بشیر بدر اداس آسماں ہے دل مرا کتنا اکیلا ہے

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
اداس آسماں ہے ، دل مرا کتنا اکیلا ہے
پرندہ شام کے پل پر بہت خاموش بیٹھا ہے

میں جب سوجاؤں ان پلکوں پہ اپنے ہونٹ رکھ دینا
یقیں آجائے گا،پلکوں تلے بھی دل دھڑکتا ہے

تمہارے شہر کے سارے دئیے تو سوگئے کب کے
ہوا سے پوچھنا ، دہلیز پہ یہ کون جلتا ہے

اگر فرصت ملے تو پانی کی تحریروں کو پڑھ لینا
ہر اک دریا ہزاروں سال کا افسانہ لکھتا ہے

کبھی میں اپنے ہاتھوں کی لکیروں سے نہیں الجھا
مجھے معلوم ہے قسمت کا لکھا بھی بدلتا ہے

پھر اس کے بعد تنہائی پرکھتی ہے مسافر کو
جہاں تک روشنی ہے اپنا سایہ ساتھ دیتا ہے

سمندر پار کرکے جب میں آیا دیکھتا کیا ہوں
ہمارے دو گھروں کے بیچ سناٹوں کا دریا ہے

مکاں سے کیا مجھے لینا ، مکاں تم کو مبارک ہو
مگر یہ گھاس والا ریشمی قالین میرا ہے
 
پھر اس کے بعد تنہائی پرکھتی ہے مسافر کو
جہاں تک روشنی ہے اپنا سایہ ساتھ دیتا ہے

سمندر پار کرکے جب میں آیا دیکھتا کیا ہوں
ہمارے دو گھروں کے بیچ سناٹوں کا دریا ہے

عمدہ انتخاب ہے۔داد قبول کیجیے۔:applause:
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
پھر اس کے بعد تنہائی پرکھتی ہے مسافر کو
جہاں تک روشنی ہے اپنا سایہ ساتھ دیتا ہے

سمندر پار کرکے جب میں آیا دیکھتا کیا ہوں
ہمارے دو گھروں کے بیچ سناٹوں کا دریا ہے

عمدہ انتخاب ہے۔داد قبول کیجیے۔:applause:
شکریہ داد قبول کر لی گئی :heehee:
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے، مطلع میں ذرا دیکھو پہلا مصرع کچھ اور ہونا چاہئے۔ اور یہاں بھی ’تو‘ زائد ہے۔
اگر فرصت ملے تو پانی کی تحریروں کو پڑھ لینا
 
Top