اقتباسات ارون دھتی رائے کی کتاب چیک بک اور کروز میزائل سے اقتباس۔

اروندہتی رائے کی کتاب چیک بک اور کروز میزائل کے پہلے مضمون علم اور طاقت سے اقتباسات۔


  • جب میں ناخواندگی کا لفظ استعمال کرتی ہوں تو اس کا اطلاق میں اس تعلیم پر نہیں کرتی جو خواندگی کے نام پر دی جا رہی ہے لوگوں کے لئے جن چیزوں کا علم ضروری ہوتا ہے تعلیم بعض اوقات اول الذکر کو ان سے مزید دور لے جاتی ہے یہ ان کے وژن کو مزید دھندلا اور مبہم کر دیتی ہے

  • جس ماحولیاتی نظام کو آپ سمجھتے ہی نہیں اس میں متکبرانہ مداخلت تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔

  • انسان کو جب کسی چیز کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوتا تو اس کی قدر کرنا چھوڑ دیتا ہے اور پھر اسے ایسے نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی۔

  • کسی چیز کو نہ سمجھنا بھی ایک شاندار احساس کو جنم دیتا ہے۔ قدرت کے رازوں کے پوشیدہ رہنے میں بھی ان کی عظمت ہے۔

  • میں انتہا پسندی اختیار کرتے ہوئے یہ دعویٰ نہیں کرنا چاہتی کہ سائنس کوئی چیز نہیں ہے لیکن تجسس , وقار ، عجز اور مختلف چیزوں کو "جہاں ہیں اور جیسے ہیں" کی بنیاد پر چھوڑ دینے میں توازن ہونا چاہیے ۔ کیا ہر چیز کو کریدنا ، اس کی ٹوہ لینا اس میں مداخلت کرنا اور اسے سمجھنا ضروری ہے؟

  • میں فیصلہ سازی کے اس غیر جمہوری عمل میں اختیارات کے اس کامل ارتکاز کو پسند نہیں کرتی۔ میں چاہتی ہوں اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ عوام اپنی زندگیوں اور قدرتی وسائل سے خود استفادہ کریں۔

  • بھارت کی فضا میں پائی جانے والی قوم پرستی اس قدر خوفناک ہے کہ میں دہشت زدہ ہو جاتی ہوں۔ قوم پرستی کو کسی بھی مقصد کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

  • آپ کے حالات آپ کے انتخاب کی وجہ بنتے ہیں۔

  • میں کوئی ایسا فرد نہیں ہوں جو بنی نوع انسان کی خدمت کر رہا ہو اور اس پر کوئی الزام عائد نہ کیا جاسکے لیکن کیا ایک خطا کار کی حیثیت سے کچھ نہ کہنا بہتر ہے یا کچھ کہنا مناسب ہے؟

  • اگر آپ کی ایسے شخص کے طور پر شناخت کر لی جائے جو کچھ نہ کچھ کہے گا، بولے گا ، تو اتنی سی حقیقت ہی آپ کو جھگڑے ، فساد، اذیت اور ناقابل یقین مصائب کی دنیا میں دھکیلنے کے لیے کافی ہے۔

  • میں اس امر سے آگاہ ہوں کہ پروقار انداز میں اپنی طاقت کو تسلیم کرنے اور اس کا غلط استعمال کرنے کے درمیان ایک باریک سی لکیر موجود ہے۔

  • عالمگیریت کا مطلب ہی یہ ہے کہ ایک قدر یا خصوصیت کو معیار مان لیا جائے ۔ غریب اور امیر دونوں ایک ہی چیز کے طالب ہوں لیکن ان کا حصول صرف امراء کے لیے ممکن ہو سکے۔
نوٹ: یہ اقتباسات گوگل ڈاکس کو بلند خوانی کرکے ٹائپ کروائے گئے۔
 
اروندہتی رائے کی کتاب چیک بک اور کروز میزائل کے دوسرے مضمون خوف و دہشت اور مشتعل بادشاہ سے اقتباسات۔

  • بعض اوقات میں سوچتی ہوں کہ دنیا دو طبقات میں تقسیم ہے، ایک طرف وہ لوگ ہیں جن کے طاقت کے ساتھ مراسم خوشگوار ہوتے ہیں اور دوسری طرف انسانوں کا وہ طبقہ ہے ، جس کے اندر فطری طور پر طاقت سے مخاصمانہ تعلقات کا عنصر موجود ہوتا ہے

  • متعدد خوشیاں ایسی ہیں جو محبت اور کسی اچھے ہمراہی سے حاصل کی جاسکتی ہیں حتیٰ کہ کچھ خوشیاں ایسی بھی ہیں جو کچھ گنوانے پر ملتی ہیں

  • اشرافیہ کا حتمی مفاد صرف یہی نہیں رہ جاتا کہ وہ پُر تعیش زندگی گزاریں بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ اس پُر تعیش طرزِ زندگی کے ساتھ ساتھ اُن کے ضمیر پر بھی کوئی بوجھ نہ ہو

·

  • دنیا بھر کے سیاستدانوں کا (متفقہ) خیال ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے شور و غوغا کی آڑ میں امریکہ کئی ممالک سے اپنے حساب چکا رہا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس مقصد کے حصول کے لیے یہ ۔بہترین تکنیک ۔ہے، لہٰذا روسی حکومت چچنیا کے باسیوں کا شکار کررہی ہے، ایریل شیرون فلسطین میں ’’مصروفِ کار ‘‘ ہے یا بھارتی حکومت مسلمانوں کے خلاف ، بالخصوص کشمیر میں اپنے فسطائی ایجنڈے پر عمل کررہی ہے

  • اب جنگ کو دہشت گرد حملوں کا با جواز درِ عمل خیال کیا جاتا ہے

  • نائن الیون پر امیرکی حکومت کے ردِ عمل نے فی الاصل دہشت گردی کو مستند کردیا ہے۔ اس ردِ عمل نے دہشت گردی کو بے تحاشا قوتِ متحرکہ فراہم کی اور آخرالذکر کو اپنی بات سنانے کا واحد موئثر ذریعہ بنادیا ہے۔ کئی سالوں سے غیر متشدد مقامی تحریکوں کو کچلنے ، نظر انداز کرنے اور پاؤں کی ایک ٹھوکر سے راستے سے ہٹانے کا سلسلہ جاری ہے۔ دوسری صورت میں ، اگر آپ کوئی دہشت گرد ہیں تو اس امر کا قوی امکان موجود ہے کہ آپ کت ساتھ مذاکرات کیے جائیں گے، ممکن ہے آپ کو ٹی وی اسکرین پر بھی لایا جائے اور آپ پر اس قدر توجہ مرکوز کردی جائے جس کا آپ نے اس سے پہلے کبھی خواب بھی نہ دیکھا ہو

  • ہمیں عالمگیریت کی صرف اقتصادیات پر ہی نہیں، اس کی نفسیات پر بھی بحث کرنی چاہیے۔ یہ اس عورت کی نفسیات کی مانند ہے جو اپنے شوہر سے ہمیشہ پٹتی رہی ہو اور اسے ایک مرتبہ پھر اپنے شوہر کا سامنا کرنا پڑجائے جو اس سے کہہ رہا ہو ’’ مجھ پر ایک بار پھر اعتماد کرو‘‘۔ یہی کچھ ہورہا ہے۔ جن ملکوں نے جوہری اور کیمیائی ہتھیار ایجاد کیے ، جو نسلی عصبیت ، نسل پرستی اور غلامی کی جدید قسم کے علمبردار ہیں، جنھوں نے نسل کشی کے فن کو کاملیت سے ہمکنار کیااور دیگر ممالک کو صدیوں تک اپنی نو آبادیاں بنائے رکھا۔ جب وہ کہتے ہیں کہ وہ کھیل کے ایک ہموار میدان پر یقین رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وسائل کی مساویاور منصفانہ تقسیم ہونی چاہیے تاکہ یہ دنیا (رہنے کے لیے) ایک بہتر جگہ بن جائے تو دراصل وہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ’’ ہم پر ایک بار پھر بھروسا کرو‘‘۔ ہماری یہ سوچ ہی ایک مذاق ہوگی کہ جو وہ کہہ رہے ہیں ، اس کا مطلب بھی وہی ہے
 
Top