اسلامیات کے اسکالرز روایتی مذہبی طبقات سے ربط اور جدید مسائل

اسلامیات کے اسکالرز روایتی مذہبی طبقات سے ربط اور جدید مسائل

یہ ایک انتہائی اہم لیکن حساس موضوع ہے اور اس کے بے شمار زاویے ہیں لیکن یہاں پر میں اس کا مختصر سا پس منظر بیان کرکے پھر اس حوالے سے کچھ نکات پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

میں عالم دین نہیں ہوں نہ ہی میں نے کسی روایتی مذہبی ادارے سے باقاعدہ دینی تعلیم حاصل کی ہے ہاں مختلف علماء کے بیانات ، دروس ان کی نگرانی میں مطالعہ کتب اور تحقیقی کام کے دوران بہت کچھ سیکھنے کا موقع ضرور ملا لیکن روایتی دینی علوم پر جو رسوخ درکار ہے وہ مجھ حاصل نہیں۔

میں نے بی کام کے بعد فیصلہ کیا کہ دینی تعلیم حاصل کی جائے اس وقت میں ایک آئی ٹی فرم میں نوکری کررہا تھا علماء سے ربط و تعلق ضرور تھا ایک جگہ بیعت بھی تھا لیکن باقاعدہ دینی علم حاصل کرنا وہ بھی نوکری کے ساتھ ممکن نہیں تھا مگر یہ احساس تھا کہ دن بہ دن بڑھتا جاتا تھا کہ دینی علوم حاصل کیے جائیں اور ستم ظریفی قسمت حالات ایسے تھے کہ نوکری چھوڑی بھی نہیں جا سکتی تھی۔

اسی دور میں کسی نے کہا کہ پرائیویٹ بی اے کرلو یہ وہ دور تھا کہ جب مختصر درس نظامی اور دراسات وغیرہ کا سلسلہ باقاعدہ طور پر شروع نہیں ہوا تھا صرف ایک جامعتہ الرشید کی پانچ سالہ ترتیب تھی مگر وہ بھی نوکری کے ساتھ ممکن نہیں تھی اور اوپر بیان کیا کہ نوکری وقت کی ضرورت تھی تو اس دور میں ، میں نے پرائیویٹ بی اے کیا اور مضامین عربی ، اسلامیات اور تاریخ اسلام رکھے۔
چونکہ مطالعے کی شروع سے عادت تھی اسلیے آسانی سے بی اے پاس کرلیا ، بی اے کے بعد شوق ہوا کہ ایم اے اسلامیات بھی کرلیا جائے تو اس میں بھی داخلہ لے لیا اور اللہ کے کرم سے فرسٹ ڈویژن کے ساتھ ایم اے اسلامیات کی تکمیل بھی ہوگئی اسی دور میں آئی ٹی سیکٹر چھوڑ کر اسکول کی سطح پر تدریس شروع کردی یہ ایک الگ داستان ہے کہ اس میں کیا کچھ مشکلات پیش آئیں بہرحال کسی نہ کسی طرح میں ایک اولیول ٹیچر بن گیا اور یہ سلسلہ قریب دس ایک سال جاری رہا ، ساتھ ہی ساتھ اپنی استعداد بڑھانے کیلیے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے بے ایڈ بھی کیا اور کیمبرج کے مختلف کورسز بھی کیے اسی دوران خیال آیا کہ کیوں ناں تاریخ اسلام میں ایم اے کیا جائے تو اللہ تعالیٰ نے اس کی تکمیل بھی کروادی بعد ازاں ایم فل اسلامل اسٹڈیز شعبہ قرآن و سنت جامعہ کراچی میں داخلہ لیا یہ ایم فل لیڈنگ ٹو پی ایچ ڈی پروگرام تھا میرے محسن و مربی ڈاکٹر سید غضنفر احمد صاحب کی سپر ویژن اور راہنمائی کے صدقے میں پہلے ایم فل اور اس کے بعد پی ایچ ڈی کرنے میں بھی کامیاب الحمد ہو گیا الحمد للہ اسی دوران پہلے کچھ عرصہ جامعہ کراچی میں بطور ویزیٹنگ ٹیچر پڑھایا اس کے بعد چند روز رفاہ یونیورسٹی فیصل آباد میں گزارے اور اب ہمدرد میں تدریس کے فرائض سر انجام دے رہا ہوں۔

قصہ مختصر بی اے عربی سے پی ایچ ڈی قرآن و سنت ﷺ تک اور اسکول ٹیچر سے یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر تک کے سفر میں خلش یہی دل میں رہی کہ میں روایتی عالم نہ بن سکا اور آج بھی مجھے اس کا شدید افسوس ہے۔

اب قضیہ یہ ہے کہ مکمل درس نظامی کا وقت نہیں کیونکہ تدریس کی کل وقتی مصروفیات بھی ہیں اور گھر کا نظام بھی ذمہ ہے تو دوسری جانب دراسات دینیہ جیسا ابتدائی درجے کا کورس کسی بھی حوالے سے مجھ جیسے لوگوں کیلیے مفید نہیں اسی طرح مختصر دورانیے کے دینی کورسز اسلامیات میں ڈبل ایم اے اور پی ایچ ڈی کے بعد میرے لیے مفید نہیں ہو سکتے ، دوسری جانب دوروزہ درس نظامی کو میں مفید نہیں سمجھتا لیکن خلش اپنی جگہ برقرار ہے کہ کیا کیا جائے۔

اب آتے ہیں دوسرے قضیے کی جانب ہمارے سامنے دو طرح کے طبقات ہیں ایک یونیورسٹی سطح کے پروفیسرز یا عرف عام میں اسکالرز گو کہ یہ صاحبان ریسرچ کے شعبے میں کمال رکھتے ہیں لیکن دین کے روایتی علوم پر عبور نہیں رکھتے اسلیے جب یہ اپنی ذاتی رائے پر دینی مسائل حل کرتے ہیں تو خرابی پیدا ہوتی ہے۔

(ویسے آجکل تو اسلامیات میں پی ایچ ڈی کی بھی ضرورت نہیں بھانت بھانت کے انجینیر ، ڈاکٹر ، موٹیویشنل اسپیکر وغیرہ دینی اسکالر بنے ہوئے ہیں بلکہ بہت سے اداکار و گلوکار بھی اسی فہرست میں شامل ہونے کی کوشش میں ہیں یا ہو چکے ہیں)۔

دوسری جانب روایتی طبقے کے علماء جدید عنوانات و موضوعات اور مسائل سے واقف نہیں جیساکہ سوشل سائنسز یا معاصر الحاد و دہریت کے مسائل گو کہ اب اس جانب رجوع شروع ہوا ہے لیکن اس کے ساتھ ایک اور مسئلہ پیدا ہوتا ہے کہ جب دینی علوم والے یونیورسٹی کا رخ کرتے ہیں تو افسوس کے ساتھ ان کا دینی رخ بھی تبدیل ہو جاتا ہے اور وہ عالم کے بجائے اسکالر میں تبدیل ہو جاتے ہیں سر سے ٹوپی اترنے اور داڑھی چھوٹی ہونے سے مکمل تجدد پسندی کا سفر کچھ زیادہ طویل نہیں ہوتا۔

یہاں پر سوال یہ ہے کہ وہ طبقہ جو دین کا اچھا خاصا علم رکھتا ہے لازمی امر ہے کہ اسکیلیے بنیادی سطح کے دینی کورسز تو ممکن نہیں نہ ہی مفید ہیں اسی طرح وہ مستقل درس نظامی کیلیے بھی وقت نہیں نکال سکتا تو اب وہ کیا کرے ؟

اگر ہم نے اس طبقے کو نہیں لیا تو یہ بھی اپنی رائے اور خود پسندی کا شکار ہوکر دین کو نقصان پہنچائیں گے تو پھر کیا حل نکالا جاوے ؟

ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامیت کے پروفیسرز اور لیکچرار حضرات کیلیے کہ جنہوں نے ایم اے ، بی ایس اسلامیات سے لیکر پی ایچ ڈی سطح تک کی تعلیم حاصل کی ہے انہیں کچھ روایتی علوم پڑھائے جائیں جو عام کالج یونیورسٹی کے طالب علموں یا اساتذہ سے کچھ بہتر ہوں یعنی باقاعدہ درس نظامی نہ ہو لیکن صرف دراسات بھی نہ ہو بلکہ درمیان کی سطح کا کوئی معاملہ ہو ، اس حوالے سے ادارے آگے آئیں اور اپنا کام کریں اگر ایسا نہ کیا گیا تو ڈر اس بات کا ہے کہ ایک ایسا طبقہ جو ہماری اکادمیا میں بیٹھا ہے یاد رہے یہ طبقہ ہمارے عصری تعلیمی اداروں میں بیٹھا ہے اسلامیات کا اسکالر شمار ہوتا ہے اور لطف کی بات یہ کہ ان کے پاس مدارس کے بچے بھی بی ایس ، ایم ایس اور پی ایچ ڈی کررہے ہیں یہ طبقہ ہمارے ہاتھ سے بالکل نکل جائے گا اور نا صرف خود نکلے یا بلکہ کالج و یونیورسٹی جانے والے دینی دینی طبقے کو بھی لے جائے گا اور یہ ایک بڑا بلکہ بہت بڑا نقصان ہوگا۔

تو گزارش یہ ہے کہ سوچنے والے سوچیں اور اختیار والے اختیار استعمال کرین وگرنہ ہم بند گلی کی طرف جارہے ہیں۔

صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے

ڈاکٹر حسیب احمد خان
 
Top