ارے یہ وسعتیں، ہم تنگئی داماں میں رکھتے ہیں - غزل برائے اصلاح

السلام علیکم
ایک غزل اصلاح کے لئے پیش ہے۔
بحر ہے :
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
بحر ہزج مثمن سالم
اساتذہء کِرام بالخصوص
محترم جناب الف عین صاحب
دیگر اساتذہ اور احباب محفل سے توجہ اور اصلاح کی درخواست ہے۔
-------------------------------------
حسیں رُخ، ابروِ خمدار، وہ عنواں میں رکھتے ہیں
تو ہم اب گردشِ پرکار کو امکاں میں رکھتے ہیں

فراخی کیا بتاتا ہے، عدن کے باغ کی واعظ
ارے یہ وسعتیں، ہم تنگئی داماں میں رکھتے ہیں

مرے سوزِ دروں کا حال کیا پوچھو، وہ حالت ہے
تپش ایسی تو شعلے آتشِ جولاں میں رکھتے ہیں

نفس یک دو نفس کی زندگانی کا بھروسہ کیا
طلب دنیا کی کیوں بندے دلِ ناداں میں رکھتے ہیں

مجھے دے لذّتِ آشوب وہ لطفِ فُغاں، جس کو
چھپا کر چشمِ آدم سے مَلَک داماں میں رکھتے ہیں

گرہ رشتوں میں ہے، پر دائرہ در دائرہ ہم بھی
تمھاری یاد، اطرافِ شبِ حجراں میں رکھتے ہیں
سیّد کاشف
--------------------------------
شکریہ۔
 

الف عین

لائبریرین
خوب غزل ہے، بس ایک دو باتیں۔
مطلع میں محض ابروئے خمدار لانے کی کوشش کرو، گردش پرکار کی مناسبت سے محض ابرو ہونا چاہئے۔ جیسے
وہ اپنی ابروئے خمدار کو۔۔۔
ارے‘ کا استعال نا گوار گزر رہا ہے۔ اس کی جگہ
ہم ایسی وسعتیں تو ۔۔۔ کر دیں تو کیسا رہے؟
آخری شعر بدلنے کی ضرورت ہے۔ شب ہجراں کہیں تب بھی واضح نہیں ہوتا۔
 
خوب غزل ہے، بس ایک دو باتیں۔
مطلع میں محض ابروئے خمدار لانے کی کوشش کرو، گردش پرکار کی مناسبت سے محض ابرو ہونا چاہئے۔ جیسے
وہ اپنی ابروئے خمدار کو۔۔۔
ارے‘ کا استعال نا گوار گزر رہا ہے۔ اس کی جگہ
ہم ایسی وسعتیں تو ۔۔۔ کر دیں تو کیسا رہے؟
آخری شعر بدلنے کی ضرورت ہے۔ شب ہجراں کہیں تب بھی واضح نہیں ہوتا۔
بہت بہت شکریہ استاد محترم۔ جزاک اللہ
میں ان تصحیحات کے بعد دوبارہ حاضر ہوتا ہوں۔ ان شا اللہ
 
غزل اصلاح کے بعد پیش ہے۔
استاد محترم جناب الف عین صاحب سے خصوصی توجہ کی درخواست ہے۔
دو اشعار میں تبدیلی کی ہے اور آخری شعر کی جگہ اب مقطع نے لے لی ہے۔
شکریہ۔

وہ اپنی ابروِ خمدار کو عنواں میں رکھتے ہیں
تو ہم اب گردشِ پرکار کو امکاں میں رکھتے ہیں

فراخی کیا بتاتا ہے، عدن کے باغ کی واعظ
ہم ایسی وسعتیں تو تنگئی داماں میں رکھتے ہیں

مرے سوزِ دروں کا حال کیا پوچھو، وہ حالت ہے
تپش ایسی تو شعلے آتشِ جولاں میں رکھتے ہیں

نفس یک دو نفس کی زندگانی کا بھروسہ کیا
طلب دنیا کی کیوں بندے دلِ ناداں میں رکھتے ہیں

مجھے دے لذّتِ آشوب وہ لطفِ فُغاں، جس کو
چھپا کر چشمِ آدم سے مَلَک داماں میں رکھتے ہیں

گرہ رشتوں میں ہے کاشف، مگر حیرت ہے ہم پھر بھی
اُسے شامل دعاؤوں میں ، ہر اک امکاں میں رکھتے ہیں


سیّد کاشف

شکریہ۔
 
استاد محترم جناب الف عین صاحب
مقطع میں تبدیلی کی ہے۔ شاید یہ کچھ بہتر صورت ہو؟

گرہ رشتوں میں ہے کاشف، مگر حیرت ہے ہم پھر بھی
اُسے شامل دعاؤوں میں ، ہر اک پیماں میں رکھتے ہیں
 
Top