یوسف-2

محفلین
اردو سائنس یونیورسٹی (جو پہلے کالج تھا) میں گزشتہ کئی دہائیوں سے ایم ایس سی کی سطح تک اردو میں تعلیم دی جارہی ہے۔ اور اردو میں ایم ایس سی کرنے والے کسی بھی طرح سے انگریزی میں ایم ایس سی کرنے والوں سے کم نہیں۔ جب یہ ڈگری سطح تک کا کالج تھا اور کراچی کے درجنوں ڈگری سائنس کالجوں کے امتحانات جامعہ کراچی لیا کرتا تھا تب بھی اردو سائنس کالج کے طلبہ و طالبات نے انگریزی میڈیم کالجز کے طلباء کو پیچھے چھوڑتے ہوئے متعدد مرتبہ پوزیشنز ھاصل کرتے رہے ہیں۔
ہندوستان کی تقسیم سے قبل حیدرآباد دکن میں انجینئرنگ اور میڈیکل (ایم بی بی ایس) کی تعلیم اردو میں دی جاتی رہی ہے۔ پاکستان میں حکیم سعید شہید کے قائم کردہ طبیہ کالج میں طب کی تعلیم اردو میں دی جاتی رہی ہے۔ اب تو اردو یونیورسٹی میں ایل ایل بی، ایل ایل ایم اور ایم بی اے بھی اردو میں پڑھائی جارہی ہے۔ سائنس ،ٹیکنالوجی اور کامرس سمیت کسی بھی شعبہ حیات کی تدریس میں اردو بھی معیار سے انگریزی سے کم نہیں ہے۔ بس چونکہ اس کی “مارکیٹ ویلیو” نہیں ہے۔ اس لئے لوگ اردو کو “اپنانے”سے کتراتے ہیں۔ اگر پاکستان کی دفتری اور سرکاری زبان اردو کردی جائے تو انگریزی میڈیم والوں کی نام نہاد قابلیت کی قلعی فوراً کھل جائے ۔ لیکن جب تک ہمارے حکمران انگر یزوں کے وفادار اور ان کے ایجنٹ بنے رہیں گے، تب تک پاکستان میں اردو کو سرکاری حیثیت ھاصل نہیں ہوسکتی اور نہ یہاں کے غریب عوام کو یکساں حقوق مل سکیں گے۔
 
اردو سائنس یونیورسٹی (جو پہلے کالج تھا) میں گزشتہ کئی دہائیوں سے ایم ایس سی کی سطح تک اردو میں تعلیم دی جارہی ہے۔ اور اردو میں ایم ایس سی کرنے والے کسی بھی طرح سے انگریزی میں ایم ایس سی کرنے والوں سے کم نہیں۔ جب یہ ڈگری سطح تک کا کالج تھا اور کراچی کے درجنوں ڈگری سائنس کالجوں کے امتحانات جامعہ کراچی لیا کرتا تھا تب بھی اردو سائنس کالج کے طلبہ و طالبات نے انگریزی میڈیم کالجز کے طلباء کو پیچھے چھوڑتے ہوئے متعدد مرتبہ پوزیشنز ھاصل کرتے رہے ہیں۔
ہندوستان کی تقسیم سے قبل حیدرآباد دکن میں انجینئرنگ اور میڈیکل (ایم بی بی ایس) کی تعلیم اردو میں دی جاتی رہی ہے۔ پاکستان میں حکیم سعید شہید کے قائم کردہ طبیہ کالج میں طب کی تعلیم اردو میں دی جاتی رہی ہے۔ اب تو اردو یونیورسٹی میں ایل ایل بی، ایل ایل ایم اور ایم بی اے بھی اردو میں پڑھائی جارہی ہے۔ سائنس ،ٹیکنالوجی اور کامرس سمیت کسی بھی شعبہ حیات کی تدریس میں اردو بھی معیار سے انگریزی سے کم نہیں ہے۔ بس چونکہ اس کی “مارکیٹ ویلیو” نہیں ہے۔ اس لئے لوگ اردو کو “اپنانے”سے کتراتے ہیں۔ اگر پاکستان کی دفتری اور سرکاری زبان اردو کردی جائے تو انگریزی میڈیم والوں کی نام نہاد قابلیت کی قلعی فوراً کھل جائے ۔ لیکن جب تک ہمارے حکمران انگر یزوں کے وفادار اور ان کے ایجنٹ بنے رہیں گے، تب تک پاکستان میں اردو کو سرکاری حیثیت ھاصل نہیں ہوسکتی اور نہ یہاں کے غریب عوام کو یکساں حقوق مل سکیں گے۔
لیکن جنہوں نے شروع سے ہی انگریزی میں سائنس پڑھی ہو اُن کے لیے تو مشکل ہے نا۔
 
Top