اسرائیل کی جنگی تیاریاں،بیت المقدس اور واشنگٹن

عرب نیوز“ کی قلمکار لِنڈا ہرڈ کے الفاظ میں ”اسرائیل ایک ایسی ریاست ہے جو مسلسل صفحہ ¿ ہستی سے مٹ جانے کے خطرے سے دوچار رہتی ہے۔ یہ خوف اسرائیلی یہودیوں کی نفسیات میں رچ بس گیا ہے۔ انہوں نے 1967ءمیں ہتھیائی ہوئی فلسطینی سرزمین (بیت المقدس، غرب اردن اور غزہ کی پٹی) پر غاصبانہ قبضہ جما رکھا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں بین الاقوامی قوانین کے پرزے اڑانے، دنیا بھر میں قاتل دستے بھیجنے اور لبنان، شام اور ایران کو دھمکیاں دینے کا حق حاصل ہے۔ نیتن یاہو کی حکومت نے مئی 2010ءمیں ایران کی طرف سے مبینہ خطرے کے پیش نظر عوام (یہودیوں) میں گیس ماسک بانٹنے شروع کر دیے تھے۔ بڑے بڑے زیرِزمین بنکر تعمیر کرنے کے منصوبے پر عملدرآمد بھی شروع کیا جا رہا ہے۔ ان بنکروں میں سے ہر ایک کے اندر سینکڑوں ہزاروں شہری مبینہ حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں سے محفوظ رہیں گے۔ ایسے گیارہ بنکروں میں سے پہلا بنکر یروشلم ٹرین سٹیشن کے260فٹ نیچے تعمیر کیا جانا ہے۔ اس میں 5ہزار افراد سما سکیں گے اور اسے 35میل لمبی سرنگ کے ذریعے تل ابیب کے مرکزی بنکر سے ملا دیا جائے گا۔ اس میں لمبے عرصے کے لئے خوراک اور پانی کی فراہمی کا انتظام ہو گا، نیز یہ ہوا صاف کرنے والی مشینری، مواصلاتی آلات اور میڈیکل ایمرجنسی کے لئے درکار ہر شے سے آراستہ ہو گا۔
مغرب کا پالتو غنڈہ اسرائیل مسلمانوں سے اگلی جنگ لڑنے کے کیسے عزائم رکھتا ہے، انہیں جاننے کے لئے اسرائیل کی ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہ میجر جنرل عاموس یادلین کے خیالات ملاحظہ کیجئے۔ وہ کہتا ہے: ”اگلی فوجی محاذ آرائی اسرائیل اور کسی ایک ملک کے درمیان نہیں ہو گی بلکہ اسرائیل کو دو یا تین مختلف محاذوں پر بیک وقت لڑنا پڑے گا۔ یہ جنگ اس نوع کی نہیں ہو گی جس کا تجربہ ہمیں دوسری جنگِ لبنان (2006ئ) یا غزہ کے خلاف ”آپریشن ڈھلواں سیسہ“ (Operation Cast Lead) کی شکل میں ہو گا۔“ گویا اسرائیل جون 1967ءکی سی جنگی واردات کرنے پر تُلا ہوا ہے جس میں اس نے مصری فضائیہ ساری کی ساری تباہ کر دی تھی اور غرب اردن، بیت المقدس، غزہ اور جزیرہ نما سینا پر قبضہ کر لیا تھا، نیز شام سے جولان کی سطح مرتفع ہتھیا لی تھی۔
یہودی جنگجو عاموس یادلین نے اسرائیلی پارلیمنٹ کینسٹ کے ایک پینل سے گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا: ”مضبوط شام سے اسرائیل کو کہیں بڑا خطرہ درپیش ہے۔ اس نے روس سے ترقی یافتہ ایس 300طیارہ شکن موبائل میزائل حاصل کر لئے ہیں۔ یہ بہت مو ¿ثر اور مہلک میزائل اسرائیلی فضائیہ کے لئے مرضی کی کارروائیاں زیادہ مشکل بنا دیں گے۔ ترقی یافتہ اسلحے کے لحاظ سے حزب اللہ بھی مضبوط تر ہو رہا ہے اور دمشق اسے ایس 300میزائل بھی فراہم کر سکتا ہے۔“
ایک طرف اسرائیل اگلی جنگ کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، دوسری طرف غرب اُردن میں فلسطینیوں کی زمینیں ہتھیانے کی سامراجی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ حال ہی میں اس نے بیت المقدس (یروشلم) پر اپنے قبضے کو توسیع دینے کے لئے اس کی نواحی بستی ہارہوما (Har Homa) میں یہودیوں کے لئے 983 نئے رہائشی یونٹ بنانے کا اعلان کیا ہے جبکہ اس وقت ہارہوما میں 7ہزار یہودی بستے ہیں۔ پیس ناﺅ (Peace Now) نامی نگران تنظیم کی ترجمان ہاگت اوفران کے بقول 42رہائشی یونٹ بیت لحم کے نواح میں اور 320یونٹ شمالی راموت میں تعمیر کئے جائیں گے۔ ادھر اوباما حکومت کی منافقت دیکھئے کہ اس نے اسرائیل کو فوجی و مالی امداد کی رسد جاری رکھنے کے لئے غرب اردن میں نئی یہودی بستیوں کی تعمیر پر90روزہ پابندی لگوانے کا ڈرامارچایا جبکہ اسرائیلی وزیر بنیامین نیتن یاہو نے یہ کہہ کر اس پابندی کو ہوا میں اڑا دیا کہ یروشلم ان پابندیوں کی ذیل میں نہیں آتا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسرائیل واشنگٹن کے کھونٹے پر ابلیسی رقص کر رہا ہے اور فلسطینیوں کے خلاف اس کے تمام تر جارحانہ و ظالمانہ اقدامات کو امریکی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے۔ امریکی ایوانِ نمائندگان کے واحد یہودی ری پبلیکن رکن ایرک کنٹور نے جولائی 2009ءمیں کہا تھا: یہ مطالبہ کرنا کہ ”اسرائیل 1967ءکی چھ روزہ جنگ میں ہتھیائے گئے علاقے خالی کر دے اور فلسطینیوں کا حقِ واپسی تسلیم کر لے جو کہ (یہودی دہشت گردی کے باعث) اپنے گھروں سے نکل بھاگے تھے جو آج کے اسرائیل میں واقع تھے، اسرائیل کے وجود کا تاریخی حق تسلیم نہ کرنے کے مترادف ہے“۔ اب یہی یہودی ایرک کنٹور ری پبلیکن اکثریت کے حامل ایوانِ نمائندگان میں پس پردہ امریکی خارجہ پالیسی بالخصوص اسرائیل کے متعلق پالیسی تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کرے گا اور اوباما انتظامیہ اسرائیل سے اختلاف کرنے کی معمولی سی جرا ¿ت بھی نہیںدکھا سکے گی۔
اسرائیلی حکمران ذاتی طور پر فلسطینیوں کے معاملے میں جس درندگی کا مظاہرہ کرتے آ رہے ہیں، اس کی ایک گواہی ہالینڈ (نیدرلینڈ) کے پروڈیوسر جارج سلویسٹر نے گزشتہ اکتوبر میں دی ہے۔ اس نے انکشاف کیا ہے کہ ”سابق اسرائیلی وزیراعظم ایریل شیرون جب 1982ءمیں وزیرِدفاع تھا تو اس نے بیروت میں صبرہ و شتیلا فلسطینی مہاجر کیمپوں کے قتلِ عام میں بنفس نفیس حصہ لیا تھا۔ سلویسٹر کے بقول ”میں ان دنوں لبنان میں ایک دستاویزی فلم کی شوٹنگ کر رہا تھا، میں فلسطینی مہاجر کیمپ کے مرکزی دروازے پر شیرون کے انتہائی قریب کھڑا تھا جب اس نے صرف دس میٹر دور کھڑے دو فلسطینی بچوں پر اپنے ریوالور سے فائر کیا جس سے وہ موقع ہی پر شہید ہو گئے“ ظالم شیرون گزشتہ چار پانچ سال سے کومے کی حالت میں جانکنی کے عذاب سے گزر رہا ہے!یاد رہے صبرہ و شیتلا میں اسرائیلی فوجی درندوں نے مسیحی عداد ملیشیا کے ساتھ مل کر دو تین فلسطینی بچے، عورتیں اور بوڑھے شہید کر دیئے تھے۔ اس سے پہلے دیریاسین میں 1948ءمیں فلسطینیوں کا قاتل اضحاک شمیر بھی 1970ءکی دہائی کے آخر میں اسرائیل کا وزیراعظم رہا تھا۔
امریکی کانگرس مین کنٹور گزشتہ سال ایوان میں ری پبلیکن لیڈر تھا اور اس نے اکثریتی ڈیموکریٹ لیڈر سٹینی ہوئر سے مل کر صدر اوباما کو ایک ای میل بھیجی تھی جس میں انتباہ کیا گیا تھا کہ ”مڈل ایسٹ پیس پراسس کے سلسلے میں اسرائیل پر دباﺅ نہ ڈالا جائے کیونکہ اس طرح اسرائیل کسی امن سمجھوتے میں عظیم ترین خطرات سے دوچار ہو جائے گا۔“ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ورجینیا سے منتخب ہونے والا یہودی کانگرس مین ایرک کنٹور کس قدر اسرائیل نواز ہے۔ مذکورہ ای میل دراصل امریکن اسرائیل پبلک افیئر کمیٹی (AIPAC) کے ایما پر بھیجی گئی تھی، جو امریکی یہودیوں کی مو ¿ثر ترین سیاسی تنظیم ہے جبکہ فلسطین کے حوالے سے امریکی صدور اور انتظامیہ کے تمام فیصلے دراصل AIPAC کے فیصلے ہوتے ہیں، چنانچہ اس ای میل کا عنوان بھی اس طرح تھا: "AIPAC Letter Hoyer Cantor May 2009" اور یہ ای میل ان دونوں ارکان کانگرس نے اپنے تمام ساتھی ارکان کو بھی ارسال کی تھی تاکہ وہ اوباما کے نام منسلک خط پر دستخط کر کے وائٹ ہاﺅس بھیج دیں۔
اس یہودی لابی اور ایپیک کے بل بوتے ہی پر اسرائیلی حکمرانوں میں اتنی ”جرا ¿ت“ہوتی ہے کہ گزشتہ دنوں جب مقبوضہ غرب اردن میں اسرائیلی بستیوں کی تعمیر پر 90روزہ پابندی ختم ہو رہی تھی اور صدر اوباما نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے اس مدت میں 60دن کی توسیع کی درخواست کی تو نیتن یاہو نے بڑی نخوت سے اسے مسترد کر دیا، حالانکہ اس کے عوض اوباما نے پیشکش کی تھی کہ اسرائیل کو سکیورٹی گارنٹی دی جائے گی، یو این او میں اسے سفارتی مدد مہیا کی جائے گی، مستقبل میں اسرائیل سے یہودی بستیوں کی تعمیر پر پابندی کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا لیکن نیتن یاہو بھلا اوباما کی بات کیوں مانتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ ساری مراعات تو اسرائیل کو بہرحال حاصل رہیں گی۔
چند سال پہلے اسرائیلی وزیرِسیاحت بینی ایلون نے بڑ ہانکی تھی: ”یہ بات واضح ہے کہ اسلام غائب ہو جانے کی راہ پر گامزن ہے“ مغرب میں کئی اور بقراط بھی دنیا کو اسلام سے خالی دیکھنے کی ہوائیاں چھوڑتے رہتے ہیں۔ یہ ان کی خام خیالی ہے۔ اسلام ربِّ کائنات جل جلالہ کا واحد سچا دین ہے۔ اللہ کا یہ نور مسلسل پھیل رہا ہے اور قیامت تک پھیلتا رہے گا خواہ کفار کو کتنا ہی برا لگے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام مسلمان اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں، باہم اختلافات بھلا دیں اور عقیدہ و عمل کے لحاظ سے سچے مسلمان بن جائیں۔ تب مسجدِ اقصیٰ بھی آزاد ہو گی، بابری مسجد بھی دوبارہ بنے گی اور قرونِ الٰہی کی طرح اسلام ہی غالب ہو گا اور بینی ایلون، امریکی پادری ٹیری جونز، پوپ بینی ڈکٹ، اطالوی وزیراعظم برلسکونی، ڈچ گیرٹ ویلڈر‘ بال ٹھاکرے اورایڈوانی جیسے اسلام دشمن خائب و خاسر ہو کے رہیں گے



بشکریہ،،جرار
 
Top