احساس کی قبروں پہ نوحہ کناں۔۔۔۔۔انسانیت

سحر کائنات

محفلین
احساس کی قبروں پہ نوحہ کناں۔۔۔۔۔انسانیت
تحریر: سحر شعیل
ایک بہت ہی حساس عنوان پر خامہ فرسائی کی جسارت کر رہی ہوں۔
کچھ ماہ پہلے کی روداد سنیے کہ ایک شام شہر کے ایک معروف ترین میڈیکل سٹور پر جانے کا اتفاق ہوا ۔کیا دیکھتی ہوں کہ ایک عورت کچھ گولیاں خرید رہی ہے۔سیلز مین عورت کو کہتا ہے کہ گولیوں کا یہ ہورا پیکٹ آپ کو خریدنا ہو گا کیوں کہ اس میں سے کم نہیں دی جا سکتی ہیں۔عورت مسلسل اصرار کر رہی ہے کہ میرے گھر میں مریض کو اشد ضرورت ہے ان گولیوں کی اور میرے پاس پورا پیک خریدنے کے پیسے نہیں ،آج میں بس دو ہی خریدنے کی طاقت رکھتی ہوں۔سیلز مین اسے مالک کی طرف جانے کا اشارہ کرتا ہے ۔عورت مالک کے پاس جاتی ہے مگر درخواست رد کر دی جاتی ہے۔وہ پریشان حال افسردہ روہانسی ہو کر سٹور سے نکل جاتی ہے۔آنکھوں سے آنسو بہتے نہیں ہیں بس اندر دل پہ گرتے ہیں ۔
اس سارے واقعے کو مشاہدہ کرتے ہوئے میں یہ سوچنے پر مجبور ہوئی کہ اس میڈیکل سٹور کو یومیہ لاکھوں روپے منافع ہوتا ہے کیوں کہ اکثر وہاں دوا لینے کے لئے لمبی قطار میں لگنا پڑتا ہے اور ان کے پاس اتنا بھی ظرف نہیں کہ چند سو کی دوا کسی کی مدد کرنے کی خاطر فی سبیل اللہ دے دی جاتی۔

آگہی، کرب، وفا، صبر، تمنا، احساس
میرے ہی سینے میں اترے ہیں یہ خنجر سارے

یہ رویہ انفرادی نہیں ہے بلکہ اجتماعی طور پر ہم احساس سے عاری ہو چکے ہیں۔ ہماری قوم کا دامن ایسی مثالوں سے بھرا پڑا ہے ۔قیامت کے روز جب اعمال کی پرسش ہو گی تو سوال ہو گا کہ
جو خوبیاں تم میں ودیعت کی گئیں ان سے خلق خدا کو کتنا فیض پہنچایا اور اگر ہم اس سوال کے جواب میں پاس نہ ہوئے تو دنیا میں جمع کیا گیا مال بھی نہیں بچا پائے گا۔
معاشرے میں احساس انسانیت کا ایک بنیادی جزو ہے۔معاشرے میں احساس ایک مختلف رنگوں، محسوسات اور تجربات کا مجموعہ ہے۔ یہ ہمیں دوسرے افراد کی خوشیوں، غموں، تشویشوں اور رنجوں کا احساس دلاتا ہے۔ ہم اپنے آس پاس کے لوگوں کے ساتھ مل کر ان کے دکھوں اور خوشیوں کا حصہ بنتے ہیں۔ یہ احساس ہمیں اپنے آس پاس کی سماجی حقیقت کا عینی حصہ بناتا ہے۔یہ احساس کی دولت ہی ہے جس سے غیر مسلم اقوام مالا مال ہیں اور آج ان کا شمار مہذب قوموں میں ہوتا ہے جبکہ ہم انفرادی طور پر بھی ناکام ہیں اور بحیثیت قوم بھی پستی کے اندھیرے گڑھوں کی طرف دھکیلے جا رہے ہیں اور افسوس کی بات یہ کہ کوئی اور نہیں دھکیل رہا ہم خود اپنے آپ کو کھینچ کر گم راہی کی طرف لے جا رہے ہیں۔
آج مال و دولت اور مادی اشیاء ہماری زندگی کا محور و مرکز ہیں اور ہم اپنے عقل اور شعور کو انسانیت کی تعمیر کی بجائے انسانیت کی تخریب پر استعمال کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔زندگی کے بارے میں ہمارے رویّے اور ہماری سوچیں دن بہ دن کس قدر سفاکانہ اور ظالمانہ ہوتی جارہی ہیں اس کا اندازہ ہمارے معاشرے میں تیزی سے پھیلتی ہوئی بے حسی اور انتشار سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔آج انسانی معاشرہ انسانوں سے محروم ہو چکا ہے۔اس کی زندہ مثالیں ہم خود ہیں۔
لفظ احساس اپنے معنوی اعتبار سے بہت وسیع ہے ۔احساس ذمہ داری ہو یا،احساس انسانی ہم دردی ،ہر لحاظ سے یہ لفظ بڑا اہم ہے۔یہ معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور شاید اس کے ناپید ہونے سے ہی معاشرہ لنگڑا لولا ہو چکا ہے ۔یہ احساس انسانیت ہی ہے جو ہمیں معاشرتی رابطوں کو مزید مستحکم کرنے کے لئے ترغیب دیتا ہے اور ایک بہتر دنیا کی تشکیل میں مدد فراہم کرتا ہے۔
احساسات انسانی زندگی کا اہم حصہ ہیں اور معاشرے میں احساسات کی اہمیت بھی بہت زیادہ ہوتی ہے. احساسات انسانی تعاملات میں معاشرتی روابط کو قوت بخشتے ہیں اور افراد کو ایک دوسرے کے ساتھ جڑنے کا احساس دیتے ہیں. معاشرتی ماحول میں احساسات کا اظہار کرنا، دوسروں کو سمجھنا اور ان کے ساتھ جڑے رہنا، اتفاق واقع ہونے کی صورت میں خوشی منانا یا افراد کی مدد کرنا وغیرہ، احساسات کی ترقی اور تفکری تعامل کو مضبوط بناتے ہیں.
ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ہر شخص یہ سوچ کر غلط افعال کرتا ہے کہ میرے ایک کے کرنے سے کیا ہو گا۔اسی طرح نیکی اور اچھائی کے کام میں بھی ہم یہی روش اپناتے ہیں کہ میرے ایک کے کرنے سے کیا ہو گا۔حا لانکہ ہر فرد اپنے اندر ایک مکمل وجود ہے ۔یہی چھوٹے چھوٹے اعمال (ا چھے ہوں یا برے) اجتماعی طور پر معاشرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
اس بات سے ایک واقعہ یاد آیا کہ ایک گاؤں میں کوئی وبا پھوٹ پڑی۔بوڑھے بزرگوں نے کہا کہ بچاؤ کا ایک ہی طریقہ ہے گاؤں کے باہر جو تالاب ہے اسے دودھ سے بھرنا ہے۔اس طرح یہ آفت ٹل جائے گی۔طے یہ پایا کہ ہر شخص رات کے اندھیرے میں ایک بالٹی بھر کر دودھ ڈال کر آئے گا۔رات بھر یہ سلسلہ چلتا رہا۔اگلی صبح جب جا کر دیکھا گیا تو تالاب دودھ کی بجائے پانی سے بھرا ہوا تھا کیوں کہ ہر شخص نے یہ سوچ کر ایک بالٹی پانی ڈالا کہ اتنے دودھ میں میری ایک بالٹی سے کیا ہو گا ۔
کچھ ایسا ہی حال ہمارا ہے۔ہم سوچتے ہیں پاؤر ملے گی،بڑا عہدہ ہو گا،پیسے کی فراوانی ہو گی تو ہی دوسروں کی مدد ہوگی۔جبکہ ہم جس جگہ پر بھی ہیں وہیں رہ کر اپنے اپنے فرائض اچھے سے ادا کر کے ہم انسانیت کی خدمت کر سکتے ہیں۔
ایک بہترین معاشرے کی تخلیق کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو ایمان داری سے نبھائیں۔ہمیں لوگوں کے ساتھ احترام، اصول اخلاق، اور انصاف کا سلوک کرنا چاہئے۔ ہمیں انسانی حقوق کا حامی بننا چاہئے اور دیگر لوگوں کی مدد کرنا چاہئے جب وہ ضرورت میں ہوں۔کرو مہربانی تم اہل زمیں پر کا فارمولا اپنی اپنی زندگیوں میں اپلائی کریں اور اس کے خوش گوار اثرات دیکھیے۔یقین جانیے کسی کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو اور ہونٹوں پر مسکراہٹ اگر آپ کی وجہ سے آئے تو اس دولت کا نعم البدل دنیا بھر کے خزانے بھی نہیں ہو سکتے۔
رنگ و نسل کے امتیاز کو بالائے طاق رکھ کر دکھی انسانیت کی خدمت، مجبور و لاچار لوگوں کی مدد کرنا مسلم معاشرے کی خوبصورت روایت اور اسلامی تعلیمات کا خاص وصف ہے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بحیثیت انسان اپنے اشرف المخلوقات ہونے کے اعزاز سے انصاف کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
 
Top