمی سمجھا ہی نہ جائے۔
آپ کے اسلوب کلام میں جواب لکھنے پر معذرت۔
 

سعود الحسن

محفلین
إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ
بیشک دین اللہ تعالٰی کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے
اسلام میں بنیادی حقیقت وجود باری تعالٰی اور عقیدہ توحید و رسالت ہے
سوشلزم وجود باری تعالی کا منکر ہے اور مادہ کو اولیت دیتا ہے

اسلام ہر شعبہ زندگی میں انبیآء علیہم السلام کے بتائے ہوئے اصولوں کو اپنانے کی دعوت دیتا ہے
سوشلزم ہر قدم پر مادہ پرستی کی رغبت دیتا ہے اور اس کا روحانیت سے کوئی تعلق نہیں

اسلام کا طریق کار اخلاق و تہذیب کا پابند ہے
سوشلزم توڑ پھوڑ املاک کی بربادی اور جانوں کے ضیاع کا قائل ہے

اسلام میں زندگی کی راہیں محض عقل و تجربہ سے نہیں بلکہ شریعت کی روشنی میں طے پاتی ہیں
سوشلزم کی نگاہ میں عقل فیصلہ کن قوت ہے اسے کسی بیرونی راہنمائی کی ضرورت نہیں

اسلام جمہوری اور شورائی نعمتوں سے معمور ہے
سوشلزم آمریت اور ڈکٹیٹر شپ کو جنم دیتا ہے

اسلام فرد کی انفرادی حیثیت کو تسلیم کرتا ہے
سوشلزم کی نظر میں فرد کی انفرادیت کی کوئی حقیقت نہیں

اسلام اخلاق و تہذیب کا اعلٰی داعی ہے
سوشلزم اخلاق و مذھب کو ایک ڈھونگ تصور کرتا ہے

اسلام دولت کی منصفانہ تقسیم کر کے عدل قائم کرتا ہے
سوشلزم تمام وسائل دولت حکومت کو دے کر لوگوں کو مفلس اور بے بس بناتا ہے

اسلام اللہ تعالٰی اور اس کے حبیب رحمت عالم صلٰی اللہ علیہ وسلم کا محبوب و پسندیدہ دین ہے
سوشلزم لینن اور مارکس کی ایجاد ہے

اسلام کا مرکز مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ ہے
سوشلزم کا مرکز پیکنگ اور ماسکو ہے

اسلام کا بنیادی مآخد قرآن پاک ہے اور اس کے قواعد و ضوابط خود خالق کائنات نے بنائے ہیں
سوشلزم کی بنیاد کتاب سرمایہ ہے اور اس کے اصول کتاب کے مصنف مارکس نے وضع کیے ہیں

اسلام درگزرومعافی کا درس دیتا ہے بعد فتح مکہ حضور علیہ السلام نے دشمنوں کو معاف فرمایا
سوشلزم کے پجاری کسی علاقے پر قابض ہو جائیں تو مخالفین کو درد ناک سزائیں دیتے ہیں


اصل میں پہلی غلطی تو یہ ہی ہے کہ اسلام کو جو کہ ایک دین ہے اور تقریبا تمام انسانی ؎معاملات کا احاطہ کر تا ہے کا موازنہ سوشلزم سے کیا جاے جو کہ صرف کچھ سیاسی اور معاشی پہلوں کا احاطہ کرتا ہے۔

دوسری غلطی آپ نے نام تو سوشلزم کا لیا ہے لیکن حوالہ کمیونزم کا دیا ہے۔ سوشلزم ایک پرانا نظریہ ہے جسے مختلف افراد مختلف اوقات میں مختلف تفصیلات کے ساتھ پیش کرتے رہے، جس کی بنیاد سیاسی طور پر یہ ہے کہ معاشرہ (ریاست) کو فرد پر فوقیت ہے ، اور اگر ریاست کا انتظام بہتر طور پر چلانا ہے تو تمام طرح کے ملکیتی حقوق ریاست کے پاس ہونے چاہیں اور فرد کو ریاست کے ایک آلہ یا ٹول کے طور پر استعمال کیا جانا چاہیے۔ اس نظریہ کا حوالہ ارسطو اور دوسرے یونانی فلاسفروں تک پہنچایا جاتا ہے، ابتدا یہ ایک سیاسی نظریہ تھا جس کا مقصد بادشاہوں کو مضبوط کرنا تھا ۔ بعد میں جب بادشاہتیں کمزور ہونے لگیں اورکر انقلاب فرانس کے بعد مزدور اور مڈل کلاس کو محسوس ہونے لگا کہ انقلاب کے ذریعہ وہ بھی اقتدارا تک پہنچ سکتے ہیں ، تو مختلف فلاسفرز نے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف اسے ایک متبادل سیاسی اور معاشی نظام کے طور پر اپنے اپنے انداز اور تفصیلات کے ساتھ پیش کیا۔ مارکس ان میں سے ایک تھا ، اس نے داس کیپیٹل نامی کتاب کے زریعہ سرمایہ دارانہ نظام معیشت پر تنقید کی اس کی خامیاں بیان کی اور ریاستی ملکیت کا متبادل معاشی نظام پیش کیا جبکہ اپنی کتاب کمیونسٹ مینی فیسٹو کے ذریعے متبادل سیاسی نظام پیش کیا ۔ اس لیے سوشلزم کی اس برانچ کو کمیونزم کہا جاتا ہے۔

بعد میں مختلف علاقوں اور ملکوں میں اس نظریہ کو اپنی مقامی ضروریات اور قیادت کی مرضی سے تبدیل کیا جاتا رہا کہیں لینن ازم اور کیں ماوازم ، حتاکہ ایک ہی ملک میں حکمران کی تبدیلی سب کچھ تبدیل کر دیتی جیسےسویت یونین لینن ازم سٹالن نے ختم کردیا ۔ اصل بات یہ کہ سوشلزم یا کمیونزم ایک نظریہ ہے جسے کسی دوسرے نظریہ یا جیسا آپ نے اسلام سے موازنہ کیا (میرے خیال میں دونوں میں موازنہ کرنا ہی ہے تو آپ صرف اسلام کے سیاسی اور معاشی نظام سے کر سکتے ہیں نہ کہ پورے اسلام سے)، تو امانداری کا تقاضہ یہ ہے کہ یا تو اسلام کی تعلیمات کا موازنہ کمیونزم کی تعلیمات سے کریں یا پھر مسلمانوں کا موازنہ کمیونسٹوں سے کریں ۔
 

سعود الحسن

محفلین
اب ذرا دیکھیے کے آپ کے تقابل میں کہاں خامیاں ہیں؟
اسلام میں بنیادی حقیقت وجود باری تعالٰی اور عقیدہ توحید و رسالت ہے
سوشلزم وجود باری تعالی کا منکر ہے اور مادہ کو اولیت دیتا ہے

جیسا کہ میں نے کہا کہ سوشلزم کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے ، البتہ جیسا کہ اس وقت کہ یورپ میں چرچ کو بادشاہوں اور سرمایہ داروں کا آلہ کار سمجھا جاتا تھا اور خود چرچ بھی بڑی بڑی جایئدادوں کے مالک تھے اور ان کی جائیدادوں پر کام کرنے والوں کے ساتھ وہ ہی سلوک ہوتا تھا جو دوسرے جاگیردار کرتے تھے لہذا ان ہو نے مذہب کو سرمایہ دار آنہ نظام کا ایک آلہ کار کہا اور اسے مسترد کردیا ، لیکن اس کا تعلق سوشلزم کے اصل نظریے سے نہیں ہے لہذا چین اور لاطینی امریکی سوشلسٹ ساتھ ساتھ عیسائی اور بدھسٹ بھی ہوتے ہیں۔

اسلام ہر شعبہ زندگی میں انبیآء علیہم السلام کے بتائے ہوئے اصولوں کو اپنانے کی دعوت دیتا ہے
سوشلزم ہر قدم پر مادہ پرستی کی رغبت دیتا ہے اور اس کا روحانیت سے کوئی تعلق نہیں

بلکل درست

اسلام کا طریق کار اخلاق و تہذیب کا پابند ہے
سوشلزم توڑ پھوڑ املاک کی بربادی اور جانوں کے ضیاع کا قائل ہے

یہ بھی غلط ہے ، نظریے کے طور پر سوشلزم ایک سوشلٹ سے بہترین کردار کی توقع کرتا ہے۔ ہاں سوشلٹ حکمران کیا کرتے رہے اس کی ذمہ داری سوشلزم پر نہیں ڈالی جاسکتی ۔ جیسے مسلمان حکمرانوں کے اعمال کا اسلام کی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں، چاہے وہ اموی ہو یا عباسی، عثمانی ہو یا مغل۔


اسلام میں زندگی کی راہیں محض عقل و تجربہ سے نہیں بلکہ شریعت کی روشنی میں طے پاتی ہیں
سوشلزم کی نگاہ میں عقل فیصلہ کن قوت ہے اسے کسی بیرونی راہنمائی کی ضرورت نہیں

درست

اسلام جمہوری اور شورائی نعمتوں سے معمور ہے
سوشلزم آمریت اور ڈکٹیٹر شپ کو جنم دیتا ہے

یہ بھی غلط ورنہ شروع کے چالیس سال چھوڑ کے مسلمانوں کے بھی صرف آمریت اور ڈکٹیٹر شپ ہی ملتی ہے۔


اسلام فرد کی انفرادی حیثیت کو تسلیم کرتا ہے
سوشلزم کی نظر میں فرد کی انفرادیت کی کوئی حقیقت نہیں

درست

اسلام اخلاق و تہذیب کا اعلٰی داعی ہے
سوشلزم اخلاق و مذھب کو ایک ڈھونگ تصور کرتا ہے

غلط جیسا کہ اوپر ڈسکس کیا گیا ہے خاص کر اخلاق کے حوالے سے۔

اسلام دولت کی منصفانہ تقسیم کر کے عدل قائم کرتا ہے
سوشلزم تمام وسائل دولت حکومت کو دے کر لوگوں کو مفلس اور بے بس بناتا ہے

بلکل غلط، خاص کر اسلام کے حوالے سے اگر منصفانہ تقسیم سے مراد اگر برابر کی تقسیم ہے تو بلکل ہی غلط ، اسلامی معشت صحت مند مقابلہ کی ترغیب دیتی ہے، ہاں البتہ سود پر پابندی، ذکات، بیت المال اور ریاستی نگھبانی کے ذریعے کمزورں اور غریبوں کے لیے بھی ایک کم از کم معیار زندگی کا معیار بھی قائم کرتی ہے۔

جبکہ سوشلزم وسائل کی منصفانہ تقسیم کو برابر برابر تقسیم کے طور پر پیش کرتا ہے جو نظریاتی طور پر تو خاصا پر کشش ہے لیکن عملی طور پر انسانی فطرت کے خلاف ہے۔


اسلام اللہ تعالٰی اور اس کے حبیب رحمت عالم صلٰی اللہ علیہ وسلم کا محبوب و پسندیدہ دین ہے
سوشلزم لینن اور مارکس کی ایجاد ہے

کمیونزم مارکس کا دیا ہوا نظریہ ہے

اسلام کا مرکز مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ ہے
سوشلزم کا مرکز پیکنگ اور ماسکو ہے

ماسکو تھا بلکہ پیکنگ کے لیے بھی تھا ہی کہا جانا چاہے کیونکہ اب تو انہوں نے بھی سوشلٹ معیشت تو تقریبا چھوڑ ہی دی ہے

اسلام کا بنیادی مآخد قرآن پاک ہے اور اس کے قواعد و ضوابط خود خالق کائنات نے بنائے ہیں
سوشلزم کی بنیاد کتاب سرمایہ ہے اور اس کے اصول کتاب کے مصنف مارکس نے وضع کیے ہیں

اصل کتاب کمیونسٹ مینی فیسٹو ہے

اسلام درگزرومعافی کا درس دیتا ہے بعد فتح مکہ حضور علیہ السلام نے دشمنوں کو معاف فرمایا
سوشلزم کے پجاری کسی علاقے پر قابض ہو جائیں تو مخالفین کو درد ناک سزائیں دیتے ہیں

یہ بھی غیر نظریاتی تقابل ہے ورنہ کئی مسلمان حکمران بھی اس ہی حوالے سے مشھور ہیں ، کھوپڑیوں کے مینار بھی تعمیر کیے۔



امید ہے کہ آپ میرا مقصد سمجھ گئے ہونگے ، "ایک اچھے مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ دشمن پر تنقید کرتے ہوے بھی ایماندار رہے"۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
اسلام جمہوری اور شورائی نعمتوں سے معمور ہے
سوشلزم آمریت اور ڈکٹیٹر شپ کو جنم دیتا ہے

یہ بھی غلط ورنہ شروع کے چالیس سال چھوڑ کے مسلمانوں کے بھی صرف آمریت اور ڈکٹیٹر شپ ہی ملتی ہے۔


۔
سعود بھائی زرااس بات پر بھی روشنی ڈالیے کہ اسلام میں کس حد تک جمہوریت ہے اور کس حد تک آمریت یا اسلا م ان دونوں میں سے فی نفسہ کس نظام کی اصلا حمایت کرتا ہے نیز اسلام جس جمہویرت کی بات کرتا ہے آیا وہ موجودہ جمہوری سسٹم ہے یا اس سے کچھ مختلف ہے وغیرہ وغیرہ
 
شریعت وہ پسندیدہ راستہ ہے جس کو اللہ تعالٰی نے اپنے بندوں کیلیے متعین کر دیا ہے اور اسلام وہ دین ہے جو رسول اللہ کی شریعت و سنت کے ساتھ خاص ہے
سیاسی پہلو و طریق ہو چاہے معاشی پہلو و طریق ہو یا کوئی اور پہلو و طریق ہر شخص باحیثیت "اطاعت بالاعتقاد" اپنا پنا دین رکھتا ہے اب اگر وہ طریق شریعت مصطفٰی صلٰی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہو تو اسلام ورنہ وہ دین غیر اسلام کہلاے گا۔ چنانچہ کتاب التعریفات میں ہے "دین اور مذھب متحد بالذات ہیں اور ان میں اعتباری فرق ہے کیونکہ شریعت با حیثیت اطاعت دین ہے جبکہ با حیثیت ضبط و تحریر ملت ہے اور جس حیثیت سے بھی اسکی طرف رجوع کیا جائے مذہب ہے (کتاب التعریفات، ص 47، مطبوعہ خیریہ مصر)"
قرآن میں شرک معتقدین کو بالخطاب کہا گیا لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ (109:6) "تم اپنے دین پر میں اپنے دین پر"
اب غور کیا جائے کہ انھیں شرک کرنے کا حکم اللہ نے تو نہیں دیا تھا انھوں نے عبادت میں غیر کی اطاعت بالاعتقاد کو اپنایا جو شریعت مصطفٰی کے مخالف ہے لہٰذا ان کا دین باطل ٹھرا اور دین غیر اسلام کہلایا۔ تو سوشلزم ہو کمیونزم ہو یا کوئی اور ازم ہو ان تمام ازم کے اعتقادی پیروکاروں کو بد مذھب و بے دین نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے؟

حضرت ابو شکور محمد بن عبد السید بن شعیب الکسیالحنفی السالمی جو کہ 5 صدی ہجری کے عالم ہیں اپنی کتاب "تمہید" میں راقم القلم ہیں۔
"جاننا چاہیے کہ اصول دین وہ اعتقاد اور شرائط ایمان کو قبول کرنا' احکام وغیرہ اور ہر وہ شئی کہ جس پر اعتقاد واجب ہے اور ہر وہ شئی کہ جو اللہ تعالٰی کے دین کے موافق اور محبوب و مرضی ہو یہاں تک کہ اگر بندہ خلاف دین کسی چیز کا ذکر کرے یا اس پر اعتقاد رکھے جو اللہ کی رضا و محبت کے خلاف ہو تو وہ کافرہو جائے گا"
آگے مزید لکھتے ہیں
" واجب ہے کہ مرضیات الٰہی اور مرضیات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دینًا (دین کے طور پہ) اور اعتقادًا پسند کرے اگرچہ طبعیت کے خلاف ہو اور اسی طرح مبغوضات الٰہی اور مبغوضیات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دینًا (دین کے طور پہ) اور اعتقادًا مبغوض سمجھے اگرچہ طبعیت کے خلاف ہو"
آگے مزید فرماتے ہیں
" اس لیے کہ اللہ تبارک تعالٰی نے عبادات و احکام و شرائع میں محنت اور آزمائش کو رکھا ہے کہ کون اوامر و نواہی الٰہی اور سنت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موافقت کرتا ہے اور کون مخالفت کرتا ہے"

کیا اسلام کا سوشلزم سے موازنہ یا تقابل کرنا قابل مذمت ہے؟؟؟
اللہ تعالٰی کی ذات وحدہ لا شریک اس کا حق عبادت مسلم ہے لیکن بت پرستوں کو عقل سلیم سے روشناس کرانے کے لیے اوربتوں کی حقارت کو بیان کرنے کے لیے خود قرآن میں ہی صفات باری تعالٰی کا موازنہ بتوں کے اوصاف سے مذکور ہے چہ جائے اسلام کا سوشلزم سے موازنہ مذموم ٹھرے
محض قیاس آرائیوں کو کیوں قابل التفات گردانہ جائے جبکہ کوئی دالیل مانع پاس موجود بھی نہ ہو اور سوشلیسٹز کی کتب و اصطلاحات کا مطالعہ کر کے اسلام کی دعوت عامہ کو سوشلزم سے مستشنٰی قرار دے دیا جائے؟؟؟؟؟؟
ارے بھائی اگر بالفرض اسلام کا موازنہ سوشلزم سے کرنا (اسلام ۔۔۔۔۔۔۔۔> سوشلزم) غیر ایمانداری اور غلطی ہے تو چاہیے تو یہ تھا کہ سوشلزم کا اسلام سے موازنہ کرنا (سوشلزم ۔۔۔۔۔۔۔۔> اسلام) بھی صحیح و عین ایمانداری نہ ٹھرے ، مگر سوشلزم پسند کو (اسلام ۔۔۔۔۔۔۔۔> سوشلزم) موازنہ میں خامیان نکالنا اور (سوشلزم ۔۔۔۔۔۔۔۔> اسلام) کا موازنہ پیش کرنا رواں رہے
جاری ہے
 

مؤثرہ

محفلین
جناب فاضل ابو حذیفہ عباسی صاحب نے تقابلہ مختلف پہلو و جہت مختلفہ سے پیش کرتے ہوئے اول الکلام "بیشک دین اللہ تعالٰی کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے" کو موضوع بیان بنایا ہے جو کہ منصوص ہے۔ اگرکوئی جہت عقلاً معارض بھی ٹھرے تو صاحب ایمان کے لیے دین اسلام کی برتری بصورت تقابلہ بیان کرنا مستحسن ہے۔ اگرچہ عقل سلیم سے سوشلزم کو بھی کچھ معمولی واسطہ فی الواقع ممکن ہے مگر بطور دین یا عملی مذھب سوشلزم کی کوئی حیثیت نہیں۔ تو آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ " بندہ جب دو چیزوں کا بھی تقابل کرتا ہے تو دو نوں چیزوں کو دیکھ اور پرکھ لیتا ہے" کیا ایمان کو نظر سے دیکھا اور عقل سے پرکھا جا سکتا ہے؟؟؟ اگرسوشلزم کی کوئی شق موافق عقل سلیم ہھی ہو تو کیا اس موافقت کی بناء پر تقابلہ ناپسندیدہ ہو جائے گا؟ ؟؟ جناب اسلام کی برتری کو کسی کے اتفاق کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
کمال ہے کہ اگر کوئی سوشلزم کو نہ پڑھے تو ِاسے تو کم علمی کا مذاق سمجھا جائے۔ اور اگر کوئی اسلام کو نہ پڑھے تو ِاسے کم علمی سمجھا ہی نہ جائے۔
آپ کے اسلوب کلام میں جواب لکھنے پر معذرت۔


بھائی واقعی آپ کی تحریر نے ایمان تازہ کر دیا۔اللہ آپ کو استقامت دے۔
 
جہاں تک یہ خیال کیا جاتا ہے کہ سوشلزم محض اک نظریہ کا نام ہے جس کا تعلق مالیات یا معشیت سے ہے اور مذھب سے اس کا کوئی حصہ نہیں تو یہ اک خیال سے زیادہ کچھ نہیں۔ میرے نزدیک یہ اک بد مذھب تحریک ہے جس کے محرکین کا ایک منشاء اسلام کے خلاف مختلف ادیان کو جمع کر کے اسلام کو کمزور کرنا ہے اس مقصد کے حصول کے لیے اس تحریک کے محرکین نے نہ صرف ایسی کتب تصنیف کیں جن میں اسلامی تعلیمات پر تنقید کی گئی بلکہ یہود و عیسائی مذھب کو بھی اسلام کے خلاف متحد کرنے کے لیے بائبل کو متعارف کرایا جو کہ توریت، زبور اور انجیل کے کچھ حصوں سے اخذ کی گئی۔
سوشلزم کا یہ ایک سیاسی اقدام تھا جس کی ضرورت انہیں تب محسوس ہوئی جب مسلمانوں سے جنگوں میں شکست کہا کہا کر انھوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ اسلام کو تلوار کے زور پر ختم نہیں کیا جا سکتا چانچہ 10 صدیوں سے بھی قبل اس تحریک کی ابتداء ہوئی اور انھوں نے عرب مسلمانوں سے عربی سیکھی اور مسلمانوں کے علوم و فنون سے استفادہ حاصل کر کے عربی کتب کو اپنی زبان میں منتقل کرنا شروع کیا اور علوم و فنون میں مہارت حاصل کی۔ مذھب اسلام پراعتراضات شروع کیے اور اس بد مذھب تحریک نے مسلمانوں کے عقائد میں شکوک و شبہات بھی پیدا کیے۔ اس کے محرکین تحریک میں سے یونانی فلاسفہ نے ذات و صفات باری تعالیٰ پر عقلی اعتراضات کر کے نئی نئی بد عقیدگی پھیلائی، ارسطو بھی اسی دور میں تھا۔ ان کے اس اقدام نے مسلمانوں میں اختلافات پیدا کرنا شروع کیے اور اس دور سے مسلمانوں میں کئے فرقہ جات بنے۔ سیاسی اقدام سے مسلمانوں کے اتحاد پر کئی بار حملہ کیا گیا۔ اور اس تحریک کا اسلام کو کمزور کرنے کا اول المقصد آج تک جاری ہے ماضی قریب میں انھوں نے ہی یک عبادت گاہ کی تعمیرات کا پروپٹگنڈا شروع کیا جہاں مسلم و غیر مسلم دونوں اپنی اپنی عبادت انجام دے سکتے ہیں۔ یہ ہے سوشلزم

کیا مالی و معاشی نظام اسلامی شریعت کے مقاصد سے علیحدہ ہے
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب المسیصفی میں ہے
مقصود الشرع من الخلق خمسۃ، وھو ان یحفظ علیھم دینھم، ونفسھم، وعقلھم، ونسلھم، ومالھم۔
شریعت کا مقصود یہ ہے کہ وہ انسانوں کے دین، مذہب، جان و عقل و نسل و مال کی حفاظت کرے
چونکہ حفظ مال بھی مقصود شریعت ہے تو واجب ہوا کہ اسلامی نظام معشیت کو دین کا حصہ تسلیم کیا جائے اور اسلام کے بتائے ہوئے احکام مال کو اعتقادًا درست مانا جائے نیز کسی فرد و شخص کے وضع کیئے ہوئے نظام معشیت پر اس کی فوقیت کو مسلم جانا جائے تا کہ اخروی کامیابی اور فلاح میسر ہو سکے۔

مادہ پرست، اشتراکیت یعنی سوشلزم کے حامیوں کے نظام معشیت (جبکہ ان کا مقصود فرد کی ملکیت کو بزور چھین کر پارٹی کی تحویل میں دینا ہے جو کہ عند الاسلام نہ صرف اخلاقی جرم ہے بلکہ ظلم و جور اور غیر منصفانہ طریق ہے) کی حقارت کو بیان کرنا کسی غلطی کے مترادف نہیں۔ سوشلزم کے نظریہ معشیت سے متعلق آئندہ آگاہ کیا جائے گا
جاری ہے
ابو حذیفہ عباسی، آبی ٹوکول،شمشاد، ساجد،محمود احمد غزنوی، مہ جبین، مؤثرہ
 
Top