سید زبیر
محفلین
بادشاہ اور درویش کا مکالمہ
یہ پرانے دور کا قصہ ہے لیکن یادگار
جو خدا کے شکر کے کرتا ہے معنی آشکار
ایک گاوں سے ہوا اک شاہ کا عرشی گزر
آفتاب ابھرا نہیں تھا ، اور تھا وقت سحر
ایک خرقہ پوش تھا اس وقت راستے میں کھڑا
شاہ کو قلبی بشاشت سے سلام اس نے کیا
منہ ہی منہ میں پڑھ رہا تھا شاہ کچھ ، سو چپ رہا
سر کو دھیرے سے ہلایا اور آگے بڑھ گیا
عرض خرق پوش نے کی بے تکلف شاہ سے
گر اماں پاوں کہوں کچھ بات عالی جاہ سے
درویش
ایک سنت ہے سلام اور فرض ہے اس کا جواب
میں نے سنت کی ادا،کیوں فرض کو بھولے جناب؟
بادشاہ
میں ادائے شکر میں مصروف تھا پیارے فقیر
یہ گماں نہ کر کہ جانا ہے تجھے میں نے حقیر
درویش
مجھ کو بھی بتلا کہ کس کا شکر تھا ورد زباں؟
جس نے گلشن سے کیا غافل تجھے اے باغباں؟
بادشاہ
شکر اس کا بھا۴ی ،جو ہے خالق کون و مکاں
ذکر میں جس کے مگن دریا ، پرندے،وادیاں
درویش
کس طرح کرتا تو یہ شکر اے ظل خدا ؟
گر تجھے زحمت نہ ہو تو مجھ سے ناداں کو بتا
بادشاہ
کلمہ الحمدللہ کہہ کے اے یار آشنا
جس طرح سے اور سب مخلوق کرتی ہے ادا
درویش
شکر کا بہتر طریقہ بھی ہے کیا تو جانتا ؟
یا فقط لب سے ہی دیتا ہے یہ کلمہ چہچہا ؟
بادشاہ ہے تو ، نہیں اک بلبل نغمہ سرا
شکر کر اعمال سے ،یونہی نہ ہونٹوں کو ہلا
بادشاہ
کچھ وضاحت کر ،اگر ممکن ہو اپنی بات کی
جس نے ملوایا ہمیں ،تجھ کو قسم اس ذات کی
درویش
سلطنت کا شکر تو مخلوق پر الطاف ہے
بادشاہی کا ستوں ،پر عدل ہے انصاف ہے
شکر ہے فرماں روائی کا خدا کو جاننا
فرماں برداروں کی سب خدمات کو پہچاننا
شکر یہ طاقت کا ، کمزوروں پہ ہے رحم و کرم
بادشاہی کو کو کوئی کرتا ہے غارت تو ، ستم
مرتبہ تجھ کو خدا کے فضل سے گر ہے ملا
شکر اس کا یہ کہ ہو مخلوق کا ہر پل بھلا
جس طرح مخلوق ہے تیری پکڑ میں خوبرو
تو بھی مولا کی پکڑ میں ہے بھلا دینا نہ تو
چاہئیے شاہوں کے دل میں شوق تمہید کرم
تا رعایا کی نگاہوں میں رہیں وہ محترم
شکریہ صحت کا ، بے شک خدمت بیمار ہے
شکریہ دولت کا ، لیکن قربت نادار ہے
الغرض کیجئیے عمل سے شکر نعمت کا ادا
پھر زباں سے بھی ادا ہو جائے تو دو آتشہ
آب زر سے شہ نے ان کلمات کو لکھوا لیا
اور ان کو اپنا دستور العمل ٹھہرا لیا
ارشاد عرشی ملک