ازل سے ڈھونڈتے ہیں اک نگارِ فتنہ ساماں کو ۔ خالد مینائی

فرخ منظور

لائبریرین
اَزل سے ڈُھونڈتے ہیں اک نگارِ فتنہ ساماں کو
لِیے پِھرتے رہیں گے تا ابد تصویرِجاناں کو

ہمَیں بھی آپ ہی کرنا ہیں اپنے َدشت و َدر پیدا
کہ مجنُوں ساتھ لے کر گھر سے ِنکلا تھا بیاباں کو


مجھے تجھ سے چھڑایا ہے مِری بے اختیاری نے
مَیں اپنی بے بسی سے ناپتا ہوں طُولِ ہجراں کو

تِرے وحشی کو لے کر یُوں چمن میں فصلِ گُل آئی
کہ جیسے لائی ہو پَریوں کی محفل میں سلیماں کو

تڑپنے میں ہے اے تِیرِ نگاہِ ناز وہ لذّت
دلِ بیتاب میں رہنے دِیا ہے اپنے پیکاں کو

نہ ِکیجے شِکوۂ شب ہائے تنہائی کہ ازبَر ہیں
بُہت افسانہ ہائے بے کسی ، دیوارِ زنداں کو

تُجھے اے برق گِرنا اور خاکستر ہی کرنا ہے
تو میرا گھر جلانا اور بچا لینا گُلستاں کو !

وفا کی ڈال دی ہے پاؤں میں بَیڑی مُحبّت نے
نہیں زنجیر کی حاجت اسیرِ کُوئے جاناں کو


بہت کم یاد ہیں اہلِ جہاں کو قصّۂ ماضی
ِملی ہوتی زباں اے کاش خالدؔ ! طاقِ نِسیَاں کو

(خالدؔ مینائی)
 
Top