اسلامی تعلیمات

شمشاد

لائبریرین
وسوسہ

وسوسہ بالاتفاق شیطان کی طرف سے ہے وہ ایسا لعنتی ہے جس کی کوئي انتہاء ہی نہیں بلکہ وہ تومومن کوضلالت و گمراہی اورپریشانی ، زندگی کی بربادی ، اورنفس کواندیھرے میں ڈال دیتا ہے اوروہاں تک لےجاتا ہے کہ اسے اسلام سے ہی خارج کردے اوراسے اس کا شعور اور علم تک نہیں ہوتا ۔

فرمان باری تعالی ہے :
" یقینا شیطان تمہارا دشمن ہے توتم اسے دشمن ہی بنا کررکھو." (سورۃ فاطر 6)

اس میں کوئي شک نہیں کہ جو بھی نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ اورشریعت اپنائے جو آسان و سہل اورواضع اوربالکل صاف شفاف جس میں کسی قسم کا کوئي حرج نہیں وہ آسانی پائے گا ۔ جوبھی اس پر غوروفکر کرتا اورحقیقی ایمان لائے اس سے وسوسہ کی بیماری اورشیطان کی طرف دھیان دینے کی بیماری جاتی رہتی ہے. عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ :

"جوبھی اس وسوسے میں مبتلا ہو اسے تین باریہ کہنا چاہیئے : ہم اللہ تعالی ، اوراس کے رسولوں پر ایمان لائے ، اس سے اس کا وسوسہ جاتا رہے گا ۔"​
 

شمشاد

لائبریرین
معاشرے میں یہ بات عام ہے کہ عورت کی وفات پر اسکا شوہر اسے چھو نہیں سکتا نہ دیکھ۔ سکتا ہے کیونکہ فوت ہونے پر نکاح ٹوٹ گیا. یہ سب باتیں خود ساختہ ہیں جس کی کوئی اصل نہیں. شریعت میں اس پر کوئی پابندی نہیں. جبکہ بیوی کی وفات پر غسل دینے کا سب سے زیادہ مستحق اسکا شوہر ہے.
نبی کریم نے حضرت عایشہ سے فرمایا:
اگر تو مجھ۔ سے پہلے فوت ہو گئی تو میں تمھیں غسل دوں گا.
(ابن ماجہ ١١٩٧، دارمی ٣٧/١)

اسی طرح بیوی بھی اپنے شوہر کو غسل دے سکتی ہے. یہ رخصت ہے فرض نہیں.
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے وصیت کی تھی کہ انہیں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ غسل دیں، چنانچہ حضرت علی نے انھیں غسل دیا.
( دار قطنی ٧٩/٢، بیقہی ٣٩٦/٣)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے فرمایا:
اگر مجھے اس معاملے کا پہلے علم ہو جاتا، جس کا مجھے تاخیر سے علم ہوا، تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف آپ کی بیویاں رضی اللہ تعالی عنہن ہی غسل دیتیں.
(سنن ابی داؤد ٣١٤١ )
اسی طرح بیوی بھی اپنے شوہر کو غسل دے سکتی ہے. یہ رخصت ہے فرض نہیں. حضرت فاطمہ نے وصیت کی تھی کہ انہیں حضرت علی غسل دیں، چنانچہ حضرت علی نے انھیں غسل دیا.
( دار قطنی ٧٩/٢، بیقہی ٣٩٦/٣)
حضرت عائشہ نے فرمایا:
اگر مجھے اس معاملے کے پہلے علم ہو جاتا، جس کا مجھے تاخیر سے علم ہوا، تو رسول اکرم کو صرف آپ کی بیویاں ہی وفات کے بعد غسل دیتیں (سنن ابی داؤد ٣١٤١ )​
 

شوکت پرویز

محفلین
وسوسہ

وسوسہ بالاتفاق شیطان کی طرف سے ہے وہ ایسا لعنتی ہے جس کی کوئي انتہاء ہی نہیں بلکہ وہ تومومن کوضلالت و گمراہی اورپریشانی ، زندگی کی بربادی ، اورنفس کواندیھرے میں ڈال دیتا ہے اوروہاں تک لےجاتا ہے کہ اسے اسلام سے ہی خارج کردے اوراسے اس کا شعور اور علم تک نہیں ہوتا ۔​
فرمان باری تعالی ہے :​
" یقینا شیطان تمہارا دشمن ہے توتم اسے دشمن ہی بنا کررکھو." (سورۃ فاطر 6)​
اس میں کوئي شک نہیں کہ جو بھی نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ اورشریعت اپنائے جو آسان و سہل اورواضع اوربالکل صاف شفاف جس میں کسی قسم کا کوئي حرج نہیں وہ آسانی پائے گا ۔ جوبھی اس پر غوروفکر کرتا اورحقیقی ایمان لائے اس سے وسوسہ کی بیماری اورشیطان کی طرف دھیان دینے کی بیماری جاتی رہتی ہے. عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ :​
"جوبھی اس وسوسے میں مبتلا ہو اسے تین باریہ کہنا چاہیئے : ہم اللہ تعالی ، اوراس کے رسولوں پر ایمان لائے ، اس سے اس کا وسوسہ جاتا رہے گا ۔"​
یقینا، یہ ایک بہت اہم مسئلہ ہے، اور اللہ کا شکر ہے کہ ہر بات کی طرح اس بات کا بھی حل اسلام میں موجود ہے۔

"اور اگر شیطان کی طرف سے آپ کو کوئی وسوسہ پہنچے تو آپ اللہ تعالی کی پناہ لیں بیشک وہ ہی سننے والا اور جاننے والا ہے۔"
سورۃ اعراف: آیت 200

جزاک اللہ شمشاد بھائی۔
 
معاشرے میں یہ بات عام ہے کہ عورت کی وفات پر اسکا شوہر اسے چھو نہیں سکتا نہ دیکھ۔ سکتا ہے کیونکہ فوت ہونے پر نکاح ٹوٹ گیا. یہ سب باتیں خود ساختہ ہیں جس کی کوئی اصل نہیں. شریعت میں اس پر کوئی پابندی نہیں. جبکہ بیوی کی وفات پر غسل دینے کا سب سے زیادہ مستحق اسکا شوہر ہے.
نبی کریم نے حضرت عایشہ سے فرمایا:​
اگر تو مجھ۔ سے پہلے فوت ہو گئی تو میں تمھیں غسل دوں گا.​
(ابن ماجہ ١١٩٧، دارمی ٣٧/١)​
اسی طرح بیوی بھی اپنے شوہر کو غسل دے سکتی ہے. یہ رخصت ہے فرض نہیں.​
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے وصیت کی تھی کہ انہیں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ غسل دیں، چنانچہ حضرت علی نے انھیں غسل دیا.​
( دار قطنی ٧٩/٢، بیقہی ٣٩٦/٣)​
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے فرمایا:​
اگر مجھے اس معاملے کا پہلے علم ہو جاتا، جس کا مجھے تاخیر سے علم ہوا، تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف آپ کی بیویاں رضی اللہ تعالی عنہن ہی غسل دیتیں.​
(سنن ابی داؤد ٣١٤١ )​
اسی طرح بیوی بھی اپنے شوہر کو غسل دے سکتی ہے. یہ رخصت ہے فرض نہیں. حضرت فاطمہ نے وصیت کی تھی کہ انہیں حضرت علی غسل دیں، چنانچہ حضرت علی نے انھیں غسل دیا.​
( دار قطنی ٧٩/٢، بیقہی ٣٩٦/٣)​
حضرت عائشہ نے فرمایا:​
اگر مجھے اس معاملے کے پہلے علم ہو جاتا، جس کا مجھے تاخیر سے علم ہوا، تو رسول اکرم کو صرف آپ کی بیویاں ہی وفات کے بعد غسل دیتیں (سنن ابی داؤد ٣١٤١ )​
توضیح و تصحیح مسئلہ

یہ لکھنا کہ؛؛یہ سب باتیں خود ساختہ ہیں جس کی کو ئی اصل نہیں ،، ذکر کردہ مسئلہ کی تفصیل سے عدم واقفیت پر دال ہے۔ میرا حسن ظن ہے کہ مفصل آگہی ہوتی تو ایسا نہ لکھتے،کیوںکہ امام ابو حنیفہ،امام سفیان ثوری اور ایک روایت مین امام احمد( رحمھم اللہ) کے نزدیک شوہر کا اپنی متوفیہ بیوی کو بلاحائل چھونا اورغسل دینا جائز نہیں ہے۔کیونکہ موت واقع ہونے سے نکاح زائل ہو جاتا ہے۔البتہ بیوی شوہر کو غسل دے سکتی ہے۔ یہ تو تھی نفس مسئلہ کی وضاحت جوفقہاء احناف کی تمام کتب میں مصرح ہے۔ادلہ وحوالہ جات کی حاجت ہو تو حاضر ہوں۔
 
جوبھی اس پر غوروفکر کرتا اورحقیقی ایمان لائے اس سے وسوسہ کی بیماری اورشیطان کی طرف دھیان دینے کی بیماری جاتی رہتی ہے.
جزاک اللہ شمشاد بھائی
نبی کریم نے حضرت عایشہ سے فرمایا:​
اگر تو مجھ۔ سے پہلے فوت ہو گئی تو میں تمھیں غسل دوں گا.​
(ابن ماجہ ١١٩٧، دارمی ٣٧/١)​
مندرجہ بالا حدیث شریف میں "تمہیں غسل دونگا" کے دو معنٰی ہیں ایک ظاہری یعنی غسل بالید دینا یہ معنٰی احناف کے نزدیک مسلّم المراد نہیں۔ بلکہ یہ کلام "تمہیں غسل دونگا" بطور محاورہ ہے اور اس سے مراد غسل بالانتظام ہے یعنی میں تمہارے غسل کا انتظام کرونگا۔
اسی طرح بیوی بھی اپنے شوہر کو غسل دے سکتی ہے. یہ رخصت ہے فرض نہیں. حضرت فاطمہ نے وصیت کی تھی کہ انہیں حضرت علی غسل دیں، چنانچہ حضرت علی نے انھیں غسل دیا.​
( دار قطنی ٧٩/٢، بیقہی ٣٩٦/٣)​
اس حدیث کے صحیح الثبوت ہونے میں کلام کیا گیا ہے

میری جناب ابو حذیفہ عباسی بھائی سے درخواست ہے کہ
۔
ادلہ وحوالہ جات کی حاجت ہو تو حاضر ہوں۔
آپ نے جن حوالہ جات اوردالائل کا کہا ہے برائے مہربانی ضرور نقل کر کے مزید توضیح مسئلہ کیجیئے۔ شکریہ
 
Top