احساس

ایس ایم شاہ

محفلین
احساس
تحریر: ایس ایم شاہ
_برفباری اپنے عروج پر تھی اور درجہ حرارت نقطۂ انجماد سے 12درجہ گر چکا تھا۔ بزرگوں کی خبر خیریت دریافت کرنا اپنا اخلاقی فریضہ سمجھ کر ایک بزرگ کے ہاں گیا۔ وہ بہت ہی خوشحال ہوئے، سلام و دعا اور حال احوال دریافت کئے۔ پھر حالات حاضرہ پر گفتگو شروع ہوئی۔ موصوف گزشتہ زمانے کے حالات کا موجودہ زمانے سے موازنہ کرنے لگے، پھر میں نے ذرا سر اٹھا کر ان کے چہرے پر طائرانہ نظر دوڑائی۔ ان کی باڈی لینگویج سے ہی یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ موصوف سارے جہاں کا درد و الم اپنے سینے میں سمیٹے ہوئے کسی ایسے شخص کی تلاش میں ہیں کہ جس کی طرف وہ اپنے ڈھیروں احساسات اور درد دل کو منتقل کرسکیں۔ بزرگ کی درد بھری پرخلوص گفتگو میں یہ حرارت و تأثیر تھی کہ جس نے سردی کے احساس کو ہی فراموشی کی دنیا میں منتقل کر دیا۔ اب میں نے اظہار نظر کرنا چھوڑ دیا اور بزرگ کو کھل کر اپنا درد دل بیان کرنے کا موقع فراہم کیا۔ موصوف نے ایک خوبصورت تمثیل یوں پیش کیں کہ ہمارا معاشرہ بھی ہمارے جسم کی مانند ڈھیروں احساسات کا ایک مجموعہ ہے۔ ہمارا جسم اس وقت تک سالم رہتا ہے جب تک اس میں ہر قسم کا حس سالم ہوتا ہے۔ درد کا احساس، تپش کا احساس، آنکھوں کی بینائی کمزور ہونے کا احساس، دل کی دھڑکن کم زور ہونے کا احساس، مختلف اعضاء و جوارح کی کمزوری کا احساس، پیٹ میں درد ہونے کا احساس، سر میں درد کا احساس وغیرہ وغیرہ۔ جس دن یہ احساسات ماند پڑ جائیں تو اس دن وہ انسان نیم مردہ شمار ہوگا۔ اس کے اعضا و جوارح مفلوج ہو جائیں گے۔ وہ شخص دنیا کی سب سے خطرناک بیماری سرطان یعنی کینسر کا مریض کہلائے گا۔ کینسر وہ خطرناک بیماری ہے کہ جس میں انسان درد کا احساس کھو بیٹھتا ہے لیکن اندر سے وہ کھوکھلا ہوجاتا ہے۔اسی طرح ہمارے سماج کا حال بھی ہے۔_
_مجھے یہ تمثیل بہت پسند آئی اور ان سے استفسار کیا محترم وہ کیسے؟ کہنے لگے کہ سماج میں مختلف سطح کے افراد، مختلف فکر کے افراد، مختلف جذبہ رکھنے والے افراد، مختلف ہنر رکھنے والے افراد اور مختلف طریقوں سے خدمت انسانیت کے جذبے سے سرشار افراد ہوتے ہیں۔ ان میں امیر بھی ہوتے ہیں اور غریب بھی، بیمار بھی ہوتے ہیں اور تندرست بھی، معاشرے کی تعمیر و ترقی میں بھرپور حصہ لینے والے افراد بھی ہوتے ہیں اور دنیا وما فیہا سے غافل لوگ بھی۔_
_جب تک کسی سماج کے افراد کے مابین احساس کا عنصر غالب رہتا ہے تو وہ معاشرہ زندہ معاشرہ کہلاتا ہے۔ زندہ معاشرہ وہ معاشرہ ہے کہ جس میں امیر کو غریب کا احساس ہو، صحت مند کو بیمار کا احساس ہو، چھوٹے کو بڑے کا احساس ہو، مردوں کو خواتین کے احترام اور حقوق کا احساس ہو، بیوی کو شوہر کے احترام کی پاسداری کا احساس ہو، والدین کو اپنے بچوں کے مستقبل اور ان سے محبت کا احساس ہو، بیٹے بیٹیوں کو اپنے والدین کے بڑھاپے میں ان کی کمزوریوں اور ناتوانیوں کا احساس ہو، جن کے سروں پر والدین کا محبت بھرا سایہ برقرار ہے انہیں ان عظیم نعمتوں سے محروم یتیموں کے بے سہارا ہونے کا احساس ہو، جو افراد کسب معاش کا مستقل ذریعہ رکھتے ہیں وہ بے روزگار افراد کے لئے گزر بسر کا اہتمام کرنے کا احساس رکھتا ہو۔ جو افراد عزیزوں کے بیمار ہونے پر دل کھول کے خرچ کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں انہیں ناداروں کی تیمار داری کا احساس ہو، اپنے گھر میں پرآسائش و پرتعیش زندگی گزارنے والے افراد کو اپنے ہمسائے اور اطراف میں موجود ایک وقت کی روٹی کے لئے ترسنے والے تنگ دستوں کا احساس ہو، جن کے ہاں زندگی کی تمام تر سہولیات میسر ہیں انہیں غریبوں، مسکینوں، یتیموں، بیواؤں، بے نواؤں، بے سہاروں، بے چینوں، بے آسروں، بے اولادوں اور سفید پوشوں کی مجبوریوں کا احساس ہو۔ ایک مسلک کے پیروکار کو دوسرے مسالک کے پیروکاروں کی تکفیر کرنے کے بجائے ان کے جذبات کا احساس ہو، ایک ملت کا دوسری ملتوں کے افراد کے جذبات و احساسات کا احساس ہو، ایک صوبے کے باسیوں کو دوسرے صوبوں کے رہنے والوں کی ضروریات اور مشکلات کا احساس ہو،_
_ماورائے قانون بے گناہ شہریوں کو لاپتہ کرنے والوں کو کم از کم یہ احساس ہو کہ کسی گھر کے سربراہ کو جب اٹھایا جاتا ہے تو اس کے گھر والوں پر کیا قیامت ٹوٹ پڑتی ہے۔ ایک اسلامی ملک کے شہریوں کو دوسرے اسلامی ممالک میں سکونت پذیر مسلمانوں کے درد و الم اور سختیوں کا احساس ہو۔ _تمام مسلمانان عالم کو کم از کم یہ احساس ہو کہ عرصہ سات سالوں سے یمنی مظلوم مسلمان آل سعود کے ظلم کی چکی میں پس رہی ہے، ان کا انفراسٹرکچر مکمل تباہ ہوچکا ہے، لاکھوں مائیں بے سہارا، لاکھوں بچے یتیم، لاکھوں خواتین بیوہ ہوچکی ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ لہذا اس گھمبیر معاملے کا حل نکالنا چاہئے، ورنہ کل کو میدان محشر میں اگر یہی یمنی مظلوم مسلمان ہمارا گریبان پکڑ لیں گے تو ہم داور حشر کو کیا جواب دیں گے؟ ایک طرف وہ بزرگ زبان سے اپنے سینے میں موجزن احساسات کو بیان کر رہے تھے تو دوسری طرف ان کی آنکھیں اشکبار تھیں۔ ان کی یہ حالت دیکھ کر میری آنکھیں بھی نمناک ہوگئیں۔ میں نے عرض کی محترم! گزشتہ اور حال میں بنیادی فرق کیا ہے؟ جواب میں کہا کہ الحمد للہ آج کل کے اکثر جوان عبادات میں تو کافی آگے ہیں لیکن ان کی اخلاقیات دن بہ دن رو بہ زوال ہیں، احساسات کمزور ہوتے جارہے ہیں، نفسا نفسی کا دور دورہ ہے، مغربی لباس میں ملبوس ہوکر اپنے سامنے گرتے ناتوان کو سہارا دینا اپنے لئے عیب سمجھتے ہیں، مریضوں کی عیادت کرنے سے غفلت برتتے ہیں، کسی کمزور، بزرگ اور ناتوان شخص کا ہاتھ بٹانا اپنے لئے ننگ و عار سمجھتے ہیں اور گرتے کو سہارا دینا اپنی شخصیت کے منافی سمجھتے ہیں، جبکہ پہلے لوگ ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاشرے کے کمزور افراد کے کاموں کو سب مل کر پہلے نمٹا دیتے تھے پھر اپنے کاموں کو بعد میں انجام دیتے تھے، بزرگوں کی خبرخیریت دریافت کرنا سب اپنا بنیادی فریضہ گردانتے تھے، مری کے حالیہ سانحے میں بھی اہالیان مری اور ہوٹل مالکان کے احساسات اگر زندہ ہوتے تو 22 قیمتی جانیں ضائع نہ ہوجاتیں اور ان کے گھروں میں صف ماتم نہ بچھ جاتی۔_
_میں نے بھی ان کے ہاں میں ہاں ملاکر اس بزرگ کے لئے دعائے خیر دی۔_
_یقینا آج کے اس دور میں جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ احساس ہے۔ یہ ہم سب کی زمہ داری ہے کہ ہم اپنے اندر موجزن خداداد پاکیزہ فطری احساسات کو معاشرتی آلودگیوں سے آلودہ ہونے سے بچائیں؛ کیونکہ ہم اس رحمۃ للعالمین کے پیروکار ہیں جو بے سہاروں کا سہارا، یتیموں کا سایہ، مسکینوں کا مددگار اور غریبوں کے احساس محرومی کا مداوا تھے۔ ہم اس خلیفۃ المسلمین و امام المتقین مولا علی علیہ السلام کے پیروکار ہیں کہ جو یہ فرماتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ میں یہاں بیٹھ کر کیسے سیر ہوکے کھانا کھا سکتا ہوں جبکہ ممکن ہے کہ حجاز یا یمامہ میں کوئی غریب شخص روٹی کے ایک ٹکڑے کے لئے ترس رہے ہوں۔_
 
Top