استغاثہ

الف نظامی

لائبریرین
مرے مولائے عالَم
دھیرے دھیرے میرا دل تاریک ہوتا جا رہا ہے
اور مَیں بے نور آنکھوں سے
وہ کشتی کھے رہا ہوں
جس کے پیندے میں
مرے اپنے ہی ہاتھوں سے
کئی سوراخ ہوتے جا رہے ہیں
اور اُدھر
بوجھل سمندر کی ہوا
نوحے کی لے میں بَین کرتی ہے
مرے چپّو کو چھو چھو کر گزرتی ہے

مری کچھ مہرباں مرغابیاں ہیں
جن کو موجوں کے مزاجوں کی خبر رہتی ہے
بے تابی سے آ آ کر
وہ سرگوشی میں
میرے بادبانوں کو بتاتی ہیں
کہ تم گہرے سمندر میں چلے آئے ہو
جس میں آج تک کوئی نہیں آیا
اور اس میں
ایک آدم خور گردابِ بلا ہے
جس سے کوئی بچ نہیں سکتا

مرے آقا
مرے بجھتے ہوئے دل
اور تاریکی کے ڈھیلوں جیسی آنکھوں کو
زمانوں اور گمانوں اور انسانوں کے بارے میں
حقائق کی ہدایت کر
مری اس کشتیِ دنیا و دیں کے
ٹکڑے ٹکڑے کی حفاظت کر
کہ وقتِ استغاثہ ہے

( معین نظامی، طلسمات، لاہور، ۲۰۰۸ء )
 
Top