اساتذہ کی توجہ کیلیے ایک گنگناتی غزل،'' اُس کی گلی سے گزرنا پڑا''

کچھ تبدیلیاں

اُس کی گلی سے گزرنا پڑا
مرنا نہیں تھا، پہ مرنا پڑا

گُل جب سے ناراض ہونے لگے
خوشبو کا تاوان، بھرنا پڑا

ہجراں میں اُس کے پئے ہی گئے
کرنا پڑا، یہ بھی کرنا پڑا

مجنوں بنے پھر رہے تھے کہیں
اُس نے کہا تو سنورنا پڑا

نگاہوں میں اُسکی گرے اس طرح
سوچا تھا ڈوبیں، ابھرنا پڑا

اعلان رسوائیوں کا مری
چاہا نہیں ، پھر بھی کرنا پڑا

مرضی خدا پوچھتا بھی تو کیوںٴ
اظہر ہمیں بس اُترنا پڑا
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ اظہر صاحب، عموماً نئی بحر نہیں بنائی جاتی کیونکہ پہلے ہی اتنی بحریں ہیں کہ شمار سے باہر۔ ہاں کچھ قادر الکلام اور استاد شعرا منہ کا ذائقہ بدلنے کیلیے کبھی کبھار اس طرح کا تجربہ بھی کر لیتے ہیں۔
 
شکریہ اظہر صاحب، عموماً نئی بحر نہیں بنائی جاتی کیونکہ پہلے ہی اتنی بحریں ہیں کہ شمار سے باہر۔ ہاں کچھ قادر الکلام اور استاد شعرا منہ کا ذائقہ بدلنے کیلیے کبھی کبھار اس طرح کا تجربہ بھی کر لیتے ہیں۔
محترم محمد وارث صاحب اگر غزل پر کچھ تبصرہ عنایت ہو جاتا تو :)
 
شکریہ اظہر صاحب، عموماً نئی بحر نہیں بنائی جاتی کیونکہ پہلے ہی اتنی بحریں ہیں کہ شمار سے باہر۔ ہاں کچھ قادر الکلام اور استاد شعرا منہ کا ذائقہ بدلنے کیلیے کبھی کبھار اس طرح کا تجربہ بھی کر لیتے ہیں۔

ویسے وارث بھائی یہ کونسی بحر ہے؟
اگر بحر نہیں ہے تو ایجاد کرلینے میں کیا مضائقہ؟ اگر ارکان کی تکرار ٹھیک طور پے ہو تو؟
 

الف عین

لائبریرین
یہ بحر تو مترنم ہی ہے، اس لئے اس کی اجازت تو یقیناً دی جا سکتی ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ ایسی بحروں کی اجزت دی جانی چاہیے جس میں ایک ہی رکن دہرایا جائے، مثلاً یہاں فعولن فعولن فعولن فعو÷فعول، لیکن مختلف دائروں کے مختلف افاعیل کا ایک مجموعہ بنا دیا جائے تو یہ درست نہیں مانا جانا چاہئے۔
 

الف عین

لائبریرین
میرے خیال میں ایسی بحر کی اجازت ہونی چاہئے جس میں ایک ہی افاعیل کو دہرانے سے بنے، مثلاً فعولن فعولن فعولن فعو÷فعول جیسی اظہر کی اس غزل کی ہے۔ لیکن خواہ مخواہ مختلف افاعیل کا مجموعہ بنایا جائے تو غلط ہوگا۔جیسے فعولن مستفعلن مفاعلن، یہ مجموعہ تو ہو جائے گا، لیکن بحر نہیں بن سکے گی۔ تمہاری غزل کی یہ بحر تو مترنم محسوس ہی ہوتی ہے۔
 
میرے خیال میں ایسی بحر کی اجازت ہونی چاہئے جس میں ایک ہی افاعیل کو دہرانے سے بنے، مثلاً فعولن فعولن فعولن فعو÷فعول جیسی اظہر کی اس غزل کی ہے۔ لیکن خواہ مخواہ مختلف افاعیل کا مجموعہ بنایا جائے تو غلط ہوگا۔جیسے فعولن مستفعلن مفاعلن، یہ مجموعہ تو ہو جائے گا، لیکن بحر نہیں بن سکے گی۔ تمہاری غزل کی یہ بحر تو مترنم محسوس ہی ہوتی ہے۔

متفق۔ بلکہ شاید ڈھونڈا جائے یا کچھ کوشش کی جائے تو یہ بحر آفیشل نام کے ساتھ جگہ لے سکتی ہے۔ مجھے تو پسند آیا کافی یہ وزن۔
 

الف عین

لائبریرین
یہ میری غلطی تھی۔ واقعی اس کی بحر مفعول مفعول۔۔۔۔ ہے، میں نے دوبارہ نہیں دیکھا، محض یاد داشت کے سہارے اس کی تقطیع کر دی۔ بحروں کے نام کے لئے تو وارث ہی اتھارٹی ہیں۔ ان سے ہی پوچھا جائے
 
مفعول مفعول مفعول فع اور
فعلن فعولن فعولن فعل

دونوں کا ایک ہی وزن بنتا ہے۔
۲۲÷۱۲۲÷۱۲۲÷۱۲

اور میرے حساب سے دوسرے ارکان میں یعنی فعلن فعولن والے ارکان میں بتانا بہتر ہے۔ اب شاید اسی وزن کی تکرار پہ توجہ دی جائے بجائے وقت ضائع کرنے کے۔
 

الف عین

لائبریرین
اُس کی گلی سے گزرنا پڑا
مرنا نہیں تھا، پہ مرنا پڑا
//تکنیکی طور پر درست، لیکن دوسرا مصرع میں ’پہ‘ کا استعمال اچھا نہیں لگتا
مرنا نہ تھا، پھر بھی مرنا پڑا
بہتر ہے

گُل جب سے ناراض ہونے لگے
خوشبو کا تاوان، بھرنا پڑا
//درست

ہجراں میں اُس کے پئے ہی گئے
کرنا پڑا، یہ بھی کرنا پڑا
//’پئے ہی گئے‘کچھ عجیب سا بیانیہ ہے
اس کی جدائی میں پیتے گئے
کرنا پڑا، یہ بھی کرنا پڑا

مجنوں بنے پھر رہے تھے کہیں
اُس نے کہا تو سنورنا پڑا
//درست

نگاہوں میں اُسکی گرے اس طرح
سوچا تھا ڈوبیں، ابھرنا پڑا
//شعر کا مفہوم؟ ابھرنا کیوں پڑا؟

اعلان رسوائیوں کا مری
چاہا نہیں ، پھر بھی کرنا پڑا
//کس نے مجبور کیا تھا؟

مرضی خدا پوچھتا بھی تو کیوں
اظہر ہمیں بس اُترنا پڑا
//کچھ زمین کا حوالہ ہو جاتا تو بات واضح ہو جاتی کہ آدم کی تلمیح ہے۔ لیکن کچھ اصلاح سمجھ میں نہیں آ رہی ہے۔ خود بھی غور کرو اگر کچھ آدم کا حوالہ دیا جا سکے۔
 
اُس کی گلی سے گزرنا پڑا​
مرنا نہیں تھا، پہ مرنا پڑا​
//تکنیکی طور پر درست، لیکن دوسرا مصرع میں ’پہ‘ کا استعمال اچھا نہیں لگتا​
مرنا نہ تھا، پھر بھی مرنا پڑا​
بہتر ہے​
جی درست جناب

گُل جب سے ناراض ہونے لگے​
خوشبو کا تاوان، بھرنا پڑا​
//درست​

ہجراں میں اُس کے پئے ہی گئے​
کرنا پڑا، یہ بھی کرنا پڑا​
//’پئے ہی گئے‘کچھ عجیب سا بیانیہ ہے​
اس کی جدائی میں پیتے گئے​
کرنا پڑا، یہ بھی کرنا پڑا​
جی درست جناب

مجنوں بنے پھر رہے تھے کہیں​
اُس نے کہا تو سنورنا پڑا​
//درست​

نگاہوں میں اُسکی گرے اس طرح​
سوچا تھا ڈوبیں، ابھرنا پڑا​
//شعر کا مفہوم؟ ابھرنا کیوں پڑا؟​
یوں دیکھیے تو جناب​
نظریں سمندر تھیں ، ڈوبے مگر
دشمن کو دیکھا، ابھرنا پڑا


اعلان رسوائیوں کا مری​
چاہا نہیں ، پھر بھی کرنا پڑا​
//کس نے مجبور کیا تھا؟​
یوں دیکھیے گا جناب
اعلان رسوائیوں کا مری
چاہا جو اُس نے تو کرنا پڑا


مرضی خدا پوچھتا بھی تو کیوں​
اظہر ہمیں بس اُترنا پڑا​
//کچھ زمین کا حوالہ ہو جاتا تو بات واضح ہو جاتی کہ آدم کی تلمیح ہے۔ لیکن کچھ اصلاح سمجھ میں نہیں آ رہی ہے۔ خود بھی غور کرو اگر کچھ آدم کا حوالہ دیا جا سکے۔​
ایسے ٹھیک رہے گا کیا؟​
آدم کی مرضی نہیں تھی مگرٴ
اظہر اُنہیں بس اُترنا پڑا
گویا اب صورتحال کچھ یوں ہو گی
اُس کی گلی سے گزرنا پڑا
مرنا نہ تھا، پھر بھی مرنا پڑا

گُل جب سے ناراض ہونے لگے
خوشبو کا تاوان، بھرنا پڑا

اُس کی جداٴی میں پیتے گئے
کرنا پڑا، یہ بھی کرنا پڑا

مجنوں بنے پھر رہے تھے کہیں
اُس نے کہا تو سنورنا پڑا

نظریں سمندر تھیں ، ڈوبے مگر
دشمن کو دیکھا، ابھرنا پڑا

اعلان رسوائیوں کا مری
چاہا جو اُس نے تو کرنا پڑا

آدم کی مرضی نہیں تھی مگرٴ
اظہر اُنہیں بس اُترنا پڑا
 
Top