احمد فراز کی چوتھی برسی کے موقع پر محفل کا طرحی مشاعرہ

اسد قریشی

محفلین
احبابِ محفل کی نذر ایک کاوشِ خام، کہیں کوئی کمی، کوئی سقم ہو تو رہنمائی فرمائیں
ملا نہ کچھ بھی جہاں میں یہ دل لگا کے مجھے
فلک بھی تنگ ہوا اب تو آزما کے مجھے
میں رو چکا ہوں بہت اپنی حسرتوں پہ اے دل
ملے گا تجھکو بھی کیا اور اب رُلا کے مجھے
ہے اور کون یہاں پر کہ جس پہ آوے گی اب
تو کس کو آئی بجھانے قضاء! دیا کے مجھے
کسی کی راہ میں حائل میں سنگِ راہ نہیں
بڑھے ہیں لوگ ہمیشہ گِرا گِرا کے مجھے
پھر اس کے دل میں اٹھی خواہشِ ستم ہے اسد
"پیام آئے ہیں اس یارِ بے وفا کے مجھے"
کہو بہار سے تازہ ہیں زخم میرے اسد
پکارتی ہے یہ کیوں بار بار آ کے مجھے
اسد
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
صرف تین اشعار گو کہ وہ بھی کچھ خاص نہیں کہ یہ زمین میرے لئے بہت ہی مشکل ثابت ہوئی ہے۔​
دیے ہیں دھوکے تو دنیا نے انتہا کے مجھے
خلوص، عشق، محبت، جنوں، وفا کے مجھے

میں اُس کے عشق کی رو پہلی دھوپ چھانتا تھا
مگر وہ چھوڑ گیادشت میں جلا کے مجھے

میں، عمر گزری کہیں چھوڑ آیا ہوں سب کچھ
ستاتے اب بھی ہیں جھونکے مگر ہوا کے مجھے
 

عاطف بٹ

محفلین
جو اُس کے ساتھ نہ گزرے وہ پل سزا ہی تو ہیں
گزارنے ہیں مہ و سال اِس سزا کے مجھے
@محمد حفیظ الرحمٰن صاحب، بہت خوب!
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اس شعر پر آوے گی کی جگہ آئے گی کا استعمال زیادہ فصیح ہوتا۔۔۔۔
ہے اور کون یہاں پر کہ جس پہ آوے گی اب

تو کس کو آئی بجھانے قضاء! دیا کے مجھے
اس کے علاوہ۔۔۔
دیا کے مجھے ، کی جگہ دیا کہ مجھے ہونا چاہئے ، تاہم اس سے ردیف میں تغیر آئے گا، درست ہے کہ نہیں ۔۔۔ ؟
یہ شعر اچھا لگا۔۔۔
کسی کی راہ میں حائل میں سنگِ راہ نہیں
بڑھے ہیں لوگ ہمیشہ گِرا گِرا کے مجھے
بہت خوب۔۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
دیے ہیں دھوکے تو دنیا نے انتہا کے مجھے
خلوص، عشق، محبت، جنوں، وفا کے مجھے

میں اُس کے عشق کی رو پہلی دھوپ چھانتا تھا
مگر وہ چھوڑ گیادشت میں جلا کے مجھے

میں، عمر گزری کہیں چھوڑ آیا ہوں سب کچھ
ستاتے اب بھی ہیں جھونکے مگر صبا کے مجھے
۔۔۔ غزل لکھنا شاید آپ کے لیے اتنا مشکل نہ ہو اگر آپ اسے آسان سمجھیں اور اپنے لیے خود آسان بنائیں۔۔۔۔
صبا کے مجھے، کی جگہ ہوا کے مجھے شاید زیادہ بہتر ہوتا۔۔۔ میری غزل دیکھ لیجئے۔۔۔ امکانات بہت زیادہ ہیں کہ قافیہ بہت آسان ہے۔۔
اچھا جو شعر لگا وہ یہ ہے:
میں اُس کے عشق کی رو پہلی دھوپ چھانتا تھا
مگر وہ چھوڑ گیادشت میں جلا کے مجھے
 

اسد قریشی

محفلین
اس شعر پر آوے گی کی جگہ آئے گی کا استعمال زیادہ فصیح ہوتا۔۔۔ ۔
ہے اور کون یہاں پر کہ جس پہ آوے گی اب
تو کس کو آئی بجھانے قضاء! دیا کے مجھے
اس کے علاوہ۔۔۔
دیا کے مجھے ، کی جگہ دیا کہ مجھے ہونا چاہئے ، تاہم اس سے ردیف میں تغیر آئے گا، درست ہے کہ نہیں ۔۔۔ ؟
یہ شعر اچھا لگا۔۔۔
کسی کی راہ میں حائل میں سنگِ راہ نہیں
بڑھے ہیں لوگ ہمیشہ گِرا گِرا کے مجھے
بہت خوب۔۔
محترم شاہنواز صاحب،
بیحد ممنون ہوں آپ کی نگاہ نوازی و رہنمائی کا، لیکن جیسا کہ آپ جانتے ہیں تدوین کی گنجائش نہیں ہے ورنہ آپ کی تجویز پر فوری عمل کرتا.
بہت نوازش!
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
دیے ہیں دھوکے تو دنیا نے انتہا کے مجھے
خلوص، عشق، محبت، جنوں، وفا کے مجھے

میں اُس کے عشق کی رو پہلی دھوپ چھانتا تھا
مگر وہ چھوڑ گیادشت میں جلا کے مجھے

میں، عمر گزری کہیں چھوڑ آیا ہوں سب کچھ
ستاتے اب بھی ہیں جھونکے مگر صبا کے مجھے
۔۔۔ غزل لکھنا شاید آپ کے لیے اتنا مشکل نہ ہو اگر آپ اسے آسان سمجھیں اور اپنے لیے خود آسان بنائیں۔۔۔ ۔
صبا کے مجھے، کی جگہ ہوا کے مجھے شاید زیادہ بہتر ہوتا۔۔۔ میری غزل دیکھ لیجئے۔۔۔ امکانات بہت زیادہ ہیں کہ قافیہ بہت آسان ہے۔۔

دونوں غزلوں میں ہی قافیہ کی گنجائش بہت ہے مگر اس غزل کی ردیف نے زیادہ تنگ کیا ہے قافیہ کی بجائے۔
"صبا کے مجھے" کو "ہوا کے مجھے" سے بدل دیا ہے۔

اچھا جو شعر لگا وہ یہ ہے:
میں اُس کے عشق کی رو پہلی دھوپ چھانتا تھا
مگر وہ چھوڑ گیادشت میں جلا کے مجھے
شکریہ شاہد صاحب۔
 
غزلوں کی پسندیدگی کے لیے میں اساتذہء کرام اور دیگر دوستوں کا تہہِ دل سے سپاس گزار ہوں۔ انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے براہِ راست شرکت نہیں کرپاتا۔ خواہش کے باوجود بہت سے دوستوں کو ان کی غزلوں پر داد نہ دے پایا، معذرت خواہ ہوں۔ انشاء اللہ عنقریب یہ سہولت میسر آجائے گی۔ میں ایک مبتدی ہوں اور بزمِ سخن میں شرکت کا مقصد یہ ہے کہ مشق کے ساتھ ساتھ اصلاح بھی ہوتی رہے۔ اساتذہء کرام سے توجہ کی خصوصی گزارش ہے۔
غزل میں مزید دو شعر پیش کرنے کی جسارت کررہا ہوں ۔
غزل

محمد حفیظؔ الرحمٰن
تھپیڑے لو کے بھی جھونکے لگے صبا کے مجھے
جو اُس نے یاد کیا آج یوں، بھلا کے مجھے
جو اُس کے ساتھ نہ گزریں وہ پل سزا ہی تو ہیں
گزارنے ہیں مہ و سال اِس سزا کے مجھے
نجانے کِس کو دوعالم میں ڈھونڈتی ہے نظر
نجانے کون یہاں چھپ گیا بُلا کے مجھے
طلب کے واسطے حسنِ طلب بھی ہے درکار
طریقے آئیں گے کب عرض ِ مُدّعا کے مجھے
یہ کِس کی نیم نگاہی کا ہے فسوں طاری
یہ کون دیکھ رہا ہے نظر چراکے مجھے
ہزار باتوں میں میں ایک بات بھول گیا
وہ بات یاد بھی آئی تو دور جاکے مجھے
حفیظؔ جس کے لیے محوِ انتظار تھا میں
گزر گیا ہے ابھی اِک جھلک دِکھاکے مجھے

زمانہ بیت گیا پھر بھی یاد آتا ہے
وہ اُس کا تکنا نظر سے نظر ملاکے مجھے
میں وجہِ ترکِ تعلق بتاؤں کِس کِس کو
جواب دینے پڑیں گے ہما شما کے مجھے
 
السلام و علیکُم ،
جناب صدر کی اجازت سے عرض کرتا ہوں،

رنگ باقی ہے، روپ بھی ہے ابھی
قربتیں، آگ، دلکشی ہے ابھی
ہاں مجھے انتظار تو ہے مگر
بات بن جاٴے گی، چلی ہے ابھی
اُس کو کچھ وقت بھی تو دینا ہے
اول اول کی دوستی ہے ابھی
زندگی اور تجھ سے کیا چاہوں؟
وہ مرا تھا بھی اور وہی ہے ابھی
آس کب سے لگاٴے بیٹھا ہوں
وہ جھروکے سے جھانکتی ہے ابھی
ایسا ماضی میں کیا ہوا اظہر
عاشقی مُڑ کے دیکھتی ہے ابھی
 
اور یہ دوسرے غزل جناب صدر

پیام آٴے ہیں اُس یار بےوفا کے مجھے
اکیلا چھوڑ گیا تھا جو پار لا کے مجھے
میں مانتا ہوں بڑی غلطیاں ہوٴیں مجھ سے
تھکا نہیں ہے وہ سب کیوں بتا بتا کے مجھے
فراز، روح سے کہنا مجھے اجازت دے
تری زمین میں لکھنے کی شعر ، آ کے مجھے
نہ جانے ایسی تھی خوبی کی بات کیا مجھ میں
گرا وہ خود بھی زمیں پر اُٹھا اُٹھا کے مجھے
کہو اُسے کہ بچا کچھ نہیں ہے اب باقی
ملے گا کچھ نہیں افسوس اب ستا کے مجھے
بڑے عیاں تھے مرے عکس میں وہ دُکھ اظہر
کہ چھن سے ٹوٹ گیا، آیئنہ دکھا کے مجھے
 
احمد فراز کی چوتھی برسی کے موقع پر محفل کا طرحی مشاعرہ
السلام علیکم!
۲۵ اگست ، ۲۰۱۲ء کو احمد فراز کو ہم سے بچھڑے ہوئے چار برس بیت جائیں گے، مرحوم برصغیر پاک و ہند میں شاعری میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔اردو شعر و ادب میں ان کے مقام سے کون واقف نہیں۔اس سال احمد فراز کی چوتھی برسی پر ان کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے محفل پہ ایک طرحی مشاعرے کا انعقاد
احمد فراز کی چوتھی برسی کے موقع پر محفل کا طرحی مشاعرہ
السلام علیکم!
۲۵ اگست ، ۲۰۱۲ء کو احمد فراز کو ہم سے بچھڑے ہوئے چار برس بیت جائیں گے، مرحوم برصغیر پاک و ہند میں شاعری میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔اردو شعر و ادب میں ان کے مقام سے کون واقف نہیں۔اس سال احمد فراز کی چوتھی برسی پر ان کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے محفل پہ ایک طرحی مشاعرے کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔
صراحت:
مصرع ھائے طرح: از : جناب احمد فراز
’’ پیام آئے ہیں اس یارِ بے وفا کے مجھے ‘‘
افاعیل: مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فعلن
اور
’’ اول اول کی دوستی ہے ابھی ‘‘
افاعیل: فاعلاتن مفاعلن فعلن
بتاریخ : ۲۵ اگست ۲۰۱۲ء
حاشیہ: کلام چسپاں کرنے کی تاریخ ۱۰ اگست تا ۲۵ اگست دوہزار بارہ ہے ۔۔
امید ہے آپ سب احباب شرکت فرمائیں گے۔

کیا جا رہا ہے۔
صراحت:
مصرع ھائے طرح: از : جناب احمد فراز
’’ پیام آئے ہیں اس یارِ بے وفا کے مجھے ‘‘
افاعیل: مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فعلن
اور
’’ اول اول کی دوستی ہے ابھی ‘‘
افاعیل: فاعلاتن مفاعلن فعلن
بتاریخ : ۲۵ اگست ۲۰۱۲ء
حاشیہ: کلام چسپاں کرنے کی تاریخ ۱۰ اگست تا ۲۵ اگست دوہزار بارہ ہے ۔۔
امید ہے آپ سب احباب شرکت فرمائیں گے۔
قبله خليل صاحب ، عاجز بھي نيم قافيه بندي كرتا هے كبھي كبھي، هميں بھي ياد ركھا كريں ۔۔۔۔ الله آباد ركھے آپكو ؎
 
جناب احمد فراز کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے پہلی غزل مصرعِ طرح پر پیشِ خدمت ہے۔
غزل
محمد حفیظؔ الرحمٰن
تھپیڑے لو کے بھی جھونکے لگے صبا کے مجھے
جو اُس نے یاد کیا آج یوں، بھلا کے مجھے
جو اُس کے ساتھ نہ گزریں وہ پل سزا ہی تو ہیں
گزارنے ہیں مہ و سال اِس سزا کے مجھے
نجانے کِس کو دوعالم میں ڈھونڈتی ہے نظر
نجانے کوں یہاں چھپ گیا بُلا کے مجھے
طلب کے واسطے حسنِ طلب بھی ہے درکار
طریقے آئیں گے کب عرض ِ مُدّعا کے مجھے
یہ کِس کی نیم نگاہی کا ہے فسوں طاری
یہ کون دیکھ رہا ہے نظر چراکے مجھے
ہزار باتوں میں میں ایک بات بھول گیا
وہ بات یاد بھی آئی تو دور جاکے مجھے
حفیظؔ جس کے لیے محوِ انتظار تھا میں
گزر گیا ہے ابھی اِک جھلک دِکھاکے مجھے
بہت اعلیٰ حفیظ بھائی۔۔۔
 
جناب احمد فراز کے لیے دوسری غزل دوسرے مصرعِ طرح پر پیشِ خدمت ہے۔
اک کلی تھی جو کھل گئی ہے ابھی
زندگی مسکرا اٹھی ہے ابھی
زندگی مثل سنگ ساکن تھی
مثل باد صبا چلی ہے ابھی
راہ جس میں بہت اندھیرا تھا
مشعلوں سے بھری پڑی ہے ابھی
رنگ تھا یاس کا، اترنے لگا
دھول تھی، دھول اڑ رہی ہے ابھی
اس کی آنکھیں کھلیں تو ہم سمجھے
دور شمع کوئی جلی ہے ابھی
دیکھئے مان کر جئیں کہ مریں
اک نصیحت تو اس نے کی ہے ابھی
عشق سے ایک انسیت ہم کو
درد سے ایک دوستی ہے ابھی
جان لے کر بھی ان کے چہرے پر
اک قیامت کی سادگی ہے ابھی
جن کو شمع بھی چھو نہیں پائی
ان پتنگوں میں سرکشی ہے ابھی
میری منزل نہ بن سکی منزل
راہ بھی راہ دیکھتی ہے ابھی
ہم کو مرنا تھا، زندگی لیکن
اک مصیبت بنی کھڑی ہے ابھی
اس سے پہلے مرا نصیب نہ تھی
میری قسمت مجھے ملی ہے ابھی
جیسے کوئی مکان خالی ہو
شہنواز ایسی شاعری ہے ابھی۔۔۔
واہ واہ صاحب کیا کہنے۔۔۔۔
جان لے کر بھی ان کے چہرے پر
اک قیامت کی سادگی ہے ابھی
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
محمد اظہر نذیر کی کوشش بھی اچھی رہی۔۔۔
میں مانتا ہوں بڑی غلطیاں ہوٴیں مجھ سے
تھکا نہیں ہے وہ سب کیوں بتا بتا کے مجھے
اچھے شاعر کی یہی پہچان ہے کہ اس کا دل بڑا ہوتا ہے۔۔
 
Top