محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
اسلام اور جدید ذہن کے شبہات
حال ہی میں دو ایسی کتابیں ہمارے ذخیرۂ کتب میں شامل ہوئیں جن کا موضوع ایک ہی ہے ۔ اسلا م اور جدید ذہن کے شبہات۔ اور یہ وہی موضوع ہے جسے ہر درد مند مسلمان حسرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے ، پڑھتا ہے اور چاہتا ہے کہ ان شبہات کا ازالہ ممکن ہوجائے اور وہ اسی دل جمعی اور خلوصِ نیت کے ساتھ غلبۂ اسلام کی جد و جہد میں مصروف ہوجائے جو کبھی ہمارے اسلاف کا خاصہ تھی۔ اس موضوع پر پہلی کتاب عالم اسلام کے مشہور مفکر جناب محمد قطب صاحب کی ہے اور دوسری ہمارے ایک اور برادر ملک ترکی کے مفکرجناب فتح اللہ گولن کی ہے جن کی کتب کے اردو ترجمے اب ہارمنی پبلیکیشنز کی جانب سے دستیاب ہونے کے باعث امید ہے کہ اس داعی اور مفکر کو پاکستان میں بھی وہی پذیرائی ملے گی جو انہیں اس برادر ملک میں حاصل ہے۔
سب سے پہلے ہم محمد قطب کی کتاب ’’ اسلام اور جدید ذہن کے شبہات ‘‘ کے شروع اور آخر کے ابواب سے کچھ اقتباسات قارئین کی نظر کرتے ہیں جو اس بحث کی تمہید کے طور پر انتہائی پر اثر ثابت ہوئے اور خیال آفرینی ایسی کہ پڑھنے والے عش عش کراُٹھیں۔
پھر اس تمہید کے بعد ،اگلے مرحلے میں ان شبہات کا خلاصہ پیش کیا جائے گا جن کے ان دونوں کتابوں میں نہایت تفصیل کے ساتھ جوابات دئیے گئے۔
کیا اب اسلام کی ضرورت نہیں رہی؟
جدید سائینس کی حیرت انگیز کامیابیوں نے اہلِ مغرب کو کچھ اس طرح مسحور کیا ہے کہ ان میں اب یہ خیال عام ہے کہ سائینس نے مذہب کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پسپا کردیا ہے ، کیونکہ اس کی افادیت ختم ہوچکی ہے۔ مذہب کے متعلق یورپی سائینس دانوں کے مخالفانہ طرزِ عمل کی اصل وجہ وہ کشمکش تھی، جو یورپی کلیسا کے خلاف انہیں پیش آئی تھی۔ اس کشمکش میں اہل کلیسا نے جس کردار کا مظاہرہ کیا ، اس کو دیکھ کر یہ لوگ بجا طور پر یہ سمجھنے لگے کہ مذہب رجعت پسندی، بربریت اور تاریک خیالی اور بے معنی افکار و اعمال کا مجموعہ ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کا قصہ تمام کردیا جائے۔ اور سائینس کو آگے بڑھایا جائے تاکہ اس کی رہنمائی میں انسانیت اور تہذیب کا ارتقاء جاری رہ سکے۔
مذہب کے بعض مسلمان مخالفین ، نہ اس اصل وجہ کو سمجھتے ہیں اور نہ مشرق و مغرب کے حالات کے فرق کو ہی مدِ نظر رکھتے ہیں اور مذہب کی مخالفت کرنے لگتے ہیں۔ ان کی یہ مخالفت کسی گہری سوچ بچار کا نتیجہ نہیں بلکہ یورپ کی اندھی تقلید کی پیداوار ہے۔
انگلستان کے مشہور ادیب سمرسٹ ماہم نے مذہب کے بارے میں جدید یورپ کے منفی رویئے کو ان الفاظ میں بیان کیا۔’’ یورپ نے اپنے لیے ایک نیا خدا۔۔۔ سائینس۔۔۔ دریافت کرلیا ہے، اور پرانے خدا سے منہ موڑ لیا ہے۔‘‘ مگر یورپ کا یہ نیا خدا انتہائی متلون نکلا ہے۔ یہ ہر لحظہ تغیر کی زد میں ہےاور اس کا موقف مستقلاً تبدیلی کا شکار۔ ایک چیز کو وہ آج حقیقت کہتا ہے، اور کل کو اسے جھوٹ ، باطل اور فریب قرار دینے لگتا ہے۔
سائینس کو خدائی کے منصب پر بٹھا دینے کا ایک اور نتیجہ یہ نکلا ہے کہ یہ دنیا جس میں ہم آپ رہ رہے ہیں، کسی واضح مقصدیت اور معنویت سے یکسر محروم ہوگئی ہے۔ اس کا نہ تو کوئی اعلیٰ مفہوم ہے ، نہ نظام اور نہ کوئی اعلیٰ ہستی یا طاقت ہی یہاں ایسی موجود ہے جو دنیا کی رہنمائی کرسکے۔ یہاں کی ہرشے تغیر کی شکار ہے۔ اقتصادی اور سیاسی نظام ہوں یا حکومت اور افراد کے درمیان تعلقات، یہاں کی ہر چیز بدل جاتی ہے، حتیٰ کہ سائینسی حقائق بھی بدل جاتے ہیں۔
امن کی واحد راہ:
مذہب اور صرف مذہب ہی دنیا کو کھوئے ہوئے امن و سلامتی سے ہمکنار کرسکتا ہے اور وہ انسان کے دل میں سچائی سے محبت پیدا کرکے اس کو بدی اور استبداد کے سامنے ڈٹ جانے کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔پھر کیا آج کی دنیا کو امن کی، سلامتی کی، اور اطمینان و سکون کی اور دوسرے لفظوں میں مذہب کی ضرورت نہیں ہے؟
مادہ پرستی کا نتیجہ:
مادہ پرستی ایک ایسی لعنت ہے کہ اس کی وجہ سے ظاہری فائدے بھی ضائع ہوجاتے ہیں۔ انسان ان کی محبت میں اندھا ہوکر اپنے ہی ابنائے نوع سے مستقل طور پر برسرِ پیکار رہتا ہے۔ حرص وہوس، خواہشاتِ نفس اور نفرت کے تند و تیز جذبات پر اُسے کوئی قابو نہیں رہتااور وہ کبھی ان کے غلبے سے آزاد نہیں ہوسکتا۔
عقیدۂ آخرت کا ایک اہم پہلو:
اس کے برعکس جس عقیدے میں فوری مادی منفعت مطلوب نہیں ہوتی نہ محض بغض و عداوت اس کی پیدائش کا محرک ہوتی ہے۔ درحقیقیت وہی عقیدہ انسانیت کو حقیقی اور پائیدار نعمتوں سے مالامال کرسکتا ہے ۔ آخرت پر ایمان کے بغیر خدا پر ایمان یا اس سے محبت کوئی معنی نہیں رکھتی ۔ اس کے بعد انسان کو اس یقین کی ضمانت مل جاتی ہے کہ اگر اس کو اس کا صلہ اس دنیا میں نہ ملا، تو آنے والی زندگی میں تو بہرحال مل کے رہے گا۔
جو لوگ اسلام کو قصۂ ماضی سمجھتے ہیں اور موجودہ زمانے میں اس کی افادیت اور ضرورت کے منکر ہیں، وہ دراصل نہ تو اسلام کے حقیقی مفہوم سے آشنا ہیں اور نہ زندگی میں اس کے اصل مشن سے واقف۔ اسلام غلامی کی ہر اُس نوع سے آزادی کانام ہے جو ارتقائے انسانیت میں رُکاوٹ بنتی ہےاور اس کو نیکی اور بھلائی کی راہ سے روکتی ہے۔ اسلام انسان کو سکھاتا ہے کہ اقتدار کا حقیقی مالک خدا اور صرف خدا ہے۔ اسلام انسان کو خوہشات و شہوات کی غلامی سے آزاد کرتا ہے، حتیٰ کہ خود زندگی کی خواہش سے بھی اس کو بے نیاز بنادیتا ہے۔ اسلام اللہ کی محبت کو جو ہمدردی، نیکی صداقت اور اللہ کی راہ میں یعنی زندگی کے تمام اعلیٰ اور پاکیزہ مقاصد کے لیے جہاد سے عبارت ہے ، شہوات و خواہشاتِ نفس کے مقابلے پر لے آتا ہے۔
اسلام کے دو نمایاں مقاصد:
انفرادی زندگی کے دائرے میں وہ ہر فرد کو اتنا کچھ سرو سامانِ حیات فراہم کردینا چاہتا ہے کہ کہ جس کی مددسے وہ صاف ستھری اور پاکیزہ زندگی گزار سکے۔ اور اجتماعی دائرۂ حیات میں اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ایک ایسا معاشرہ وجود میں آجائے جس کی ساری توانائیاں انسانیت کی مجموعی ترقی میں صرف ہوں۔ اور قافلۂ تہذیب اسلام کے نظریہ حیات کی روشنی میں رواں دواں رہے۔
اسلام عقلِ انسانی اور مذہب، یا باالفاظِ دگر سائینس اور مذہب کے مابین کسی ناقابلِ مصالحت اور جوہری مخاصمت کا قائل نہیں ہے ۔ عیسائیت کی طرح وہ انسان کو ناقابلِ فہم اور پیچیدہ عقائد و نظریات پر ایمان لانے کا حکم نہیں دیتا ، اور نہ ان پر ایمان لانے کو ایمان باللہ کے لیے ناگزیر شرط قرار دیتا ہے۔
اسلام علم اور سائینس کو شر اور ایمان کے خلاف یا منافی نہیں سمجھتا، بلکہ اسے ایمان باللہ کا جزوِ لازم قرار دیتا ہے۔
مغرب کی ترقی کی حقیقت:
جدید مغرب نے سائینس کے میدان میں بے پناہ کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ مگر انسانیت کے میدان میں یہ ہنوز انتہائی پسماندہ اور وحشی ہے۔ تیز رفتار طیاروں ، ایٹم بموں، ریڈیو اور روشن برقی قمقموں کو ترقی نہیں کہتے۔ ان کو ترقی کے مترادف قرار دینا غلط بینی ہے۔ اگر حقیقی ترقی کا حال معلوم کرنا ہے تو یہ دیکھیے کہ کیا انسان کو اپنی حیوانی خواہشات اور جذبات پر مکمل قابو حاصل ہے؟ یا وہ ان کے ہاتھوں میں ابھی تک کھلونا بنا ہوا ہے۔
نیکی اور بھلائی کی راہ:
آج کی دنیا کی یہ تصویر بہت تاریک ہے ، مگر نجات کی ایک راہ اب بھی باقی ہے اور وہ ہے اسلام کی راہ۔ جس طرح تیرہ صدی پہلے اس نے انسان کو حیوانی خواہشات کے تسلط سے آزادی عطا کی تھی ، اس طرح آج بھی وہی انسانیت کی دستگیری کرسکتا ہے۔ ممکن ہے یہ سن کر بعض لوگ کہہ اُٹھیں کہ اسلام کا احیا اب ایک امرِ محال ہے۔ اور اس کے لیے کوششیں بے سود۔ جس طرح ماضی میں اسلامی نظام کے عملی قیام سے ثابت ہوچکا ہے کہ نسلِ انسانی اس کی رہنمائی میں حیوانیت کو شکست دے سکتی ہےاسی طرح اب بھی اس تاریخی حقیقت کا اعادہ ممکن ہےکیونکہ فطرتِ انسانی میں بنیادی طور پر کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے۔
تحریکِ احیائے دین:
دورِ جدید کے بعض ’’ترقی پسندوں ‘‘ کا دعویٰ ہے کہ اس زمانے میں اسلام کا احیا ممکن ہی نہیں۔ ان کے نزدیک احیائے دین کی کوششیں بے کار ہیں کیونکہ اُن کی کامیابی کی کوئی امید نہیں۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خلافتِ راشدہ کا مثالی دور انتہائی مختصر تھاجس کے بعد مسلمانوں کی تاریخ میں اس کی مثالیں خال خال ہی اور ہمیشہ بہت قلیل وقفوں ( مثلاً حضرت عمر بن عبدالعزیز کا دور) پر مشتمل رہی ہیں۔ کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اسلام بحیثیت نظامِ حیات قابلِ عمل نہیں ہے؟
یاد رکھنے کی دوباتیں۔۔ پہلی بات:
مسئلے کے اس پہلو پر غور کرتے ہوئے ہمیں دو باتیں یاد رکھنی چاہئیں۔ پہلی تو یہ کہ خلافتِ راشدہ کے دور میں اسلام کے زیرِ اثر انسانیت نے جو زبردست ترقی کی، اور جس طرح اسلام نے اسے پستیوں سے اُٹھا کر تہذیبِ اخلاق کی انتہائی بلندیوں سے روشناس کیا ، وہ ای ایسا واقعہ ہے جس کی طبعی قوانین کی روشنی میں کوئی توجیہہ یا تشریح ممکن ہی نہیں۔ یہ بھی منجملہ ان بہت سے معجزات کے ایک عظیم معجزہ تھا، جو اسلام کی بدولت اس کرہ ارض پر رونما ہوئے۔ لیکن یہ معجزہ یونہی رونما نہیں ہوگیاتھابلکہ اس کے لیے مسلمانوں کو اخلاقی انقلاب اور تعمیرِ نو کے طویل مراحل سے گزرنا پڑا۔ تب کہیں جاکر وہ لوگ پیدا ہوئے جو اس معجزے کی زندہ مثال تھےاور ان کی زندگیاں اس کی عملی تفسیر۔
دوسری بات جو اس سلسے میں یاد رکھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام کی وجہ سے انسانیت کو جو زبردست ترقی حاصل ہوئی ، وہ کسی مادی یا محض قدرتی عامل کی پیداوار نہیں تھی۔ جس طرح اسلام نے انسانیت کو ایک ہی جست میں غلامی اور جاگیرداری کے قعرِ مذلت سے اُٹھا کر معاشرتی انصاف کی انتہائی بلندیوں تک پہنچادیا تھااس کی کہیں اور مثال نہیں ملتی۔ انسانیت کو اندھی بہری خواہشات و شہوات کی غلامی سے نجات ملی اور وہ اخلاقی تکمیل کے نقطۂ عروج پر فائز ہوئی۔
صدرِ اول کے مسلمانوں کی یہ حیرت انگیز اخلاقی سربلندی اسلام ہی کا اعجاز تھا کیونکہ پیغمبرِ اسلام ﷺ اور آپ کے صحابہؓ اعلیٰ ترین روحانی قوت کے نمائیندہ تھے ، اسی روحانی قوت کی بدولے ان لوگوں نے ایسے ایسے کارنامے کردکھائے جو آج معجزہ معلوم ہوتے ہیں۔ مگر جب مسلمانوں کی روحانی قوت کا یہ سرچشمہ خشک ہونا شروع ہوا تو وہ زوال اور انحطاط کا شکار ہوگئے ، تاہم ان کے دلوں میں الہامی ہدایت کا یہ نور کسی نہ کسی حد تک ہر دور میں موجود رہا۔ لیکن جیسا کہ بعض لوگوں نے غلطی سےسمجھ لیا ہے ، اس کا یہ مطلب ہرگز ہے کہ اب عملی زندگی میں اسلام کے صدرِ اول کی طرح کا کوئی روحانی انقلاب برپا کیا ہی نہیں جاسکتا کیونکہ اس وقت نہ حضور ﷺ ہمارے درمیان موجود ہیں اور نہ ان کے برگزیدہ صحابہ اضی اللہ عنہم اجمعین۔ لیکن یہ خیال صحیح نہیں ہے کیونکہ گزشتہ تیرہ صدی کے دوران میں امتِ مسلمہ اور انسانیت کو جو وسیع تجربات اور ترقی حاصل ہوئی ہے ان کی وجہ سے سیاسی اور اقتصادی روابط کی دنیا میں جو باتیں پہلے معجزہ سمجھی جاتی تھیں وہ اب معجزہ نہیں رہیں۔ اور نہ ان کا حصول اب ناممکن رہا ہے۔ ان کے لیے جن صلاحیتوں کی ضرورت ہے آج کا انسان ان سے پوری طرح مسلح ہے ۔ اس لیے صدرِ اول کے مسلمانوں کی روشن مثال کو سامنے رکھ کر جدید دور میں اسلامی نظام کو روبہ عمل لانا کچھ بھی مشکل نہیں ہے کیونکہ آج کی دنیا پہلے کے مقابلے میں اسلام کے زیادہ قریب آچکی ہے۔ چنانچہ اب نسبتاً بہت تھوڑی سی کوشش سے ہم اپنے گوہرِ مقصود کو پاسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر جدید دور میں اکثر و بیشتر قومیں اپنے حکمرانوں کو عام انتخابات کے ذریعے چنتی ہیں۔ دراصل یہ اسلامی نظام ہی کی ایک خصوصیت کا جدید انطباق ہے ، جس کو اس نے آج سے تیرہ سو سال پہلے دنیا کے سامنے پیش کیا تھا۔ بلاشبہ حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ کے دور میں اس اصول کی کارفرمائی ایک معجزہ تھا مگر آج یہ معجزہ نہیں رہا ، واقعہ بن چکا ہے۔ اس اصول کو اگر ہم غیروں کی خوشہ کرکے امریکہ اور انگلستان سے درآمد کر سکتے ہیں تو آخر اسلام کے نام پر اسے کیوں اختیار نہیں کرسکتے۔ خصوصاً جبکہ ہمارے لیے یہ کوئی نئی چیز نہیں بلکہ اسلام میں پہلے سے موجود ہے۔ اسلام کی نشاۃ ثانیہ اب بھی ممکن ہے کیونکہ جہاں تک اسلامی نظام کے قیام اور اسلامی قانون کے عملی نفاذ کا تعلق ہے ، اس کے لیے آج ہمیں حضرت عمر ؓ جیسے مثالی انسانوں کی نہیں بلکہ ان کے چھوڑے ہوئے قوانین و قانونی نظائر کی ضرورت ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ اگر ہم مخلص ہوں تو آج ان پر عمل پیرا نہ ہوسکیں۔
کہا جاتا ہے کہ خلافتِ راشدہ اور حضرت عمر بن عبدالعزیز کے مختصر سے دور کو چھوڑ کر اسلامی نظام کبھی پوری طرح قائم نہیں ہوا تھامگر یہ بات کہنے والے حضرات یہ بھول جاتے ہیں کہ خلافتِ راشدہ یا حضرت عمر بن عبدالعزیز کے بعد اسلام اسلام ایک مذہب اور نظام کی حیثیت سے ختم نہیں ہوگیا تھا بلکہ جوں کا توں موجود تھا ۔ جہاں تک معاشرے کا تعلق تھا اپنی روح کے اعتبار سے وہ اب بھی ایک اسلامی معاشرہ تھا۔ دینائے اسلام کے مختلف حصوں میں اسلام ہی کے قانونِ ملکی کی علمداری تھی ۔ اسلامی روایات سے مسلمانوں کی تاریخ کا ہر دور تابندہ نظر آتا ہے۔صلاح الدین ایوبی کے صلیبی معرکے اس ضمن میں بالخصوص قابلِ ذکر ہیں۔ اسی طرح بین الاقوامی میدان میں معاہدات کی پاسداری کے معاملے میں مسلمانوں کی پچھلی تاریخ بھی بڑی روشن ہے۔ ۔ پھر علم سے محبت اور تہذیب و تمدن سے ان کی دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ کہ دنیائے اسلام علوم و فنون کا گہوارہ تھی۔
پس چہ باید کرد؟:
اسلام نے ہمیں جو نصب العین عطا کی اہے اس کے حصول کا طریقہ کیا ہے؟ سوال یہ ہے کہ موجودہ حالات میں ہم اس پر عمل پیرا کیونکر ہوسکتے ہیں۔ جب کہ ساری دنیا اس کی مخالف ہے اور خود مسلمان ممالک پر ایسے ڈکٹیٹر مسلط ہیں جو غیروں سے زیادہ شد و مد کے ساتھ اس کے خلاف سر گرمِ عمل ہیں۔ جی ہاں راہِ عمل کیا ہےا ور ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اسلامی نصب العین تک پہنچنے کی راہ وہی ہے جو انسانی تاریخ میں برپا ہونے والی ہر تحریک کو اختیار کرنی پڑی ہےاور یہ راہ ہے ایمان و ایقان کی راہ۔
صدرِ اول کے مسلمانوں کی قوت کا سرچشمہ یہی ایمان تھا۔ آج کے مسلمان کی نجات کا راز بھی اسی میں پوشیدہ ہے۔ بحیثیت مسلمان آج ہم جس صورتِ حال سے دوچار ہیں وہ صدرِ اول کے مسلمانوں کی حالت سے کچھ بھی مختلف نہیں ہے۔ وہ مٹھی بھر لوگ تھے مگر اس وقت کی سب سے طاقت ور حکومتوں، روم و ایران کے خلاف برسرِ پہکار تھے ، جو افرادی قوت ، مادی سرو سامان ، دولت ، فنون حربو ضرب اور سیاسی طاقت، ہر لحاظ سے ان پر فوقیت رکھتی تھیں۔ مگر اس کے باوجود پچاس سال سے کم کے عرصے میں انہوں نے قیصر و کسریٰ دونوں کا غرور خاک میں ملا دیا۔ اور بحیرہ ٔ احمر سے لے کر بحیرہ ٔ روم تک ان کے سارے علاقے پر قبضہ کرلیا۔ ان کی یہ کامیابی تاریخ میں ایک عظیم معجزہ تھا، تاریخ کی کسی مادی تشریح اور تعبیر کے ذریعے اس عظیم تاریخی معجزے کی تہہ تک پہنچا ہی نہیں جاسکتا۔ اسے صرف ایمان و ایقان کے حوالے سے ہی سمجھا جاسکتا ہے۔