اسرائیل کو تسلیم کرنے کی فروعی بحث

جاسم محمد

محفلین
اسرائیل کو تسلیم کرنے کی فروعی بحث
27/08/2019 نصرت جاوید


کامران خان صاحب اور میں نے انگریزی صحافت کے لئے رپورٹنگ کا آغاز تقریباََ ایک ساتھ کیا تھا۔ میں اپنے بچپن میں لیکن ’’بیمارشمار‘‘ رہا تھا۔ لہذا بہت ترقی نہ کرپایا۔ کامران خان صاحب بہت توانائی سے آگے بڑھتے چلے گئے۔ Celebrity صحافی اور اینکر شمار ہوتے ہیں۔کئی معاملات کے بارے میں ان کے تجزیے کو حرفِ آخر گردانا جاتا ہے۔ ربّ کریم انہیں مزید کامرانیوں سے نوازے۔

چند روز قبل کامران خان صاحب اسلام آباد تشریف لائے تھے۔ ایک ٹویٹ کے ذریعے انہوں نے اپنے مداحین کو آگاہ کیا کہ اسلام آباد میں اپنے قیام کے دوران انہوں نے وزیر اعظم کے علاوہ وزیر خزانہ صاحب سے بھی ملاقاتیں کیں۔ ان کے علاوہ ریاستی فیصلہ سازی کے حوالے سے اہم مناصب پر فائز لوگوں سے بھی ان کی گفتگو ہوئی۔ ان سب ملاقاتوں کے بعد خان صاحب نے قوم کو یہ نوید سنائی کہ ایک مشہور شعر والے ’’فریاد کے دن‘‘ تھوڑے رہ گئے ہیں۔پاکستان کو افغانستان اور کشمیر کے حوالے سے ’’اچھی خبریں‘‘ ملنے والی ہیں۔ معیشت بھی درست سمت کی جانب بڑھنا شروع ہوگئی ہے۔کچھ عرصے بعد استحکام اور خوش حالی کی صورتیں رونما ہونا شروع ہوجائیں گی۔

اتوار کے روز مگر انہوں نے ایک اور ٹویٹ لکھ دیا۔ غالباََ بھارت کے وزیر اعظم کو ایک ’’برادر ملک‘‘ کی جانب سے ملے اعلیٰ ترین اعزاز سے ناراض ہوکر اس ٹویٹ کے ذریعے انہوں نے اس خواہش کا اظہار کردیا کہ پاکستان کو اسرائیل کے حوالے سے اپنے رویے پر نظرثانی کرنا ہوگی۔

خان صاحب سے گفتگو کئے بغیر میں ذاتی طورپر یہ باور کرنے کو ترجیح دیتا ہوں کہ مذکورہ ٹویٹ کے ذریعے انہوں نے اپنی ذاتی رائے کا اظہار کیا۔ ہمارے ہاں لوگوں کو مگر دو جمع دو کرکے چار نکالنے کی عادت ہے۔ کئی افراد سوشل میڈیا پر واویلا مچانا شروع ہوگئے ہیں کہ کامران خان صاحب ’’اسرائیل کو تسلیم‘‘ کرنے کے لئے ہمارے عوام کو تیار کرنا شروع ہوگئے ہیں۔غالباََ اسلام آباد میں حالیہ قیام کے دوران ان کی جن اہم لوگوں سے ملاقاتیں ہوئی انہوں نے کامران خان صاحب کو یہ ’’فریضہ‘‘ سوپنا ہوگا۔ اس مفروضہ کی بنیاد پر سوشل میڈیا پر گرماگرم بحث چھڑگئی۔ رونق لگ گئی۔

ہمیں یا دنہ رہا کہ مقبوضہ کشمیر میں 80لاکھ انسانوں پر مسلط ہوئے لاک ڈائون کے 20دن گزرگئے ہیں۔اس میں نرمی کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔ بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر میں زندگی کو لیکن ’’نارمل‘‘ بتائے چلی جارہی ہے۔’’معمول کے مطابق‘‘ رواں زندگی کو دیکھنے سے روکنے کے لئے البتہ نہروخاندان کے سیاسی وارث اور بھارتی لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف راہول گاندھی کو سری نگرایئرپورٹ پراُترنے کے فوری بعددوسری پرواز ہی سے نئی دہلی لوٹادیاجاتا ہے۔ ہمارے وزیر خارجہ کئی ممالک کے سربراہوں اور وزرائے خارجہ سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ عالمی اداروں کے نمائندوں کو بھی فون پر گفتگو میں مصروف رکھتے ہیں۔ ان تمام تر پیش قدمیوں کے باوجود مودی سرکار لاک ڈائون میں نرمی لانے کو تیار نہیں ہورہی۔

میری ناقص رائے میں اس وقت پاکستان کے لئے بنیادی اور سب سے بڑا سفارتی چیلنج یہ ہے کہ وادیٔ کشمیر کی وسیع وعریض جیل میں محصور ہوئے مظلوموں کو یہ خبر ملے کہ ہماری مسلسل کاوشوں کی بدولت ان کی اذیت میں تھوڑی کمی آئی۔مزید آسانیوں کی راہ بھی نکل رہی ہے۔ اس کے علاوہ جو بھی موضوعات ’’سفارت کاری‘‘ کے نام پر اچھالے جارہے ہیں وہ اصل موضوع سے توجہ ہٹانے کا باعث ہوں گے۔جان کی امان پاتے ہوئے یہ عرض کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ ایک ’’برادرملک‘‘ کی جانب سے نریندرمودی کو اپنے ملک کا اعلیٰ ترین اعزاز دینا بھی فی الوقت اس ماتم کنائی کا مستحق نہیں جو رواں رکھی جارہی ہے۔

’’اُمہ‘‘ کی محدودات محض اس اعزاز سے آشکار نہیں ہوئی ہیں۔ 1980کی دہائی میں ایران اور عراق آٹھ برس تک ایک دوسرے کے خلاف وحشیانہ جنگ میں مصروف رہے تھے۔ ’’اُمہ‘‘ اسے روکنے میں ناکام رہی۔ دونوں ممالک خود ہی تھک کر جنگ بندی کو تیار ہوگئے۔ 1990کی دہائی میں ’’اُمہ‘‘ عراق کا کویت پر قبضہ نہ روک پائی۔کویت کو امریکہ نے ’’آزاد‘‘ کروایا۔ افغانستان اورعراق پر ’’دہشت گردی‘‘ کے خاتمے کے نام پر مسلط ہوئی جنگوں کا بھی اس صدی کے آغاز میں ’’اُمہ‘‘ کے پاس کوئی توڑ موجود نہیں تھا۔

اب کئی برسوں سے یمن میں خانہ جنگی جاری ہے۔اس خانہ جنگی کی بدولت لاکھوں کی تعداد میں معصوم بچے فاقہ کشی کا شکار ہوئے۔شام میں خانہ جنگی کے نتیجے میں پانچ لاکھ مسلمانوں کی ہلاکت ہوئی۔ حلب جیسا تاریخی شہر تباہ وبرباد ہوگیا۔ لاکھوں شامی پناہ کی تلاش میں ترکی سے ہوتے ہوئے یورپی ممالک میں داخل ہونے کی کوشش کرتے رہے۔ یورپی ممالک میں اس کی وجہ سے مسلمانوں کے خلاف تعصب بھرپورنفرت کی صورت رونما ہوناشروع ہوگیا۔انتخابات میں ان جماعتوں کو حیرت انگیز کامیابیاں ملنا شروع ہوگئیں جو انتخابی مہم کے دوران انتہائی ڈھٹائی سے مسلمانوں اور اسلام کے خلاف وحشیانہ نفرت کا اظہار کرتی پائی گئیں۔ برما سے سات لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو ریاستی سرپرستی میں ہوئی نسل کشی کے ذریعے جلاوطنی پر مجبور کردیا گیا۔ان کی اکثریت اب بنگلہ دیش کے کیمپوں میں جانوروں سے بھی بدترزندگی گزاررہی ہے۔’’اُمہ‘‘ کے پاس ان کے دُکھوں کا بھی کوئی مداوا نہیں۔وادیٔ کشمیر کے مظلوموں کی ’’اُمہ‘‘ اس تناظر میں کیا مدد کرپائے گی؟

دُکھی دل سے یہ بات تسلیم لینے میں کوئی حرج نہیں کہ آفت کی اس گھڑی میں لاک ڈائون کی اذیت سہتے کشمیری لاوارث نظر آرہے ہیں۔پاکستان مگر اخلاقی اعتبار سے ان کی ہر نوعیت کی مدد کرنے کا پابند ہے۔ ہمیں اجتماعی طورپر اپنی تمام تر توجہ اس فرض کی ادائیگی پر مرکوز رکھنا ہوگی۔ اس کے علاوہ جو بھی ہورہا ہے اسے فی الحال نظرانداز کریں۔ بنیادی ہدف سے توجہ کو اِدھراُدھر بھٹکنے نہ دیں۔

کئی بار اس کالم میں بہت غور کے بعد اس رائے کا اظہار کرتا رہا ہوں کہ آفت کی اس گھڑی میں کشمیریوں کو فقط امریکہ کی معاونت سے ٹھوس حوالوں سے فوری ریلیف فراہم کی جاسکتی ہے۔ٹرمپ نے بذاتِ خود 22جولائی کے روز ہمارے وزیر اعظم کو وائٹ ہائوس میں اپنے دائیں ہاتھ بٹھاکر ثالثی کا وعدہ کیا تھا۔پیرکے روز اس کی بھارتی وزیر اعظم سے فرانس میں ایک ملاقات ہونا ہے۔ ٹھوس اطلاعات تک رسائی کے بغیر میں ربّ کریم سے فریاد ہی کرسکتا ہوں کہ مودی،ٹرمپ ملاقات سے قبل پاکستان نے امریکی صدرکو اس کا وعدہ یا ددلانے کا ہر ممکن ذریعہ استعمال کیا ہوگا۔ شاید اسی باعث وزیر اعظم عمران خان صاحب پیر کے روز قوم سے خطاب کرنا چاہ رہے تھے۔ ہوسکتا ہے انہیں امید دلائی گئی ہو کہ ٹرمپ،مودی ملاقات کے دوران امریکی صدر بھارتی وزیر اعظم سے مقبوضہ کشمیر پر مسلط ہوئے ’’لاک ڈائون‘‘ کے ازالے کے لئے مؤثراقدامات اٹھانے کا مطالبہ کرے گا۔ ٹرمپ کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے متوقع اور ممکنہ مطالبے کے اظہار کے بعد مودی سرکار اپنے رویے میں کس حد تک نرمی لاتی ہے اس کے بارے میں پیش گوئی سے گریز کو مجبور ہوں۔ربّ کریم سے خیر کی امید رکھنا مگر ضروری ہے۔

اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے میری دانست میں جو ’’فروعی‘‘ بحث چھڑگئی ہے اس کے بارے میں فی الوقت آپ کو اتنا یاد دلاکر یہ کالم ختم کرنا ہوگا کہ جمعیت العلمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمن اکتوبر کے مہینے میں اسلام آباد پر یلغار کے پروگرام پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو زرداری ان کا ساتھ دینے کو تیار نہیں۔نون لیگ کے جو رہ نما ابھی تک احتساب والوں سے بچے ہوئے ہیں اس معاملے میں تذبذب کا شکار ہیں۔مولانا اپنی جماعت کو ’’ناموس رسالتؐ‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے متحرک کررہے ہیں۔ حکومت کو اب تک قوی امید ہے کہ وہ مولانا کی تحریک کو ریاستی قوت کے بھرپور استعمال سے پرواز بھرنے بھی نہیں دے گی۔اس مرحلے پر واقعتا اسرائیل کو تسلیم کرنے والی بات جو اس وقت محض افواہ سازی اور فروعی گپ شپ سنائی دے رہی ہے کوئی عملی صورت لیتی نظر آئی تو مولانا کے لئے انگریزی محاورے کا Dream Comes True والا معاملہ ہوجائے گا۔ اس کے سوا اور لکھنے کو جی نہیں چاہ رہا۔ مقبوضہ کشمیر پر مسلط ہوئے ’’لاک ڈائون‘‘ کا 21واں دن شروع ہوگیا ہے۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
 

جاسم محمد

محفلین
کیا پاکستان کو اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے چاہیے؟
دونوں ممالک میں کئی مماثلتیں ہیں۔ دونوں 1947 میں مذہبی اور دو قومی نظریے کی بنیاد پر قائم ہوئے لیکن ایک دوسرے سے آغاز سے دور ہیں اور باضابطہ کبھی تعلقات قائم کرنے کی کوشش نہیں کی۔

مونا خان
نامہ نگار، اسلام آباد @mona_qau
منگل 27 اگست 2019 12:30
36746-315603289.jpg

ماضی قریب میں کسی پراسرار اسرائیلی طیارے اور کسی خاص مہمان کے پاکستان آنے اور کچھ گھنٹے رکنے کی خبریں بھی پاکستان میں گردش کرتی رہی تھی جن کی حکومت نے سختی سے تردید کی تھی۔(سوشل میڈیا)

پاکستان میں خلیجی ریاست متحدہ عرب امارات کی جانب سے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو قومی اعزاز دینے پر غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ ایسے میں سماجی ویب سائٹس اور مقتدر حلقوں میں بحث چل نکلی ہے کہ کیا پاکستان کو جذبات کو ایک جانب رکھتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ سفارتی و تجارتی تعلقات کا آغاز کر دینا چاہیے؟

دونوں ملکوں میں کئی مماثلتیں ہیں۔ دونوں 1947 میں مذہبی اور دو قومی نظریے کی بنیاد پر قائم ہوئے لیکن اس کے باوجود دونوں ایک دوسرے سے ہمیشہ دور ہی رہے اور باضابطہ کبھی تعلقات قائم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس وقت جب پاکستان کشمیر پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی چال کا جواب تلاش کر رہا ہے تو اس میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بات بھی اٹھائی جا رہی ہے۔

لیکن سابق پاکستانی سفیر عبد الباسط مختلف رائے رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحث کشمیر کے مسئلے سے توجہ ہٹانے کی ایک کوشش ہے۔‘

اینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہر چیز کا مناسب وقت ہوتا ہے اور ابھی اسرائیل سے تعلق قائم کرنے کا مناسب وقت بالکل بھی نہیں ہے۔ ’اس وقت اگر اسرائیل سے تعلق قائم کیا گیا تو اس سے یہ پیغام جائے گا کہ پاکستان نے متحدہ عرب امارات اور بھارت تعلقات کے ردعمل میں یہ قدم اُٹھایا ہے۔‘

سابق سفیر نے کہا کہ اس موقعے پر اسرائیل کے پاکستان سے تعلقات پر بحث کرنے سے کشمیر کا معاملہ پس پردہ چلا جائے گا۔ تمام فوکس اس وقت کشمیر ہے اور اسی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ ابھی اس موقعے پر ایسا کچھ سوچا جا رہا ہے۔

خلیجی ممالک سے متعلق پالیسی امور کے ماہر منصور جعفر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اگر اسرائیل کو تسلیم کرتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس نے فلسطینی زمین پر اس کا قبضہ بھی تسلیم کر لیا ہے۔ انہیں خدشہ ہے کہ ’ایسی صورت میں کشمیر پر پاکستان کا موقف کمزور ہو جائے گا۔‘

پاکستان اسرائیل سے تعلقات قائم کیوں نہ کر سکا؟

ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان کے اب تک اسرائیل سے تعلقات قائم نہ کر سکنے کی تین وجوہات ہیں۔

  • پاکستان عرب مسلم ممالک کے ساتھ مذہبی یکجہتی
  • دنیا بھر میں قدامت پسند مسلمان تنظیموں کی جانب سے منفی ردعمل کا خدشہ
  • ملک کے اندر سیاسی عدم استحکام اور مذہبی گروپوں کے ردعمل کا خوف
لیکن بھارت کے ساتھ پاکستان کی دشمنی اور مسئلہ کشمیر کے باوجود عرب ممالک کے بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات نے اس رائے کو بھی جنم دیا ہے کہ جب عرب پاکستان کے دشمن ملک سے ہاتھ ملا سکتا ہے، ایوارڈ دے رہا ہے تو پاکستان کسی کی لڑائی کی وجہ سے ایک اضافی دشمن کیوں پالے؟ پاکستان کو بھی اپنی سفارتی پوزیشن مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔

بین الاقوامی امور کے ماہر اور تدریسی شعبے سے وابستہ سلمان بیٹانی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خارجہ پالیسی جذبات کی بنیاد پر نہیں بلکہ قومی مفاد کی خاطر بنانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ پاکستان کے سفارتی تعلقات قائم کرنے کے حوالے سے پہلے بھی کام ہو چکا ہے لیکن پاکستان میں عوام نے اس حوالے سے موقف اختیار کر رکھا ہے جس کی وجہ یہ تعلق استوار کرنا ایک چیلنج ہے۔ اور موجودہ حالات کے تناظر میں تعلقات قائم کرنا شاید موافق نہیں ہو گا۔

سفارتی و دفاعی تجزیہ کار قمر چیمہ نے کہا کہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے اور نظریاتی ریاست ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’بے شک عرب دنیا کشمیر کے معاملے پر ہمارے ساتھ کھڑی نہیں ہوئی لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اس موقع پر دباؤ میں آ کر اسرائیل سے تعلقات بنا لیے جائیں اور نہ حکومت ابھی کچھ ایسا سوچ سکتی ہے۔‘

اسرائیل کو تسلیم کرنے سے پاکستان کو کیا فائدہ ہو گا؟

سلمان بیٹانی نے کہا کہ پہلی بات تو یہ کہ بھارت نے پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات نہ ہونے کا بہت فائدہ اٹھایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اسرائیل پاکستان سے تعلقات قائم کرتا ہے تو اسے جنوبی ایشیا کی سیاست میں توازن رکھنا پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات ہونے کی وجہ سے شاید پاکستان فلسطین کے لیے بھی مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے وزیر اعظم نے جب ہندوستان کا دورہ کیا تو ترغیب دلانے کے باوجود انہوں نے پاکستان کے خلاف کوئی بیان نہیں دیا تھا۔

سفارتی تجزیہ کار قمر چیمہ نے کہا کہ زیادہ تر اسلامی ریاستیں اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کیے ہوئے ہیں تو پاکستان کو کیا مسئلہ ہے؟ اگر پاکستان کی سیاسی قیادت اور عوام بھی اس بات کو بہتر سمجھتی ہے تو تعلق قائم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاک اسرائیل تعلق قائم ہونے سے پاکستان کا ترقی پسند ہونے کا تاثر ابھرے گا۔

اسرائیل سے تعلقات کا پاکستان کو کیا نقصان ہو گا؟

سابق سفیر عبد الباسط نے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں عوامی رائے اور ردعمل کی بہت اہمیت ہے۔ سنہ 2005 میں سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے بھی پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی تھی لیکن ان کو بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ سوچا جا رہا ہے کہ اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے سے بھارت کے ساتھ تعلق بہتر ہوں گے یا کشمیر کا مسئلہ حل ہو گا تو یہ خام خیالی ہے۔ دوسری بات یہ کہ پاکستان عرب ممالک اور ایران کو ناراض کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

بین الاقوامی امور کے ماہر سلمان بیٹانی نے کہا کہ ’میں نہیں سمجھتا کہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو اسرائیل سے تعلقات کا کوئی نقصان ہو گا، لیکن ملک کے اندر اور اندرونی سیاست میں اس بات پر سخت ردعمل آ سکتا ہے۔ خصوصاً عوام اور مذہبی حلقے اس کی مخالفت کریں گے جس سے نمٹنا حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔‘

قمر چیمہ نے کہا کہ پاکستان اسرائیل تعلق قائم ہونے کا صرف اندرونی نقصان ہے۔ ’عوام میں حکومت کی مقبولیت میں کمی ہو سکتی ہے اور عوام کا دباؤ بڑھ سکتا ہے جو کہ ملک میں انتشار پیدا کر سکتا ہے۔ لیکن ایسا اسی صورت میں ممکن ہے اگر تمام سیاسی جماعتیں ایک صفحے پر موجود ہوں۔‘

ماضی میں اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کی کوششیں

ماضی قریب میں کسی پراسرار اسرائیلی طیارے اور کسی خاص مہمان کے پاکستان آنے اور کچھ گھنٹے رکنے کی خبریں بھی پاکستان میں گردش کرتی رہی تھی جن کی حکومت نے سختی سے تردید کی تھی۔

اس سے قبل صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی خواہش کی خبریں آئی تھیں اور اس وقت کے پاکستانی وزیرِ خارجہ خورشید قصوری نے اپنے اسرائیلی ہم منصب سلون شالوم سے ملاقات بھی کی تھی جس کے بعد خود جنرل مشرف نے نیویارک میں اقوامِ متحدہ کے اجلاس کے موقعے پر اس وقت کے اسرائیلی وزیرِ اعظم ایریل شیرون سے ہاتھ ملایا تھا اور تصویریں کھنچوائی تھیں۔

000_Par338077.jpg

اس وقت کے پاکستانی وزیر خارجہ خورشید قصوری کی اسرائیلی وزیر خارجہ سے ستمبر 2005 میں استنبول میں ملاقات ہوئی۔ (اے ایف پی)

اسی دوران شالوم نے ایک پاکستانی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل نے پاکستان کو کبھی بھی اپنا دشمن نہیں سمجھا اور نہ ہی اس نے کبھی انڈیا کے ساتھ مل کر پاکستان کی ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف کوئی کارروائی کرنے پر غور کیا ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات قائم کرنی کی سب سے پہلے خواہش 1947 میں اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم نے بانی پاکستان محمد علی جناح کو ایک ٹیلیگرام لکھ کر کی تھی لیکن اس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا تھا۔ 2013 میں برطانیہ کے محکمہ تجارت نے الزام لگایا تھا کہ اسرائیل نے پاکستان کو عسکری ٹیکنالوجی دی ہے جس کی پاکستان نے سختی سے تردید کی تھی۔

ماہرین کے مطابق شاید موجوہد حالات میں اسرائیل کے ساتھ فوری تعلقات کا قیام ممکن نہ ہو لیکن اس پر تفصیلی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
 
Top