طارق شاہ
محفلین
غزلِ
اخترعالم تاباں
جو پردوں میں رہ کر تڑپتے رہے ہیں، وہ پردوں سے باہر کہیں آ نہ جائیں
گھڑی بھر نظر سے نظر مل نہ جائے، فسانے حقیقت سے ٹکرا نہ جائیں
ابھی تک اُنھیں دُور سے دیکھتا ہُوں تو محسُوس ہوتی ہے بھینی سی خوشبو
کسی دن وہ میرے بہت پاس آکر، مِری سادہ ہستی کو لہکا نہ جائیں
نہیں یہ مِری بیوفائی نہیں ہے، میں اِس واسطے اُن سے کھینچے ہُوں دامن
کہ تنہایوں میں مگن رہنے والے، اچانک مجھے پا کے گھبرا نہ جائیں
اُنھیں دیکھتا ہُوں تو بڑھتی ہے اُلجھن ، جو کرتا ہوں پُوجا ، تو جاتے ہے درشن !
اِسی آرزُو میں، اِسی کشمکش میں، مِرے ادھ کِھلے پُھول مُرجھا نہ جائیں
وہ نِکھری ہوئی چاندنی میں، سنْور کر درِیچوں کے نزدِیک بیٹھے ہوئے ہیں
میں اِک بات چُپکے سے کانوں میں کہدوں مگر اِس سے پہلے وہ شرما نہ جائیں
تصوّر میں کِس کو بُلاتا ہے تاباں، محبّت میں غم کی کہِیں جِیت بھی ہے
تِرے چند انمول اشکوں کے بدلے، نم آنکھوں کے وہ جام چھلکا نہ جائیں
اخترعالم تاباں